پاناما لیکس کی دستاویزات کے بعد دوسرا بڑا مجموعہ”پیراڈائز لیکس“ منظرعام پر آگیا

 
0
483

لندن نومبر6(ٹی این ایس)پاناما لیکس کی دستاویزات دوسرا بڑا مجموعہ منظرعام پر آگیا ہے جس میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ٹیکس بچانے کے محفوظ مقامات کا انکشاف کیا ہے جس سے دولت اور طاقت کا تعلق واضح ہو جاتا ہے اور اس میں پاکستانیوں کے آف شور اکاﺅنٹس کے معاملے میں بھی وسعت آئی ہے۔

نئی دستاویزات میں شوکت عزیز کا نام بھی شامل ہے جنہوں نے ایک غیر اعلانیہ ٹرسٹ میں اس وقت پیسے چھپائے جب وہ ملک کے وزیراعظم تھے۔نئی لیک ہونے والی دستاویزات کو ”پیراڈائز لیکس“ کا نام دیا گیا ہے اور ان کی وجہ سے دنیا کے کئی دارالحکومت ہل گئے ہیں۔ مجموعی طور پر ایک کروڑ34 لاکھ دستاویزات جاری کی گئی ہیں۔

ان دستاویزات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ارب پتی وزیر تجارت کے روسی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات، کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کیلئے فنڈ جمع کرنے والے سرکردہ شخص کی خفیہ سرمایہ کاری، ملکہ برطانیہ اور ملکہ اردن اور دنیا بھر کے 120 سیاست دانوں کی آف شور سرمایہ کاری کے حوالے سے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔ان دستاویزات میں سوشل میڈیا کی معروف سائٹس جیسا کہ ٹوئٹر اور فیس بک کو بھی اسکروٹنی کے دائرے میں لایا گیا ہے جنہوں نے روس کی سرکاری کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، یہ بات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکی کانگریس ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے جعلی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے حوالے سے تحقیقات کر رہی ہے۔

ان خبروں نے امریکی صدارتی الیکشن پر فیصلہ کن اثر مرتب کیا تھا۔ان دستاویزات کے ذریعے عوام کو یہ معلومات بھی مل سکیں گی کہ کس طرح ایپل، اوبر، نائیکی اور دیگر بین الاقوامی کمپنیوں کو یہ سہولتیں دی گئی ہیں کہ وہ آف شور کمپنیوں کو اپنا منافع منتقل کرکے ٹیکس سے بچ سکتی ہیں۔ نئی جاری ہونے والی دستاویزات جرمن اخبار سودوش زائتونگ نے حاصل کیں اور انہیں بین تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی کنسورشیم (آئی سی آئی جے) کے ساتھ اور دنیا کے 67 ملکوں کے 380 دیگر صحافیوں کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔یہ دستاویزات آف شور خدمات فراہم کرنے والی دو کمپنیوں کی جانب سے سامنے آئی ہیں، یہ کمپنیاں برمودا (ایپل بی) اور سنگاپور (ایشیاٹک ٹرسٹ) ہیں۔ لیک کی گئی فائلوں میں کیریبین، پیسفک اور یورپ جیسا کہ اینٹیگا اور باربوڈا، دی ک±ک آئی لینڈ اور مالٹا میں دنیا کے انتہائی خفیہ کارپوریٹ مقامات کی سرکاری کاروباری رجسٹریاں شامل ہیں۔

ان ڈیٹا بیسز میں دنیا کی مصروف ترین خفیہ حدود کی دستاویزات کا پانچواں حصہ شامل ہے۔پاکستانیوں کے حوالے سے ملنے والا بیشتر ریکارڈ برمودا، برٹش ورجن آئی لینڈ، کیمین آئی لینڈ، مالٹا اور دیگر ملکوں سے ملا ہے۔ نیشنل انشورنس کارپوریشن لمیٹڈ (این آئی سی ایل) کے سابق چیئرمین ایاز خان نیازی، صدر الدین ہاشوانی، میاں منشاء، ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ٹی ایچ) لائسنس کی کامیاب بولی دینے والے، ظہیر الدین، سونیری بینک کے مالک نورالدین فیراستا، چیئرمین داﺅد ہرکولیس کارپوریشن حسین داﺅد اور دیگر نامور پاکستانیوں کی شناخت سامنے آئی ہے جنہوں نے آف شور سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

تقریباً 135 ایسے پاکستانیوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں جن کے اپنے نام سے یا پھر آف شور کمپنیوں کے نام سے سوئس بینکوں میں اکاﺅنٹس موجود ہیں۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کا نام دو ٹرسٹ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک ٹرسٹ سٹی بینک بہاماس نے قائم کیا تھا جس میں وہ ڈائریکٹر تھے۔اس ٹرسٹ کا نام سٹی ٹرسٹ لمیٹڈ تھا یہ ٹرسٹ اس وقت قائم کیا گیا جب وہ اسی بینک میں ایگزیکٹو تھے۔ایک اور ٹرسٹ جو انہوں نے خود قائم کیا اس کا نام اینٹارکٹک ٹرسٹ تھا جس کے بینیفشری ان کی اہلیہ رخسانہ عزیز اور تین بچے عابد عزیز، ماہا عزیز، لبنیٰ خان اور تانیہ خان (پوتی) ہیں۔ وزیر خزانہ بننے سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے یہ ٹرسٹ امریکی ریاست ڈیلاویئر میں قائم تھا جس کے انتظامات برمودا سے سنبھالے جا رہے تھے۔ شوکت عزیز نے اس ٹرسٹ کا ذکر وزیر خزانہ بننے کے وقت کیا اور نہ ہی وزیراعظم بننے کے وقت اس ٹرسٹ کو ایپل بی لا فرم نے ”ہائی رسک“ کلائنٹ قرار دیا تھا۔نیویارک میں اپنے وکیل کے توسط سے بات کرتے ہوئے شوکت عزیز نے کہا کہ انہیں پاکستان میں اس ٹرسٹ کا اعلان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ اس ٹرسٹ کے سیٹلر تھے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کی اہلیہ اور بچے نے اس کا ذکر کیا؟ تو شوکت عزیز نے کہا کہ انہیں بھی یہ ٹرسٹ ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ بینیفشری تھے نہ کہ بینیفشری اونرز ‘ انہوں نے کہا کہ قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ان کے وکیل نے کہا کہ مسٹر عزیز نے اینٹارکٹک ٹرسٹ وزیر خزانہ بننے سے تھوڑا عرصہ قبل قائم کی تھی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اگر وہ مر جاتے ہیں تو ان کے اثاثے پرسکون انداز سے ان کے اہل خانہ کو مل سکیں۔چونکہ پاکستان میں خدمات انجام دینے کے دوران ان پر ایک سے زیادہ مرتبہ جان لیوا حملہ ہو چکا تھا اس لئے ان کے خدشات بجا تھے۔ایاز خان نیازی کا نام برٹش آئی لینڈ میں چار آف شور کمپنیوں بشمول ایک ٹرسٹ کے ساتھ سامنے آیا ہے۔باقی تین کمپنیوں کی حیثیت میں قائم کی گئیں جن میں اندلیسن اسٹیبلشمنٹ لمیٹڈ، اندلسین انٹرپرائزز لمیٹڈ اور اندلسین ہولڈنگز لمیٹڈ‘یہ تمام کمپنیاں اور ٹرسٹ اس وقت قائم کی گئیں جب 2010ءمیں ایاز خان این آئی سی ایل کے چیئرمین تھے۔

ان کے دو بھائی حسین خان نیازی اور محمد علی خان نیازی ان سرمایہ کاریوں میں بینیفشل اونرز تھے جبکہ ایاز اپنے والد عبدالرزاق خان اور اپنی والدہ فوزیہ رزاق کے ساتھ ڈائریکٹر تھے۔پاکستان میں ہوٹلز اور تیل کی صنعت سے وابستہ ایک بڑی کاروباری شخصیت صدر الدین ہاشوانی کی بارباڈوس اور کیمین آئی لینڈ میں ایک ایک کمپنی ہے جن کے نام باﺅ انرجی ریسورسز‘ ایس آر ایل اور اوشن پاکستان لمیٹڈ ہیں۔دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کمپنیوں کو ایک اور آف شور ملک ماریشیس کے اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک اور لندن میں اسی بینک کی ایک اور شاخ سے بھاری قرضہ حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تھا۔یہ دو کمپنیاں پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی کمپنیوں کے علاوہ ہیں۔ پاناما پیپرز میں نارتھ ایٹلانٹک سروسز لمیٹڈ اور رش لیک ہوٹلز (یو ایس اے) انکارپوریٹڈ رجسٹرڈ برٹش ورجن آئی لینڈ ، کا نام سامنے آیا تھا۔

مقامی جریدے سے بات کرتے ہوئے ہاشوانی نے موقف اختیار کیا ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال بھی تفصیلی جواب دیا تھا (جب پاناما پیپرز میں ان کی کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی تھی) اور اس تفصیلی جواب میں مزید کوئی بات شامل کرنے کی ضرورت نہیں۔جہاں تک اسٹینڈرڈ چارٹرڈ کی ماریشس برانچ سے قرضہ لینے کا سوال ہے تو یہ کاروباری نوعیت کا قرضہ تھا اور بینک کے حق میں چارج ایس ای سی پی میں رجسٹر کیا گیا تھا لہٰذا چھپانے کی کوئی بات موجود نہیں ہے۔نشاط گروپ کے چیئرمین میاں محمد منشا کا تعلق 6 آف شور کمپنیوں کے سا تھ سامنے آیا ہے۔ ان میں سے چار ورجن آئی لینڈ میں ہیں جن کے نام یہ ہیں، مالین سیکورٹیز لمیٹڈ، میپل لیف انوسٹمنٹ لمیٹڈ، لائل ٹریڈنگ لمیٹڈ، ڈولین انٹرنیشنل لمیٹڈ۔باقی دو کمپنیاں ماریشس میں ہیں جن کے نام کروفٹ لمیٹڈ اور بیسٹ ایگلز ہولڈنگز انکارپوریٹڈ ہیں۔ ان کمپنیوں کے ساتھ جڑے ایک سوئس بینک کا حوالہ بھی سامنے آیا ہے جو 1994ءکا ہے اور یہ اکاﺅنٹ 2007ءتک قائم تھا۔ میاں منشا کا کہنا ہے کہ 1990ءکی دہائی میں پاکستان کی سنگین سیاسی صورتحال کی وجہ سے امریکا منتقل ہونا پڑا تھا۔ یہ بینک اکاﺅنٹ اس وقت روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے تھا۔بالاآخر، تقریباً ایک دہائی بعد یہ اکاﺅنٹ ختم کرکے رقم باضابطہ ذرائع سے پاکستان منتقل کر دی گئی تھی اور ان کا حوالہ ٹیکس ریٹرنز میں بھی موجود ہے۔علاﺅ الدین جے فیراستا، سونیری بینک کے چیئرمین ہیں اور وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی رینج ورتھ لمیٹڈ کے مالک ہیں۔

ان کے بھتیجے اور روپالی پولی ایسٹر لمیٹڈ کے چیئرمین نے بھی برٹش ورجن آئی لینڈ میں ایک کمپنی قائم کی ہے جس کا سوئس بینک میں ایک اکاﺅنٹ ہے۔دونوں نے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کیا ہے۔ امریکی عدالت میں منی لانڈرنگ کے جرم کا اعتراف کرنے والے عبید الطاف خانانی کا بھی سوئس بینک میں اپنی والدہ کے ساتھ ایک مشترکہ اکاﺅنٹ سامنے آیا ہے۔حسین داﺅد کو آئیل آف مین میں رجسٹرڈ کمپنی سے تعلق میں شناخت کیا گیا تھا، اس کمپنی کانام ہرکولیس انٹرپرائزیز لمیٹیڈ تھا اور اس کے سوئس اور فرینچ بینکوں میں دو کھاتے بھی تھے۔اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بزنس مین ظہیر الدین جو ڈی ٹی ایچ لائسنس حاصل کرنے والے تین افراد میں سے ایک تھے، وہ برٹش ورجن آئی لینڈ میں تین کمپنیوں کے مالک تھے اور بینک آف برمودا اور ایچ ایس بی سی برمودا مین ان کے دو اکاﺅنٹس تھے اور جب پیمرا میں ڈی ٹی ایچ کی بولی کیلئے کاروبار کی تفصیلات جمع کرائی گئی تھیں تو ان میں سے کسی کا بھی انہوں نے بزنس پروفائل میں اعلان نہیں کیا تھا۔ماریشس میں قائم ایک آف شور کمپنی Balyasny SI لمیٹیڈ نے سابق گورنر سلمان تاثیرکی ملکیتی ڈیلی ٹائمز اخبار میں سرمایہ کاری کی تھی۔

یہ کمپنی مکمل طور پر شکتی ماسٹر فنڈ ایل پی کی سبسیڈری ہے۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 2011  میں Balyasny کے حصص کے بینی فشل اونرشپ کے بارے میں معلومات طلب کی تھیں جس کا یہ جواب موصول ہوا تھا کہ کمپنی (Balyasny) حصص کی بینی فشل مالک ہے۔اس نے پیس پاکستان کے حصص بھی خریدے تھے جو تاثیر خاندان کی ملکیت ہے۔ اس سلسلہ میں شہریار تاثیر کا کہنا ہے کہ یہ ایک کارپوریٹ ارینجمنٹ تھا۔ اسماعیلی برادری کے روحانی رہنما اور برطانوی شہری پرنس کریم آغا خان ریکارڈ میں دو وجوہات کی بنا پر سامنے آئے۔وہ آئیل آف مین‘ براو رومیو میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ اپیل بائے ریکارڈ کے مطابق کمپنی ایک چھوٹے بحری جہاز کی ملکیت کے لئے استعمال کی گئی تھی۔اپیل بائے کے نزدیک اس کمپنی کو ہائی رسک خیال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اس کی موزوں نگرانی کرنے کے قابل نہیں تھے۔ ایپل بائے، آغا خان فنڈ فار اکنامک ڈولپمنٹ ایس اے کے لئے بھی کام کرتی ہے جو کہ آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک کا ایک معاون ادارہ ہے اور یہ دنیا کی سب سے بڑی نجی ڈولپمنٹ ایجنسی ہے۔دستاویزت سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ کی کوئن الزبتھ دوم نے کےمین آئی لینڈ فنڈ میں سرمایہ کاری کی تھی جس نے ایک نجی ایکویٹی کمپنی میں سرمایہ کاری کی جو برائٹ ہاﺅس کو کنٹرول کرتی تھی ، یہ برطانیہ کی ایک رینٹ ٹو اون کمپنی ہے، جس پر ارکان پارلیمنٹ اور صارفین کے نگران اداروں نے تنقید کی کہ یہ ادارہ نقد ادا نہ کر سکنے والے برطانیوں کو گھریلو اشیا 99 اعشاریہ 9 فیصد سود پر فروخت کرتا ہے۔آئی لینڈ آف جرسی میں اردن کی ملکہ بھی دو ٹرسٹ کی مالک ہیں۔ان میں سے ایک ان کی وسیع وعریض برطانوی جائیدادوں کی مالک ہے۔

امریکا کے فور اسٹار جنرل اور ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارت کے لئے پرامید ویزلے کلارک آن لائن جوا کمپنی کے ڈائریکٹر تھے جس کی آف شور معاون کمپنیاں تھیں۔ ویزلے یورپ میں ناٹو کے سپریم کمانڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔دی ایپل بائے فائلز سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کے کامرس سیکرٹری ولبر رووس (Wilber Ross) ایک شپنگ کمپنی نیویگیٹر ہولڈنگز کے مالی اثاثوں کی دیکھ بھال کے لئے کےمین آئی لینڈ کے ایک پورے سلسلے کو استعمال کر چکے ہیں، اس کمپنی کے اعلی ترین صارفین میں روسی حکومت سے وابستہ انرجی فرم Sibur بھی شامل ہے جس نے نیویگیٹر ہولڈنگز کو 2016 میں 23 ملین ڈالر سے زیادہ ادا کیے تھے۔اس کمپنی( Sibur) کے مالکان میں روسی صدر ولادمیر پوٹن کے داماد کیرل شامالوف (Kirill Shamalov) کے ساتھ ایک روسی ارب پتی بھی شامل ہے جس پر امریکی حکومت نے 2014 میں پوٹن کے ساتھ تعلق کی وجہ سے پابندی عائد کردی تھی۔

یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جن امریکا کے سیاسی معاملات میں روس کے خفیہ طور پر ملوث ہونے کے بارے میں تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔”ولبر رووس“ (Wilber Ross) کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کامرس سیکرٹری نے کبھی پوٹن کے داماد یا Sibur کے دیگر مالکان سے ملاقات نہیں کی اور جب نیویگیٹر نے Sibur کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا تو وہ نیویگیٹر کے بورڈ میں نہیں تھے۔ Ross کے ترجمان نے کہا ہے کہ رووس نے عالمی شپنگ سے متعلق معاملات سے خود کو الگ کر لیا تھا اور وہ روسی اداروں کے خلاف عام طور پر انتظامیہ کی پابندیوں کی حمایت کر تے رہے ہیں۔امریکا میں قائم سوشل میڈیا کے دنیا کے بڑے اداروں میں روسی سرمایہ کاری بھی ثابت ہوچکی ہے۔ روس کے ایک سرکاری ملکیت کے حامل بینک نے 2011 میں ٹوئیٹر انکارپوریٹیڈ میں 191 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے روسی سرمایہ کار یوری ملنر(Yuri Milner) نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح یوری ملنر کے ذریعے فیس بک میں ایک ارب ڈالر کے قریب سرمایہ کاری کی گئی تھی اور انہوں نے حال ہی میں ٹرمپ کے داماد کے ساتھ مشترکہ طور پر قائم کی گئی رئیل اسٹیٹ کی فرم میں ساڑھے 8 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔

پیراڈائز پیپرز میں دنیا بھر کی جن سرکردہ سیاسی شخصیات کے نام سامنے آئے ہیں ان میں یہ افراد شامل ہیں۔برازیل کے وزیر زراعت بلیرو بورگز ماگی، امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد صدارتی امیدوار ویزلی کلارک، یوگنڈا کے وزیر خارجہ سیم کامبا کوتیسا، آسٹریا کے سابق چانسلر الفریڈ گوزین باﺅر، سعودی عرب کے سابق وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلطان بن عبدالعزیز، مونٹینیگرو کے سابق رہنما کی بہن اینا کولاریویچ، عراقی پارلیمنٹ کے سابق رکن موزر غسان شوکت، یوکرین کی پارلیمنٹ کے سابق رکن اینتون پریگوڈسکی، کینیا کی سابق وزیر زراعت سیلی کوسیگی، قازقستان کے سابق وزیر برائے توانائی و تجارت مختار ابلیازوف، قازقستان کے سابق وزیر برائے تیل و گیس سوت مینابایوف، میکسیکو کے سابق قومی سلامتی کے سیکریٹری الیہاندرو گرتیز مانیرو، گھانا کے سابق صدر کے بھائی ابراہیم ماہاما، انڈونیشیا کے سابق صدر کے بچے ٹومی اور مامیک سوہارتو، کوسٹا ریکا کے سابق صدر اور ڈبلیو ای ایف کے سابق چیف ایگزیکٹو ہوزے ماریا فیگوریس، کینیڈا کے سابق وزیراعظم ژان شیریتین، کینیڈا کے سابق وزیراعظم پال مارٹن، کینیڈا کے سابق وزیراعظم برائن ملرونی، جاپان کے سابق وزیراعظم یوکیو ہاتویاما، امریکا کی سابق وزیر تجارت پینی پرتزکر، امریکا کے سابق وزیر برائے ٹریژری کمرشل جیمز مایر ساسون، ایل سلواڈور کے سابق نائب صدر کارلوس کوئن تینیلا شمٹ، لتھوانیا کے ممبر یورپی پارلیمنٹ انتاناس گوگا، بھارتی پارلیمنٹ کے رکن رویندرا کشور سنہا، بھارت کے وزیر برائے ہوابازی جینت سنہا، متحدہ عرب امارات کی دو اہم شخصیات، قازقستان کے وزیر برائے دفاع اور ایرو اسپیس انڈسٹری بیبت اتامکولوف، برازیل کے وزیر خزانہ ہینرک کامپوس، زمبیا کے اپوزیشن لیڈر ہکنڈے سیمی ہشلما، پاکستان کے سابق وزیراعظم شوکت عزیز، انڈونیشیا کے اپوزیشن لیڈر پربووو سوبیانتو، نائیجیریا کی سینیٹ کے صدر بکولا ساراکی، شامی صدر بشار الاسد کے کزن رامی مکلوف، کولمبیا کے صدر ہوان مینوئل سانتوس، لائبیریا کی صدر ایلین جانسن، ترک وزیراعظم کے بیٹے ارقم اور بولنت یلدرم، اردن کی ملکہ نور الحسین، ملکہ برطانیہ الیزابیتھ دوم، امریکی وزیر تجارت ولبر لوئس راس جونیئر، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور یوکرین کے نائب وزیر اعظم ولیری ووشچیوسکی۔جبکہ امریکی پاپ سنگر میڈونا اور بونو ‘سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز ، محمد بن نائف، شہزادہ سعود بن فہد بن عبدالعزیز السعود ، مرحوم شاہ فہد کی بیوی الجوہرا بنت ابراہیم الابراہیم وغیرہ، قطر کے وزیر خزانہ علی شریف العمادی، سابق قطری امیر حماد بن خلیفہ الثانی، شہزادہ حمد بن جاسم بن جبرآل ثانی، آسٹریلوی وزیراعظم، ایران کے ارکان پارلیمنٹ اور 714بھارتیوں کے نام بھی شامل ہیں۔نئی مالیاتی دستاویزات کے افشا ہونے سے پتہ چلا ہے کہ طاقتور اور انتہائی امیر شخصیات جن میں برطانیہ کی ملکہ ایلزبتھ بھی شامل ہیں کس طرح ٹیکس بچانے کے لیے خفیہ طریقے سے بیرون ملک آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وزیر تجارت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کے اس کمپنی میں مفادات ہیں جو ان روسیوں کے ساتھ کام کر رہی ہے جن پر امریکہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ان لیکس میں، جنہیں پیراڈائز پیپرز کا نام دیا گیا ہے، 13.4 ملین دستاویزات شامل ہیں جن میں زیادہ تر ایک صف اول کی آف شور کمپنی کی ہیں۔

دستاویزات سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ راس ولبر کے مالی مفاد ایک شپنگ کمپنی سے وابستہ تھے جو توانائی کی ایک روسی کمپنی سے تیل اور گیس کی نقل و حمل میں کروڑوں ڈالر کما رہی تھی اور اس کمپنی میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے داماد اور دو ایسے اشخاص شیئر رکھتے ہیں جن پر امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں۔دستاویزات میں 180 ممالک کی 25 ہزار سے زائد کمپنیاں، ٹرسٹ اور فنڈز کا ڈیٹا شامل ہے جبکہ ان پیپرز میں 1950 سے 2016 کا ڈیٹا موجود ہے۔ اس تحقیقاتی کاوش میں 67 ممالک کے 381 صحافیوں نے حصہ لیا، پیراڈائز پیپرز میں جن ممالک کے سب سے زیادہ شہریوں کے نام آئے ہیں ان میں امریکا 25,414 شہریوں کیساتھ سرفہرست ہے، برطانیہ کے 12,707، ہانگ کانگ کے 6,120 ، چین کے 5,675 اور برمودا کے 5,124 شہری شامل ہیں۔