صاف پانی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے

 
0
668

کراچی،دسمبر06(ٹی این ایس) : چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارنے کہاہے کہ صاف پانی کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے،انسانی فضلہ دانستہ پینے کے پانی میں شامل کیا جارہا ہے، پانی کی صورتحال سمیت سندھ کی حالت دیکھ کر دکھ ہوتا ہے۔خواہش تھی کہ بلاول بھٹو بھی یہاں ہوتے اور صورتحال دیکھتے، بلاول بھٹو کو بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بدھ کوسندھ کے شہروں کو صاف پانی کی فراہمی کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس ثاقب نثار پر مشتمل فل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ اورسابق سٹی ناظم کراچی مصطفی کمال بھی عدالت میں پیش ہوئے۔وزیراعلی سندھ کی موجودگی میں کمرہ عدالت میں درخواست گزار شہاب اوستو کی دستاویزی فلم پروجیکٹر پر دکھائی گئی۔چیف جسٹس پاکستان نے روسٹرم پر موجود وزیر اعلی سندھ سے کہا کہ ہمارامقصدصرف یہ ہے کہ لوگوں کوآلودہ پانی سے نجات دلائی جائے،اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت کی مدد کریں گے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثارنے ریمارکس دیئے کہ پانی کی صورتحال میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ سے استفسارکیا کہ کیا آپ تیار ہیں ہم دونوں وہ پانی پیتے ہیں، انسانی فضلہ ہم دانستہ طور پر پینے کے پانی میں شامل کر رہے ہیں، ہم لوگوں کو صاف پانی بھی مہیا نہیں کررہے، یہ سندھ حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، آپ جہاں کہیں، وہاں جا کر اس پانی کی ایک ایک بوتل پی لیتے ہیں۔

سماعت کے دوران واٹرکمیشن کی ویڈیو میں ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تباہی دکھائی گئی اورویڈیومیں اہم پمپنگ اسٹیشنز کے مناظر بھی موجود ہیں، جس پروزیراعلی سندھ نے کہا کہ جو ویڈیو دکھائی گئی وہ درخواست گزار کی بنائی ہوئی ہے جبکہ صورتحال اتنی سنگین نہیں ہے، موقع ملا تو بہت جلد سپریم کورٹ میں ویڈیوپیش کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شاہ صاحب، آپ اس ویڈیو کو چھوڑیں مگر کمیشن کی رپورٹ ہی دیکھ لیں، کمیشن کی رپورٹ کی سنگینی کا جائزہ لیں، رپورٹ سے مسائل کا حل تلاش کریں، کمیشن کی رپورٹ مسئلہ کے حل تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، ہم نے بڑے عزت، وقار اوراحترام سے آپ کو بلایا ہے، اس کیس کو مخاصمانہ نہ لیجئے گا، ہماری مدد کی ضرورت ہے تو ہم سے مدد لیں، ہم آپ کی پوری مدد کریں گے، ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کو اس آلودہ پانی سے نجات دلائی جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ خواہش تھی کہ چیئرمین بلاول بھٹو بھی یہاں ہوتے اور صورتحال دیکھتے، بلاول بھٹو کو بھی معلوم ہوتا کہ لاڑکانہ کی کیا صورتحال ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو مسائل حل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا، پیپلزپارٹی کی پچھلی حکومت میں کوئی معاملہ عدالت تک نہیں آیا، انتظامیہ کی ناکامی کے بعد لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، ہم یہاں مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جوویڈیو کورٹ روم میں دکھائی گئی ہے میڈیا کے نمائندے اپنے اپنے چینلزپردکھائیں تاکہ عوام کو پتاچلے، سپریم کورٹ اپنے کندھے آپ کو دینے کے لئے تیار ہے، لیکن شاہ صاحب آپ کو بھی کام مکمل کرنے کی گارنٹی دینی ہوگی، آپ اس قوم کے منتخب لیڈر ہیں، علم، لیڈر شپ اور قانون پر عمل کرنے والی قومیں ہی سرخروہوتی ہیں، ماضی میں جو ہوا ہم دوسرے مرحلے میں ذمہ داروں کا تعین بھی کریں گے، پینے کا پانی صوبائی معاملہ ہے، آپ ہی حل کریں گے، شاہ صاحب سن لیں یہ مسئلہ اب حل ہونا ہے، اگرآلودہ پانی سے نجات نہ دلائی تو اپنے بچوں کو کیا مستقبل دیں گے۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ ہمیں حل بتا دیں کہ مسئلے کا حل ایک ہفتے میں ہوگا یا 10 دن میں، پھراس پرہم سب مل کر کام کریں گے اور انشا اللہ 6 ماہ میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا، ہمیں جواب دینا ہے یہ ہماری ذمہ داری ہے جس پر مراد علی شاہ نے کہا کہ 6 ماہ میں یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ مہلت مانگیں گے تو ہم وقت بڑھا دیں گے، آپ کی کچھ زمہ داریاں بھی ہیں، کیا ہمیں نہیں پتہ رشتہ داروں کو ٹھیکے دیئے جاتے ہیں، مگر ہم ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتے، ہمیں پلان بتائیں، عدالت پورا تعاون کرے گی۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ منتخب ہونے کے بعد طے کیا تھا کچھ مثالیں قائم کروں گا، سمت درست کرنے کی کوشش کررہا ہوں، یقین دلاتا ہوں آپ کو کام نظر آئے گا پرعدالت سے کچھ وقت دینے کی استدعا ہے۔چیف جسٹس نے وزیراعلی سندھ سے کہا کہ یہ طے ہے کہ یہ مسئلہ حل ہونا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ اختیارات ہوں تو حکومت پرچڑھائی کردیں، غیرجانبداری کے ساتھ عوامی مفادات کے لیے آئینی کردارادا کریں گے، جب بھی خلا ہوگا، عدلیہ خلا پرکرتیں ہیں، بد دیانتی کا کوئی ثبوت نہ ملے آپ کا کہا سچ مان لیتے ہیں، سندھ میں کون کون زمہ داریوں پر رہا وہ سب ابھی نہیں دیکھ رہے، لیکن جو بھی ذمہ دار رہا، اسے چھوڑیں گے نہیں، عدالت کو لکھ کر دیں یہ مسائل کب، کیسے حل کریں گے۔

وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ ہم حکمت عملی، طریقے، مالیات وسائل سے متعلق عدالت کو ٹائم فریم دے دیں گے، جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لائٹ موڈ سمجھیں یا سنجیدہ، یہ طے ہے کہ کام ہونا ہے اور ہونا بھی جلدی ہے، یہ آپ ہی کا کام ہے، آپ نے ہی کرنا ہے۔قبل ازیں عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،چیئرمین پی ایس پی سید مصطفی کمال سپریم کورٹ کراچی رجسٹری پہنچے، اس کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر ، ڈی آئی جی ٹریفک عمران یعقوب سمیت ایس ایس پی ساوتھ جاوید اکبر بھی عدالت میں موجود تھے جبکہ سیکرٹریز،ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ اور دیگر حکام بھی وزیراعلی کے ہمراہ عدالت آئے ۔

عدالت میں داخل ہونے سے قبل صحافیوں نے وزیراعلی سندھ سے بات چیت کی تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عام آدمی کی طرح عدالت کے حکم پر پیش ہونا چاہتا ہوں اور باقی باتیں بعد میں کرونگا۔چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال نے بھی صحافیوں سے بات چیت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جو بات کروں گا سپریم کورٹ کے اندر کروں گا، کیونکہ ایک عدالت اندر ہے اور ایک عدالت آپ لوگوں نے کیمرے کے ساتھ لگائی ہوئی ہے۔