حکومت کے آخری چھ ماہ میں وزارت داخلہ کی ذمہ داری ملی ہے اور ان چھ ماہ میں چھ سالوں کا کام کرنے کی کوشش کروں گا‘احسن اقبال

 
0
361

اسلام آباد ،دسمبر19(ٹی این ایس): وفاقی وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کے آخری چھ ماہ میں وزارت داخلہ کی ذمہ داری ملی ہے اور ان چھ ماہ میں چھ سالوں کا کام کرنے کی کوشش کروں گا‘ کوئی معاشرہ امن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا ‘ قیام امن کو یقینی بناتے ہوئے ملکی ترقی میں پولیس صف اول کا کردار ادا کرتی ہے‘ اسلام آباد پولیس دنیا کی ماڈل پولیس بنے‘ کمیونٹی پولیسنگ کو فروغ دیا جائے‘ جسمانی تشدد کرنے والوں ‘ قاتلوں‘ ڈکیتوں‘ سٹریٹ کرائمز میں ملوث افراد اور خواتین اور بچوں پر تشدد کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے‘ موٹر سائیکل سوار کے لئے ہیلمٹ لازمی اور گاڑی کی ڈارئیونگ کے دوران سیٹ بیلٹ استعمال نہ کرنے والوں کوکسی صورت معاف نہ کیا جائے‘ چند ہزار دہشت گردوں نے کروڑوں عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے ان کے خاتمے کے لئے پولیس اور فوج کو عوام کا تعاون درکار ہے‘ پولیس معاشرے میں طاقتور کے تحفظ کی بجائے کمزور اور نادار کا تحفظ کرے‘ ریاست اور محکمہ پولیس کی وردی کے وقار اور تحفظ کو یقینی بنائے۔

وہ منگل کو پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں پولیس دربار اور پولیس کے شہداء کے اہل خانہ کے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کررہے تھے اس موقع پر انسپکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر سلطان اعظم تیموری نے بھی خطاب کیا ‘ پولیس شہداء کے ورثاء اور دھرنوں کے دوران زخمی ہونے والے پولیس اہلکاروں میں امدادی رقوم بھی تقسیم کی گئیں ۔ وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ میں نے وزارت داخلہ شوق سے نہیں لی حالات اور تبدیلی کے باعث قیادت کے کہنے پر یہ ذمہ داری سنبھالی اور اس ذمہ داری کو چیلنج کے طور پر قبول کیا۔

حکومت کے آخری چھ ماہ میں مجھے وزارت داخلہ کی ذمہ داری ملی اور ان چھ ماہ میں چھ سالوں کا کام کرنے کی کوشش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی معاشرہ امن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ ترقی کے لئے امن اور انصاف اتنا ہی ضروری ہے جتنا انسان کے زندہ رہنے کے لئے آکسیجن ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن ملکوں میں انتشار اور بدامنی ہوتی ہے وہاں دنیا کے بہترین حکمران بھی آجائیں تو ترقی کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

پاکستان میں اگر امن نہیں ہوگا تو ترقی بھی نہیں ہوسکے گی۔ پولیس صرف امن نہیں بلکہ ملکی ترقی کے لئے صف اول کا کردار ادا کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس شہریوں کے امن اور سکون کے لئے راتوں کو جاگتی ہے۔ پولیس کے جوان عید کے دن ڈیوٹیاں کرتے ہیں اور اپنے خاندانوں سے دور ہو کر عید کی قربانی دیتے ہیں۔ پولیس کا کام ہر طرح کی قربانی سے بھرا پڑا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں پولیس کا کردار انتہائی اہم ہے وہاں گزشتہ ستر سالوں میں پولیس کی اصلاح کے لئے باتیں کی جاتی رہی ہیں لیکن عملاً کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ وہ کیا رویہ ہے جس کی اصلاح ضروری ہے۔ پولیس کو گزشتہ ستر سالوں میں ایک آزاد ملک کے سانچے میں نہیں ڈھالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج آزاد میڈیا ہے جو لوگوں کو لمحہ بہ لمحہ کے واقعات سے باخبر رکھتا ہے میڈیا کی آزادی بڑی طاقت ہے لیکن یہ آزادی ایک ذمہ داری بھی ہے۔

جہاں کہیں سکیورٹی آپریشنز ہورہے ہیں وہاں کی لائیو کوریج سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ دہشت گردوں کی کارروائی کا مقصد معاشرے کو دبائو میں لانا ہوتا ہے اس لئے دہشت گردوں کو خاص سطح سے زیادہ کوریج دینا ان کے مقاصد کو پور اکرنے کے مترادف ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق بنانا وقت کی ضرورت ہے اور اسلام آباد پولیس میڈیا کے ساتھ مل کر اس ضابطہ اخلاق کی تیاری میں ہر وقت دستے کا کردار ادا کرے۔

انہوں نے کہا کہ کمیونٹی پولیسنگ کے تصور کو حقیقی معنوں میں نافذ کئے بغیر جرائم پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے پولیس اور فوج کافی نہیں عوام کا تعاون ضروری ہے۔ چند ہزار دہشت گردوں نے کروڑوں عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو مساجد‘ سکولوں‘ کالجوں ‘ بازاروں اور اپنے ارد گرد نظر رکھنی ہوگی اور دہشت گردوں سے متعلق فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آگاہ کرنا ہوگا۔

عوام نے پولیس کا بازو بننا ہے تاکہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کا خاتمہ کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ایس ایچ اوز کمیونٹی کے ساتھ رابطہ رکھیں اور محلوں کی سطح پر جا کر عوامی تقریبات میں شریک ہوں تاکہ لوگوں کو تحفظ کا احساس ہو اور وہ پولیس پر اعتماد کرسکیں اور پولیس معاشرے میں طاقتور کے تحفظ کی بجائے کمزور اور نادار کا تحفظ کرے تاکہ کسی طاقتور کو کسی کمزور کا حق سلب کرنے کی جرات نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ پولیس پانچ جرائم میں زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے ان میں جسمانی تشدد‘ قتل کے واقعات ‘ ڈکیتی ‘ سٹریٹ کرائمز ‘ خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو مرد کسی عورت پر ہاتھ اٹھاتا ہے وہ بے غیرت ہوتا ہے عورتوں پر تشدد کی اسلام اور قانون میں کوئی اجازت نہیں۔ بچے ہمارے مستقبل کے ضامن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معمولی نوعیت کے جھگڑوں میں صلح کے لئے تھانوں کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بنائی جائیں اور پولیس سروس میں کسی بھی رنگ‘ نسل ‘ علاقے یا مذہب کا جو بھی شخص ہے اس میں کسی قسم کی تفریق نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ ایک گلدستے کی مانند ہیں جس میں ہر طرح کے پھول ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کو جسمانی طور پر فٹنس پر توجہ دینی چاہئے 38انچ پیٹ والے ایس ایچ اوز کو مزید ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ اپنا ویٹ کم کریں ورنہ ان کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ پولیس اہلکاروں کے لئے پک اینڈ ڈراپ سروس شروع کی جائے اور کوئی پولیس اہلکار سڑک پر کھڑا کسی گاڑی والے سے لفٹ مانگتا ہوا نظر نہ آئے ریاست اور محکمے کو بھی پولیس کی وردی کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آج ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے جرائم ہورہی ہیں اور مجرموں کو بھی ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی پکڑنا ہوگا اس لئے پولیس کو ٹیکنالوجی کے استعمال پر عبور ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تھانوں کے ایس ایچ اوز کے لئے لیڈر شپ ٹریننگ پروگرام شروع کیا جائے تاکہ وہ بہتر انداز میں فورس کی قیادت کرسکیں اور کمیونٹی کے لئے بہترین ثابت ہوسکیں۔

انہوں نے کہا کہ ماڈل پولیس سٹیشن کا منصوبہ میں نے دو سال قبل دیا تھا اور آج مجھے الله تعالیٰ نے وزارت داخلہ کی ذمہ داری سونپی ہے اور میں ماڈل پولیس سٹیشنز کا افتتاح بھی کروں گا میری خواہش ہے کہ اسلام آباد کے تمام تھانے ماڈل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس کی ویلفیئر بھرپور انداز میں کی جائے گی اسلام آباد پولیس کی مراعات اور پیکج کسی بھی صوبے کی پولیس سے کم نہیں ہوگا ایس ایچ اوز کی کارکردگی کی بنیاد پر ہر ماہ ایک بہترین ایس ایچ او کا انتخاب کیا جائے اور اسے انعام دیا جائے جبکہ تھانوں میں موجود دیگر افسروں میں بھی ہر ماہ ایک اچھے افسر کا انتخاب کرکے اسے انعام سے نوازا جائے جبکہ پولیس جوانوں سے بھی پانچ جوانوں کو بہترین جوان قرار دے کر انہیں انعامات سے نوازا جائے۔