یومِ قائداعظم :ہمیں ماضی کی غلطیوں پر گفتگو کرکے چھوڑ نہیں دینا چاہئے ان کو درست اور کم کرنا چاہئے، میاں رضا ربانی

 
0
301

 ،40سال پہلے ہم جو بات کہہ سکتے تھے وہ آج نہیں کہہ سکتے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے مزاحمت کو چھوڑ دیا ہے،  کا آرٹس کونسل میں دسویں عالمی اردو کانفرنس کے آخری روز مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب 

کراچی ،دسمبر 25 (ٹی این ایس): چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہاکہ آج یومِ قائداعظم کے موقع پر ہمیں ماضی کی غلطیوں پر گفتگو کرکے چھوڑ نہیں دینا چاہئے بلکہ ان کو درست کرنا اور کم کرنا چاہئے ، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان جس دوراہے پر ہے ہم اپنے ماضی پر کھڑے نہ رہیں۔ اگر آگے کی طرف قدم نہ اٹھائے تو آنے والا مورخ ہماری نسل کو معاف نہیں کرے گا۔ یہ درست ہے کہ قائداعظم کا جو خیال تھا اس کو ہم نے آگے لے کرچلنا تھا مگر ہم اس تصویر میں رنگ بھرنے میں ناکام ہوئے، سیاسی کارکنوں دانشوروں نے سول سوسائٹی نے آہستہ آہستہ جگہ خالی کی خواہ اس کی وجوہات کچھ بھی ہوں جس کا نقصان ہوا، 40سال پہلے ہم جو بات کہہ سکتے تھے وہ آج نہیں کہہ سکتے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے مزاحمت کو چھوڑ دیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ دسویں عالمی اُردو کانفرنس کے آخری روز ’’قائدِ اعظم کا پاکستان‘‘ میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس سے غازی صلاح الدین، جاوید جبار ، حارث خلیق اور جعفر احمد نے بھی خطاب کیا جبکہ ڈاکٹر ہما بقائی نے میزبانی کے فرائض انجام دیئے۔ اس سے قبل صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہاکہ یہ سیشن اس کانفرنس کا اہم سیشن ہے آج قائداعظم کا یومِ پیدائش ہے سیشن کا آغاز قومی ترانے اور اختتام قائداعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹ کر کیا جائے گا۔ ہال میں موجود تمام افراد قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوگئے جبکہ پروگرام کے اختتام پر ملی نغموں کے ترنم میں قائداعظم کی سالگرہ کا کیک کاٹا گیا۔رضا ربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ قائدا عظم کا تصور آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھوں سے نکلتا جارہا ہے۔ اس لئے سوال یہ ہے کہ ہم ماضی کو لے کر بیٹھے رہیں گے یا دوبارہ مزاحمت کی طرف جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ وقت کے ساتھ عوام میں شعور آرہا ہے اور ہمیں اس شعور کو لے کر آگے چلنا ہوگا چاہے اس کوشش میں دشواریاں ہی کیوں نہ پیش آئیں مگر قوموں کی تاریخ اس سے بنتی ہے۔چیئرمین سینٹ نے کہاکہ قائداعظم کی جدوجہد دراصل حقوق کی جدوجہد تھی جو بعد میں پاکستان کی جدوجہد میں تبدیل ہوئی۔ ہمیں پاکستان کی وفاقیت کو مضبوط کرنے کی جدوجہد کرنا چاہئے قائداعظم کا حکومت کا تصور صدارتی نہیں پارلیمانی تھا، قائداعظم کے پاکستان میں صدارتی نظام 7مرتبہ آزماچکے جو فیڈرل ازم کی نفی ہے ہم نے صدارتی نظام لاکر قائداعظم کے خیال کی نفی کی۔ صدارتی نظام میں مرکزیت قائم ہوئی ہے اور صوبے محروم ہوتے ہیں پاکستان میں محرومیت صدارتی نظام سے پید ہوئی۔قائداعظم کا تصور آمریت نہیں جمہوریت تھا ہم نے آمریت نافذ کرکے قائداعظم کے تصور اور سوچ کی نفی کی اس پر بس نہیں کیا بلکہ ہم نے مذہب کو سیاسی ایجنڈا کے طور پر آگے بڑھانے کے لئے استعمال کیا اس سے بانی پاکستان کے بنیادی فلسفہ کی بھی نفی کی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے جھنڈے کے سفیدحصہ اقلیتوں کی نشاندہی ہے ان کے حقوق کی بھی پامال کی گئی جو یقینی طور پر قائداعظم کے شعور کی نفی تھی یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ہم آج کے دن عہد کریں کہ ان غلطیوں اور کوتاہیوں کو مدنظر رکھ کرآگے بڑھیں ہم نے ایک اور کام کیا کہ حکومتوں میں شفافیت کوختم کیا، اس سے ہماری ترجیحات تبدیل ہوئیں اور وہ ہماری سیاست اور حکومت میں بھی شامل ہوگئیں۔ قائداعظم کی تقریروں کو صندوق میں ڈال کر نیٹی جیٹی برد کردیا، ان غلطیوں کو دور کرنا ہوگا۔لہٰذا قائداعظم کا پاکستان ایسا پاکستان ہونا چاہئے جس میں قانون کی حاکمیت مضبوط ادارے اور بنیادی حقوق کی موجودگی ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مضبوط ادارے ، برداشت، اقلیتوں کی عزت ہو تو ہم سب مل کر کھڑے ہوں گے تو بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ غازی صلاح الدین نے کہاکہ قائداعظم روشن خیال جمہوری سوچ کے رہنما تھے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا پاکستان میں آج یہ ہے، اب ہم اپنی بات بھی نہیں کہہ سکتے مگر آرٹس کونسل کراچی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنی بات کہہ سکتا ہے۔ آج کا پاکستان سٹی کورٹ یا تھانے میں دیکھاجاسکتاہے۔ ملک میں عدم برداشت کا سیلاب ہے انتہا پسندی کے خلاف آپریشن اپنی جگہ مگر عدم برداشت اور انتہا پسندی اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ یہ ملک ملالہ کا نہیں رہا ہمیں اس صورت حال پر غور کرنا اور اصلاح کرنا ہوگی۔ جاوید جبار نے کہاکہ پاکستان میں قائداعظم کے نظریات کواغوا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جب عوام کو ووٹ دینے کا موقع ملا تو کبھی بھی کسی انتہا پسند یا مذہبی جماعت کو اکثریت نہیں ملی۔ ہماری قوم کے شعور کو داددینا چاہئے کہ انہوں نے قائد کی نظریات کا تحفظ کیا۔ جناح صاحب ہمارے دل میں رہتے ہیں ،قائد نے قیام پاکستان کے بعد صرف13ماہ میں کئی مسائل کے باوجود ملک کو پاؤں پر کھڑا کردیا۔قائد کے پاکستان کے لئے ہم سب کو درست سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ ہر شعبہ میں میرٹ کو اختیار کرنا ہوگا۔ حارث خلیل نے کہاکہ قائداعظم جمہوری اور معاشرتی ہم آہنگی کی سوچ کے حامل تھے۔ انہوں نے تحریک خلافت کی حمایت نہیں کی تھی مگر ہم کمال اتاترک اور خلاف عثمانیہ کو بروقت پسند کرتے ہیں۔ قائداعظم بھگت سنگھ کی وکالت کو تیار تھے۔ آج ہم لاہور کی سڑک کا نام بھگت سنگھ نہیں رکھ سکتے۔ قرارداد لاہور اقلیتوں کے حقوق اور صوبائی خود مختار، پر مبنی تھی دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب ملک کے دستور کا حصہ ہونا چاہئے تھا جو نہیں ہوا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کہاکہ پاکستان کے ساتھ جذباتی تعلق ہے میرا یقین ہے کہ میری جنت ماں کے قدموں کے نیچے اور پاکستان کی زمین پر ہے۔ قائداعظم کا خیال تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد برصغیر میں عوامی برتری کا مسئلہ ہوگا۔ اس لئے انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد کی۔ اس کے لئے دو قومی نظریہ کو دلیل بنایا جو سیاسی ذہن کی سیاسی حکمت عملی تھی 27 مارچ 1947ء کو انہوں نے دو قومی نظریہ کی تشریح کی۔ 2 نومبر1941ء کو علی گڑھ میں خطاب میں کہا تھا ہندو سکھ ہمارے بھائیوں کی طرح ہیں پاکستان میں وہ ہمارے شہری بن کر رہیں گے مگر قائداعظم کے پاکستان کو اغوا کی کوشش ہورہی ہیں ان کی تقریروں کو چوری کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔قائداعظم کی سوچ کو ایک طرف رکھ دیاگیا۔علماء کو پاکستان کے قیام پر اعتراض تھا اور قائداعظم کی قیادت کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔