سرکاری گودام ہی سے درسی کتب کو ردی میں بیچا گیا ، محکمہ تعلیم سمیت ڈپٹی کمشنر نے اس سنگین معاملہ کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا
تنگوانی، اپریل 21 (ٹی این ایس): سندھ کے عجب تعلیمی نظام کی غضب کہانی ، پکوڑوں کے کاغذ نصاب کی کتب سے زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ۔
جی ہاں یہ غضب کہانی کندھکوٹ ضلع کی تحصیل تنگوانی کی ہے جہاں سکولوں کے نصاب کی کتب پکوڑے بیچنے والوں کو بیچی جارہی ہیں۔
دل تھامے رکھئے ، اس سے بھی زیادہ بجلی کڑکانے اور گرانے والی خبر یہ ہے کہ یہ کتب کسی پرانے منسوخ شدہ نہیں بلکہ رواں سال کے نصاب کی ہیں جن کا ابھی ایک چوتھائی بھی بچوں کو نہیں پڑھایا گیا۔
ٹی این ایس کے رپورٹر نے جب سرکاری پرائمری اسکو لوں میں پڑھائی جانے والی پہلی اور دوسری جماعت کی نئی درسی کتابیں پکوڑے کی دکانوں پر دیکھیں جن کے اوراق پھاڑ کر ان میں گاہکوں کو پکوڑے فروخت کئے جاتے ہیں تو ان کی حیرت کی انتہاء نہ رہی۔
قوم کے مستقبل کے معماروں کو بنانے والی ان نئی کتب کے اوراق جب پھٹتے اور ان میں تیل کے انمٹ داغ چھوڑنے والے پکوڑے ڈلتے ہیں تو گویا وہ آئینہ بن کر ہمارے اجتماعی احساس پر لگے بد نما داغ دکھاتے ، ان پہ خوب ہنستے اور ہمارے مستقبل کی تاریکی کی بری خبر سناتے ہیں۔
نما ئندے کے مطابق اس سے بھی غضبناک پہلو یہ ہے کہ محکمہ تعلیم سمیت ڈپٹی کمشنر نے اس سنگین معاملہ کا کوئی نوٹس ہی نہ لیا۔
با خبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سرکاری گودام سے ہی ان تدرسی کتابوں کو بچوں میں تقسیم کرنے کے بجائے ردی کے طور پر فروخت کیا گیا۔
تنگوانی کے سماجی حلقوں اور طُلاب کے والدین نے انتظامیہ سے اس سنگین نوعیت کے اسکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔