شاہ عبداللطیف بھٹائی انسائیکلو پیڈیا سندھی ادب و تحقیق  میں ایک اہم اضافہ ہے: نگراں وزیراعلیٰ سندھ

 
0
1421

کسی شاعر کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنا کوئی آسان کا م نہیں ،انسائیکلوپیڈیا کی باقی دو جلدیں بھی جلد سے جلد شائع کی جائیں: عبداللطیف بھٹائی انسائیکلو پیڈیا کی پہلی  جلد کی تقریب رونمائی سے خطاب

کراچی، جولائی  19 (ٹی این ایس):  نگراں وزیراعلیٰ سندھ فضل الرحمان نے کہا ہے کہ شاہ عبدالطیف بھٹائی انسائیکلوپیڈیا کی تین جلدیں شائع ہونا تھیں جن میں سے آج پہلی جلد شائع ہوگئی لیکن اس کی باقی دو جلدیں بھی جلد سے جلد شائع کی جائیں۔

انہوں نے یہ بات آج  شاہ عبداللطیف بھٹائی انسائیکلو پیڈیا کی پہلی  جلد کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی انسائیکلو پیڈیا سندھی ادب و تحقیق  میں ایک اہم اضافہ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ جامعہ کراچی کی شاہ عبداللطیف چیئر نے اس اہم نوعیت کے کام کو سر انجام دیا ہے، جس کے لیے میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان اور خاص طورپر ڈائریکٹر شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر پروفیسر سلیم میمن اور ان  کے اسکالرس کی ٹیم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ کسی شاعر کی انسائیکلوپیڈیا مرتب کرنا کوئی آسان کا م نہیں ، لیکن ناممکن بھی نہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کے دنیائے ادب میں  یہ اہم اور نمایاں کارنامہ ہے اور اردو اور انگریزی زبانوں میں اس انسائیکلوپیڈیا کے تراجم سے ہم فکر لطیف کو دنیا کے لوگوں تک آسانی سے پہنچا سکیں گے۔ مجھے امید ہے کہ انسائیکلوپیڈیا  کی بقیہ دو جلدیں  بھی جلد مکمل ہوکر اشاعتی مراحل طے کریں گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شاہ لطیف بلاشبہ اس خطے کے ایک بڑے اور عظیم شاعر تھے ۔ ان کی شاعری ، فکر اور فلسفہ، سندھ کی سرزمین کی خوشبو سے رچابسا ہے اور’شاہ جو رسالو‘ اس لحاظ سے ایک منفرد شعری مجموعہ ہے  کہ اس مجموعے میں انسان اور کائنات کے باہم رشتوں کو نہایت دلکش اور دلنشین انداز میں بیان کیاگیا ہے  جو کہ قاری اشعار کو اپنے دل میں اترتا ہوا محسوس کرتاہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ لطیف کی شاعری میں حیرت، استعجاب، محویت اور سرشاری کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ  شاہ عبداللطیف بھٹائی پر کافی تحقیق ہوئی ہے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ڈاکٹر گربخشانی نے جدید  سائنسی اصولوں پر شاہ کے کلام کو تالیف کیا۔ ان کا کارنامہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ اور ’’ مقدمہ لطیفی‘‘ سندھی ادب میں نمایا مقام رکھتے ہیں اور    آج کی اس تقریب میں ڈاکٹر گربخشانی کی صاحبزادی محترمہ گل چھگانی خصوصی طورپر شرکت کرنے کے لیے برطانیہ سے تشریف لائی ہیں اور اپنے ہی شہر میں آکر انہیں یقیناً خوشی اور مسرت ہوئی ہوگی۔

نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ شاہ کی شاعری کے بارے میں مختلف علمائے فکر نے مختلف توجیحات پیش کی ہیں۔ کسی نے انہیں صوفی شاعر کہا ہے تو کسی نے انہیں جمالیاتی شاعر کی حیثیت سے پرکھا ہے۔ کسی عالم  نے انہیں سندھ کے قومی شاعر کی حیثیت سے پایا ہے۔ یہ سب صحیح ہے، لیکن میری رائے میں شاہ لطیف صرف ایک شاعر نہ تھے، وہ ایک غیر معمولی مفکر بھی تھے۔ صرف شاعری ان کا مقصد نہ تھی، بلکہ ان کے اظہار کا ایک حُسناک ذریعہ تھی، جس میں اس قدر حسن ہے کہ وہ زبانی فن ، وہ اظہار میں فلک کی بلندیوں پر پہنچی ہوئی ہے  اور شاہ نے عظمت انسانی اور اپنے عظیم خیالات جس خوبصورت ، دلکش اور حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیے ہیں، اس سے بہتر اور کوئی انداز نہیں ہوسکتاتھا۔ انہوں نے کہا کہ شاہ لطیف جیسے کامل رہبر کے ہوتے ہوئے سندھی معاشرہ بدحال ہو، اور لوگوں میں بے چارگی ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج تک ہمارا سماج ، قوم اور عوام انسانی تاریخ کے اس یگانے طبیب کی حقیقی شناس سے دور ہیں ۔ شاہ لطیف کا پیغام صرف شاعرانہ تصور کے فنی اظہار کا ذریعہ نہیں ہے،کہ لوگ سن کر واہ واہ کریں ۔ ان کی شاعری میں تو انسان کی مکمل طور نئے فکری، احساساتی اور روحانی مٹی کو گوندنے کی بات ہے اور آج کے اس افراتفری کے دور میں ، جہاں مذہبی منافقرتیں، دہشت گردی، قبائلی جھگڑوں، فرسودہ رسومات نے معاشرے کو تباہ و برباد کردیا ہے وہاں صوفیوں کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اخوت ، بھائی چارے ، محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں  شاہ کی  شاعری اہم کردار ادا کرسکتی ہے، اگر اُسے عام کیا جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے امید ظاہر کی کہ کل جامعہ کراچی میں جو بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی ہے اس میں اسکالر اپنے مقالات میں شاہ کے فن، فکر اور فلسفہ کے ان گوشوں پر بھی روشنی ڈالیں گے جو ابھی تک تاریک رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں اس تقریب رونمائی اور افتتاحی اجلاس اور بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے یہ توقع رکھتا ہوں کہ انسائیکلوپیڈیا کی باقی جلدیں بھی جلد منظر عام پر لائی جائیں گی۔