دفعہ 35-Aپاکستان اور بھارت کے درمیان 1954ء کے معاہدے کا نتیجہ ہے‘ سابق بھارتی چیف جسٹس

 
0
379

1859ء کے پریوی کونسل کے فیصلے کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے پاس دفعہ 35-Aکا کیس سننے کا اختیار نہیں 
بھارتی سپریم کورٹ کے پاس دفعہ 35-A کے خلاف درخواستوں کی سماعت کا اختیار نہیں‘ماہر قانون
سرینگر ستمبر 2 (ٹی این ایس)بھارت کے سابق چیف جسٹس ڈاکٹر اے ایس آنند نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ دفعہ 35؛Aپاکستان اور بھارت کے درمیان1954ء میں طے پانے والے معاہدے کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے کچھ قانونی ماہرین دفعہ 35-Aکو منسوخ کرنے کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوالات اٹھار ہے ہیں۔

کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق جسٹس اے ایس آنند مقبوضہ کشمیر کی پہلی شخصیت ہیں جو بھارتی سپریم کو رٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔ ان کی کتاب Constitution of Jammu and Kashmir, its Development and Comments کے مطابق دفعہ 35-Aپاکستان کے ساتھ معاہدے کا نتیجہ ہے۔ کتاب کے مطابق پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایاتھا کہ جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو علاقے کے مستقل باشندوں کے لیے خصوصی قانون سازی کا اختیار ہوگا اور یہ ضروری سمجھا گیا کہ بھارتی آئین میں اس سلسلے میں راستہ کھلا رکھا جائے اور اسی لیے1954ء کے آرڈر کی سیکشن 2(4)(j) کے تحت دفعہ 35-Aکوشامل کیا گیا۔ کتاب کا پیش لفظ بھارت کے سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹا چلیہ نے لکھا ہے۔ سینئر وکیل اورمعروف ماہر قانون ایس ٹی حسین نے سرینگر میں صحافیوں کو بتایا کہ اگر دفعہ 35-Aپاک بھارت معاہدے کا نتیجہ ہے توپھر یہ قانون ریاست کشمیر کا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کو اس کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے اور اسے منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1859ء کے پریوی کونسل کے فیصلے کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے پاس دفعہ 35-Aکا کیس سننے کا اختیار نہیں ۔انہوں نے کہاکہ اس فیصلے کے مطابق ریاست کے قانون کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور اس فیصلے کو حتمی تسلیم کیا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقومی قانون کا بھی بنیادی اصول ہے اور بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اس اصول کو تسلیم کررکھا ہے۔