کراچی، ستمبر 07(ٹی این ایس): وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آج 39ویں مشترکہ مفادات کونسل سے متعلق زیر صدارت اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ میجر (ر) اعظم سلیمان کو سی سی آئی سیکریٹریٹ کو ایک خط لکھنے کی ہدایت کی ہے تاکہ صوبے کے تمام مسائل کو آئندہ ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے۔ اجلاس میں وزیر ایکسائیز اینڈ ٹیکسیشن مکیش چاؤلہ، وزیر توانائی امتیاز شیخ، چیف سیکریٹری میجر (ر) اعظم سلیمان، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت، صوبائی سیکریٹریز میں توانائی، آبپاشی، یونیورسٹی اینڈ بورڈ اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سی سی آئی میں صوبائی حکومت کے متعدد معاملات زیر التواء ہیں انھوں نے میں پیٹرولیم ریسرچ اینڈ پروڈکشن پالیسی 2012 میں ترمیم کی ہے اور صوبائی کنسولیٹیڈ فنڈ (پی سی ایف) سے فیڈرل بورڈ رونیو میں غیر آئینی اور غیر قانونی کٹوتیاں کی ہیں، کراچی سٹی (کے فور پروجیکٹ) کیلیے 1200 کیوسک اضافی پانی مختص کرنا، آئین کے آرٹیکل 154 پر عملدرآمد، ہائر ایجوکیشن سے متعلق معاملات اور پوسٹ 18ویں ترمیم کے تناظر میں اس طرح کی باڈیز، وفاقی ایچ ای سی میں صوبوں کی نمائندگی میں مزید اضافہ اور ایل این جی گئس کی درآمد شامل ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا ہے کہ انھیں ابھی تک 12 ستمبر بدھ کے روزوزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے سی سی آئی کے اجلاس کا ایجنڈا موصول نہیں ہوا ہے لہٰذا انھوں نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ سی سی آئی سیکریٹریٹ کو خط تحریر کریں اور سی سی آئی کے اجلاس کے ایجنڈا پر صوبائی حکومت کے تمام زیر التواء مسائل کو شامل کریں۔ انھوں نے کہا ہے کہ بہت سارے مسائل اہم ہیں اور انھیں فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ انھیں سندھ کے لوگوں کے بہترین مفاد میں حل کیا جاسکے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور یہ میگا سٹی (کراچی) منی پاکستان ہے کیوں کہ یہاں پر ملک بھر کے لوگ رہتے ہیں ۔ اس وقت گھریلو استعمال 12.75 گیلن پر کیپیٹا روزانہ جوکہ آئندہ آنے والے سالوں میں مزید گر سکتا ہے کیوں کہ کراچی کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ طلب اور مستقبل کی حکمت عملی کے تحت کے ڈبلیو ایس بی نے 1200 کیوسک تا 2400 کیوسک اضافی پانی کی طلب کے حوالے سے کام کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ محکمہ آبپاشی نے انڈس ریور اتھارٹی (ارسا) سے کہا ہے کہ وہ 1991 کے پانی کے معاہدے سے علاوہ کراچی کے لیے 1200 کیوسک اضافی پینے کا پانی فراہم کرے۔ سیکریٹری آبپاشی جمال شاہ نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا کہ ارسا نے انکی درخواست کو رد کیا ہے اور جواب دیا ہے کہ کراچی کو فراہم کرنے والی کوئی بھی اضافی ضروریات سندھ کو اپنے موجودہ مختص کردہ حصہ سے پورا کرنا ہوگی کیوں کہ معاہدے کے علاوہ کوئی پانی دستیاب نہیں ہے جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 1991 پانی کے معاہدے کے تحت 1200 کیوسک پانی 10 اگست 1988 کو اس وقت کے صدر نے منظور کیا تھا۔ یہ 1200 کیوسک پانی سندھ کے مختص کردہ پانی کے حوالے سے 1991 کے معاہدے کی پیرا نمبر-2 میں ہے مگر یہ 1200 کیوسک کی اضافی پانی کی ضرورت کو صوبے کے حصہ میں شامل نہیں کیا جارہا ہے ۔ ایف بی آر کی جانب سے پی سی ایف سے ہونے والی کٹوتی کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ واضح رہے کہ ایف بی آر نے13-2012 میں ایف بی آر نے 633.119 ملین روپے کی کٹوتی کی ، 16-2015 میں 6127.115 ملین روپے اور 17-2016 میں 294.5 ملین روپے کی کٹوتی کی گئی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مجموعی طور پر کٹوتی 7054.734 ملین روپے بنتی ہے جوکہ غیر قانونی اور غیر آئینی کٹوتی ہے۔