جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں دوسری سماعت جاری

 
0
376

اسلام آباد  جولائی18(ٹی این ایس): پاناما کیس پر تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں دوسری سماعت جاری ہے اور وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث دلائل دے رہے ہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا 3 رکنی عمل درآمد بینچ مذکورہ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے صرف سفارشات پیش کی ہیں حکم عدالت جاری کرے گی۔

وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے دوران سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کرسنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کردیا تھا۔ سپریم کورٹ کے سوالات میں نوازشریف سے متعلق تحائف کا ذکرتھا جب کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کے خلاف کسی مقدمے کودوبارہ کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط، بیئررسرٹیفکیٹ سے متعلق سوالات پوچھے اورسپریم کورٹ نے جوسوالات پوچھے ان کے ہی جواب مانگے گئے تھے-جے آئی ٹی نے 13 سوالات کے ساتھ مزید 2 سوالات اٹھادیئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ وہ دو سوال کون سے ہیں، کیا آپ کہنا چاہتے ہیں جائیدادوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا جس پرخواجہ حارث نے کہا کہ جومقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے، جے آئی ٹی نے ان کی بھی پڑتال کی جب کہ عدالت نے مقدمات کھولنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں لکھاہے کہ یف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہوتواسکاجائزہ لیاجاسکتاہے۔خواجہ حارث نے دلائل آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کر لیے، جو مقدمات ختم ہو گئے تھے ان کی بھی جانچ پڑتال کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ التوفیق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے ، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بہت سارے معاملات اس کیس میں 13سوالوں سے مطابقت رکھتے ہیں،معاملات جانچے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی،لندن پراپرٹی سے متعلق منی ٹریل ایک معمہ ہے۔

اصل بات تو منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گا۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا سفارش کر دی، سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ عدالت کرے گی۔خواجہ حارث نے کہا کہ 13 سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا،جے آئی ٹی کو مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کا اختیار نہ تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ میری یادداشت کے مطابق لندن فلیٹس پہلے مقدمات کا بھی حصہ رہے ہیں،جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عوامی مفاد کے مقدمات میں پہلے عدالت کئی بار حکم جاری کر چکی ہے،ہم اس مرحلے پر رپورٹ کے کسی حصے پر رائے نہیں دینا چاہتے۔رپورٹ کو مکمل تسلیم کرنا ہے یا نہیں یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہو گا،حدیبیہ کیس تحقیقات میں شامل کرنادرست ہے یانہیں حتمی فیصلہ ٹرائل کورٹ کوکرناہے،رپورٹ کے کسی ایک حصے کو درست یا غلط کیسے قرار دے دیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے یہ ریمارکس بھی دیئے ہیں کہ وزیراعظم نے تمام دستاویزات دینے سے انکار کیا، عدالت نہیں تو جے آئی ٹی کو ہی ریکارڈر دے دیتے، بارثبوت خود شریف خاندان نے اپنے سرلیا تھا، وزیراعظم کی تقاریر ریکارڈ کا حصہ ہیں، آپ دستاویزات نہیں دیں گے تو کوئی نکال لائے گا،شوہدا کے جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ معاملہ نیب کو دیں یا نااہلی کافیصلہ دیں۔

وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا کہ عدالت تقریر میں تضاد پر کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی، یہ جائیدادیں اور ملز وزیر اعظم کی ملکیت نہیں ہیں، جے آئی ٹی رپورٹ کو مکمل تحقیقاتی رپورٹ نہیں کہاجاسکتا نہ اس کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا جاسکتاہے۔وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ وہ کل تک دلائل مکمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وزیر اعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ بھی سپریم کورٹ پہنچے ہیں، ان کا کہنا کہ وہ کل دلائل دیں گے۔گذشتہ روز سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف  کے وکیل نعیم بخاری، جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے دلائل مکمل کرلیے تھے۔