ملک بھر میں موجود تمام مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کر لیا گیا

 
0
509

تمام مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جائے گا، تمام علما بھی متفق ہیں کہ مدارس میں جدید تعلیم دی جائے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر
راولپنڈی اپریل 29 (ٹی این ایس): ملک بھر میں موجود تمام مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ تمام مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ 1947ء میں پاکستان میں مدرسوں کی تعداد 247 تھی ، 1979ء اور 1980ء میں 2861 ہو گئے۔ 1980ء سے آج تک ان کی تعداد تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے، اشتعال انگیزی کو پروموٹ کرنے والے مدارس کی تعداد 0.5 فیصد تھی۔
افغان جنگ کے بعد پاکستان میں مدرسے کھولے گئے۔ملک بھر میں تین قسم کے مدارس ہیں۔ ستر فیصد مدارس ایسے ہیں جہاں ہر طالبعلم پر ہزار روپیہ ماہانہ خرچ آتا ہے۔ ہر مدرسے میں چار سے چھ ٹیچرز چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ 25 ملین پاکستانی بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ 25 فیصد مدارس ایسے ہیں جہاں ہر طالبعلم کا تین سے چار ہزار روپے ماہانہ خرچہ آتا ہے۔
اور 5 فیصد ایسے ہیں جن کا انفرااسٹرکچر اچھا ہے اور وہ ہر طالبعلم پر ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ ایسے مدارس میں امریکہ سے بھی طلبا آتے ہیں ۔ یہاں آٹھ سال کی تعلیم دیتے ہیں، کچھ مدارس بنیادی تعلیم بھی دیتے ہیں لیکن اس کے بعد یہ درس نظامی پڑھاتے ہیں ۔ایسے کئی مدرسے ہیں جو میٹرک تک باقاعدہ تعلیم دے رہے ہیں۔ لیکن اب جدید تعلیم بھی دی جائے گی۔
اس حوالے سے علما بھی متفق ہیں کہ تمام مدارس میں جدید تعلیم دی جائے۔ جہاں تک ان کے اپنے نصاب کی بات ہے اس پر وزیراعظم عمران خان نے ایک کمیٹی بنائی جو ایک ایسا نصاب بنائے گی جس کے تحت مدرسے چلتے رہیں گے لیکن نصاب میں کوئی نفرت انگیز بات نہیں ہو گی۔آرمی چیف کا بھی یہی کہنا ہے کہ اپنا فقہ چھوڑو نہیں اور دوسرے کا چھیڑو نہیں ، اسی موٹو کے تحت مدارس کے نصاب میں دوسرے فقے کو عزت دینے کے لیے کچھ نصاب ضرور شامل کیا جائے گا، اس کے علاوہ وزارت تعلیم کمیٹی کے ساتھ مل کر نصاب میں مزید تبدیلی کرے گی، جس کے تحت ان بچوں کو ڈگری ملے گی تاکہ جب یہ لوگ پڑھ کر مدارس سے باہر نکلیں تو ان کے پاس بھی روزگار کے اتنے ہی مواقع ہوں جتنے باقی بچوں کے پاس ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت پاکستان میں تیس ہزار سے زائد مدارس ہیں۔ جہاں 35 ملین بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جامعہ رشیدیہ کے ایک طلبا نے آرمی میں کمیشن بھی حاصل کیا کیونکہ وہ میرٹ پر پورا اُترا تھا لیکن ایسے بچے بہت کم ہیں۔ آٹھ سال مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو سال مزید کورس کریں تو انہیں مفتی کا ٹائٹل مل جاتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب ان مدرسوں سے لاکھوں بچے باہر نکلتے ہیں تو ان کے پاس روزگار کے کیا مواقع ہیں؟ کیونکہ دین کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں لہٰذا وہ صرف دین کی تعلیم ہی حاصل کرتے ہیں ۔
لیکن کیا ان کا حق نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی ڈاکٹر، انجینئیر، وکیل ، اینکر یا رپورٹر بنے یا پھر فوج میں آئے۔ ایسا صرف اس وقت ممکن ہے جب ان کے نصاب میں دین کے علاوہ دیگر مضامین کو بھی شامل کیا جائے۔ یہ تمام مدارس گذشتہ کافی سالوں سے وزارت صنعت کے زیر انتظام چل رہے تھے لیکن اب مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تمام مدارس کو مین اسٹریم میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ۔