لاہور میں آکسیجن ختم ہورہی ہے. ایل ڈی اے کا رپورٹ میں انکشاف

 
0
17656

لاہور ستمبر 23 (ٹی این ایس): لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی رپورٹ میں شہر کی آکسیجن مکمل طور پر ختم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے‘لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 27 سالہ رپوٹ تیار کرلی ہے، جس کے مطابق گزشتہ 27 برس کے دوران درختوں کی بے دریغ کٹائی سے لاہور کی فضاﺅں میں زہر بھر گیا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1990 میں شہر لاہور میں 19 ہزار 522 ایکڑ پر درخت موجود تھے 2017 میں شہر کی ٹری کور 2 ہزار 620 ایکڑ تک رہ گئی ہے شہر میں 17 ہزار ایکڑ رقبے پر موجود درختوں کو کاٹ دیا گیا.
درختوں کو کاٹ کر سڑکوں کی توسیع اور نئی ہاﺅسنگ سوسائٹیز بنائی گئیں، نجی ٹی وی کے مطابق ایل ڈی اے کی رپورٹ جلد ہی وزیراعظم پاکستان کو بھجوائی جائے گی جس کے بعد ذمہ داروں کو بھی منظر عام پر لایا جائے گا. رپورٹ کے مطابق لاہور دنیا کے فضائی آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں آگیا، لاہور میں آکسیجن نہ ہونے کے برابر ہے‘شہر میں اس وقت ایک شخص کو کم از کم 2 اور زیادہ سے زیادہ 8 درختوں کی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس وقت شہر لاہور میں 30 لوگوں کیلئے ایک درخت موجود ہے.اس سلسلہ میں ”اردوپوائنٹ“کے گروپ ایڈیٹرمیاں ندیم کا کہنا ہے کہ لاہور کی بربادی کا آغاز1980 کی دہائی میں اس وقت ہوا جب اس وقت کے حکمرانوں نے آباد زرحیززرعی رقبوں کو رہائشی کالونیاں بنانے کے لیے استعمال میں لانا شروع کیا یہ وہ وقت تھا جب لاہور شہر عملی طور پر ملتان روڈ پر سکیم موڑ‘جی ٹی روڈ کی طرف دریائے راوی کے پل‘فیروزپورروڈ پر چونگی امرسدھو‘اور باڈرکی طرف سے مغل پورہ پر ختم ہوجاتا تھا رائے ونڈ روڈ اس زمانے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا ملتان روڈ پر سکیم موڑ سے آگے نیم دیہاتی علاقے شروع ہوجاتے تھے جوکہ ملتان روڈ چونگی کے بعد مکمل دیہاتی علاقوں میں بدل جاتے‘یہی صورتحال فیروزپور روڈ‘جی ٹی روڈ‘شیخوپورہ روڈ‘بھارتی باڈرکے اطرف میں تھی.
ماضی کی حکومتوں اور بیوروکریسی کی ناعاقبت اندیشی ‘جہالت اور ٹاﺅن پلاننگ اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے پنجاب میں نئے شہر آباد کرنے اور بڑے شہروں میں بنیادی سہولیات فراہم نہ کرنے کی وجہ سے اربنائزیشن سے لاہور شہر پر آبادی کا دباﺅ اس قدر بڑھا کہ 1980کی دہائی میں بیس ‘پچیس لاکھ کی آبادی والا شہر سوا کروڑسے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والا شہر بن گیا جس کا پھیلاﺅ رائے ونڈ ‘ مانگا منڈی‘شیخوپورہ ‘شرقپور‘مریدکے‘واہگہ باڈر اور قصور تک جاپہنچا ہے.
حکمرانوں ‘بیوکریٹس اور متعددسرکاری اداروں نے ملی بھگت سے کوڑیوں کے بھاﺅ زرعی رقبے خرید کر کروڑوں روپے ایکڑکے حساب سے ایل ڈی اے اور دیگر سرکاری اداروں کو فروخت کرکے ان پر رہائشی کالونیاں بنوانا شروع کیں صوبے کے دیگر شہروں کو مکمل طور پر نظراندازکرکے صوبے کے بجٹ کا بڑا حصہ لاہور پر خرچ کیا جانے لگا جس میں سے ہرکسی نے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کیا جس کی قیمت آج لاہور کے باسی اداکررہے ہیں کہ ان کے لیے کاروبار اور ملازمتیں نہیں رہیں کیونکہ چھوٹے شہروں اور دیہات سے آنے والوں نے کم اجرت پر کام کرنا شروع کردیا اسی طرح دیہات اور چھوٹے شہرو ں سے لوگوں نے صحت اور تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے لاہور کا رخ کرنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں محض 39سالوں کے دوران لاہور کے نواحی دیہات شہر کے مرکزی علاقوں میں شمار ہونے لگے جس سے لاہور کی منفرد ثقافت مٹ گئی اور اس کے گرد ونواح کے سرسبزعلاقے کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوگئے.
آج شہر میں لاکھوں گاڑیاں‘موٹرسائیکلیں ‘رکشا ماحول کو آلودہ کررہے ہیں ساتھ ہی شہر کی اتنی بڑی آبادی روزانہ کی بنیادوں پر لاکھوں ٹن کوڑا کرٹ جلاتی ہے . باغوں کے شہر کے درجنوں باغات‘بیلے اور درختوں کے ذخیرے ”ترقی“کی نذرہوچکے ہیں ‘مہذب ملکوں میں درختوں کے ذخیروں اور تاریخی باغات کو بچانے کے لیے ترقیاتی منصوبوں کے ماسٹرپلان تک بدل دیئے جاتے ہیں مگر لاہور پر بدقسمتی سے ایسے حکمران مسلط رہے جو درختوں اور سبزے کے دشمن تھے.
لاہور کی تمام بڑی شاہرائیں درختوں کے سائے سے ڈھکی رہتی تھیں مگر آج ان کے گرد کنکریٹ کی عمارتیں کھڑی ہیں. شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ کم ازکم دس سال کے لیے شہر میں نئی تعمیرات پر پابندی عائد کردی جائے اور تمام سوسائٹی میں پڑے پلاٹوں میں درخت لگا دیئے جائیں اسی طرح گاڑیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ان پر ٹیکس بڑھا دیئے جائیں اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح شہر میں ٹریفک کا دباﺅ کم کرنے کے لیے شہر کی مرکزی شاہراﺅں پر ٹال ٹیکس لگا ئے جائیں اور پارکنگ فیس کو فی گھنٹہ کے حساب سے وصول کیا جائے. شہریوں کی سہولت کے لیے اچھی‘سستی اور آرام دہ پبلک ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیا جائے تاکہ لوگ ذاتی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں .