اسلام آباد کے سینئر صحافی اور آن لائن نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن تنویر اعوان پر ضلع کچہری اٹک میں جرائم پیشہ گروہ کا حملہ، جان سے مارنے کی کوشش

 
0
80158

اسلام آباد/اٹک مارچ 08 (ٹی این ایس): اسلام آباد کے سینئر صحافی اور آن لائن نیوز کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن تنویر اعوان پر ضلع کچہری اٹک میں جرائم پیشہ گروہ کا حملہ اور جان سے مارنے کی کوشش۔ پولیس ٹاو¿ٹ محبوب کی تھانہ صدر کے اے ایس آئی سجاد شاہ اور سٹی تھانہ اٹک کے ڈیوٹی افسر کے ساتھ ساز باز سے تنویر اعوان کو ہی گرفتار کر کے ہراساں کرنے کی کوشش۔ صحافیوں کے متحرک ھوتے ہی گرفتاری کو 107/151 میں تبدیل کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق تنویر اعوان ایک مقدمے کے سلسلے میں ضلع کچہری میں موجود تھے کہ جرائم پیشہ گروہ کے سرغنہ اور رسہ گیر صدیق عرف صدیقے نے اپنے ساتھیوں اورنگ زیب اور بلال کے ہمراہ حملہ کیا اور تنویر اعوان کے ضلع کچہری سے باہر نکلنے پر کچہری کے بالکل سامنے پھر حملہ کر دیا کچہری کے اندر اور باہر پولیس پاس کھڑی ھونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی۔ صدیقا بار بار تنویر اعوان پر حملہ کرتا رھا لیکن پاس کھڑی پولیس کے اہلکار ٹس سے مس نہ ھوئے۔۔ حملہ آوروں سے جان چھڑا کر تنویر دو سو فٹ کے فاصلے پر واقع سٹی پولیس اسٹیشن میں داخل ھو گئے اور محرر کو اپنی درخواست لکھ کر دی محرر نے درخواست لے کر سوئے ہوئے ڈیوٹی افسر اے ایس آئی عادل کو جگا کر درخواست حوالے کی ہی تھی کہ تھانہ صدر کا اے ایس آئی سجاد شاہ اپنے ہمراہ صدیق اور پولیس ٹاوٹ محبوب المعروف بوبے کو لیکر ڈیوٹی افسر کے کمرے میں آیا اور عادل سے کہا کہ اس کو اور صدیقے کو بند کردو۔۔

تنویر اعوان کے منع کرنے کے باوجود اسے حملہ آور کے ساتھ ہی بند کر دیا۔ جس نے حوالات کے اندر پھر حملہ کر دیا۔ تنویر اعوان کے بلند آواز میں احتجاج اور شور کرنے پر پولیس کو مجبوراً انہیں دوسری بارک میں شفٹ کرنا پڑا۔ پولیس نے بغیر کسی تحریری کاروائی کے بند کیا اور آخر تک تنویر اعوان کے وہاں رہنے اور حوالات میں بند رکھنے کا نہ تو کوئی جواز بنایا اور نہ ہی ان سے کسی گرفتاری پر دستخط لیے۔ پولیس کو شروع میں پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کس کو گرفتار کر رہے ہیں اور نہ ہی اے ایس آئی عادل نے پوچھنا گوارہ کیا کہ آپ کون ہیں بس سجاد شاہ کے مخصوص اشارے پر فوراً لاک اپ میں بند کر دیا اور بند کرنے سے پہلے تنویر اعوان سے ان کے ہاتھ میں پکڑا ھوا پرس بھی لے لیا جس کو اے ایس آئی عادل اور سجاد شاہ ماننے سے انکاری ہیں۔۔ پولیس کی اس بہیمانہ کاروائی کی جیسے ہی اسلام آباد اطلاع پہنچی تو نیشنل پریس کلب کے لیڈر جاوید ملک نے احتجاج کی کال دی اور اور باقی صحافیوں نے مقتدر حلقوں سے رابطہ کیا اور صورتحال ان کے نوٹس میں لائے۔ پولیس کو مجبوراً رات کے آٹھ بجے تنویر اعوان کو چھوڑنا پڑا۔۔ اس ساری کاروائی کے پس پردہ ملک آمین اسلم کے کار خاص ثمر عباس کا بھی ہاتھ تھا جبکہ صدیقا اپنے آپ کو ممبر صوبائی اسمبلی جہانگیر خانزادہ کا خاص کارندہ کہہ کر تعارف کرواتا ہے۔ جہانگیر خانزادہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس ساری کاروائی اور صدیقے کی مجرمانہ کاروائیوں سی لاتعلقی کا اظہار کیا جبکہ آمین اسلم نے بھی کہا کہ ان کا اس کاروائی سے کوئی تعلق نہیں جبکہ بتایا کہ ثمر عباس ان کا آدمی ھے لیکن اسے تھانہ کچہری میں کسی کی سرپرستی کرنے کی اجازت نہیں۔۔ لیکن ہماری اطلاعات کے مطابق ثمر عباس تھانہ کچہری کے معاملات میں جرائم پیشہ گروہ اور لینڈ مافیا کی سرپرستی کرتا ھے چند دن پہلے بھی ایک پولیس والے نے ثمر عباس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پوسٹ شئر کی تھی کہ وہ پولیس کے معاملات میں مداخلت کرتا ھے اور پولیس کو ملک آمین اسلم کے وفاقی حکومت کے سٹیٹس کے نام پر پریشرائز کرنے کا عادی ہے۔