نیویارک نامہ
رائٹر: سید علی رضا
Rsyed1877@gmail.com
صدر ٹرمپ استعفی نہیں دیں گے،
اور نہ ہی وہ اپنے نائب صدر پنس کو اقتدار منتقل کریں گے جس سے وہ سرکاری طور پر معافی حاصل کر سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے حوالے سے یہ اطلاعات حال ہی میں وائٹ ہاؤس کے اعلی مشیروں اور ان کی ریپبلیکن پارٹی کے اعلی عہدیداروں کے درمیان ایک اہم ملاقات میں سامنے آئیں۔
صدر ٹرمپ اپنی صدارت ختم ہونے کے فورًا بعد ہونے والی نازک صورت حال کے پیش نظر بہت پریشان نظر آتے ہیں ، اسلیۓ وہ کسی حال میں یہ عہدہ چھوڑنے کے لیۓ راضی نہیں ہو پارہے ہیں۔
آج کل صدر ٹرمپ اپنے سینئر مشیروں سے عہدہ چھوڑنے سے قبل معافی دینے کے اپنے صدارتی اختیارات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔
وائٹ ہاؤس اور کانگریسی قیادت کے قریبی پارٹی رہنماؤں کا یہ ماننا ہے کہ دوسرے مواخذے اور استعفے کا مطالبہ زوروشور سے عروج پر ہے اور اسے ہاؤس ریپبلیکنز کی مدد سے ہی ٹالا جا سکتا ہے ، لیکن دوسری جانب انہیں اپنی ہی پارٹی کے چند ممبران اور لابی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے دباؤ کا سامنا ہے جو ان کی کمپین کو فنڈ دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں اور کسی صورت ان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔
گزشتہ دنوں امریکی کانگریس پر صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں کے پر تشدد حملوں کے نتیجے میں پانچ افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کے بعد اسپیکر نینسی پولینسی نے جمعہ کے روز اپنی پارٹی کے ڈیموکرٹک رہنماؤں اور چند ریپبلیکن رہنماؤں سمیت امریکی عوام کے شدید غم و غصہ اور افسوس کا اظہار کیا اور فوری طور پرصدر ٹرمپ کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔
واشنگٹن کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والے ایک اٹارنی مائیکل شرون نے صحافیوں کو جواب دیتے ہوۓ بتایا کے ہم نے واشنگٹن پر حملے کی مکمل تفصیلات حاصل کر لی ہیں اور ماسٹر مائنڈ سے لے کر تمام کریکٹرز جو کسی بھی طرح مجمع کو اکسانے اور ورغلانے میں ملوث رہے اور حملہ کروانے میں کوئی کردار ادا کرتے رہے ان کو قانون کے دائرۂ اختیار اور سزا سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔
الاسکا سے تعلق رکھنے والی ، ریپبلیکن پارٹی کی سینیٹر اور دیگر ریپبلیکنز سینیٹرز بین ساس اور پیٹ ٹومیں سمیت کئی اہم رہنماؤں نے اپنے ہی پارٹی کے صدر کو فوری مستعفی ہونے کی درخواست کر دی ہے ۔
صدارت سے مستعفی ہوتے ہی نیویارک کی عدالتوں میں ٹرمپ کو کم از کم چھ مشکل اور سنگین نوعیت کے مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا جن میں ٹیکس چوری سے لے کر جنسی زیادتی اور دیگر مقدمات شامل ہیں ، جبکہ اب کیپیٹل ہل پر حملے کے نئے مقدمات بھی تیار ہیں۔
امریکی قوانین اور سیاسی ماہرین کے مطابق اگر ، صدر ٹرمپ کو قانونی طور پر برطرف کر دیا جاتا ہے تو انہیں ان تمام مراعات سے ہاتھ دھونا پڑیں گے جو کسی بھی سابق صدور کو حاصل ہوتی ہیں۔
کیپیٹل ہل پر حملوں کے نتیجے میں ایک طرف تو تمام سوشل میڈیا کمپنیوں بشمول فیس بک اور ٹوئٹر نے صدر ٹرمپ کے اکاؤنٹس مکمل بند کر دیۓ ہیں۔
دوسری طرف اعلی سیاسی رہنماؤں نے ملکی سالمیت کو لاحق خطرات کے حوالے سے اپنے تحفظات پیش کرتے ہوۓ اسپیکر نینسی پولینسی سے درخواست کی ہے کہ وہ اعلی عسکری قیادت سے بات کر کے صدر ٹرمپ سے نیوکلیئر ہتھیاروں تک رسائی اور سیکریٹ کوڈز کو محفوظ بنائیں۔