اسلام آباد جولائی31(ٹی این ایس) : عمران خان کی نااہلی اور پارٹی کی غیر ملکی فنڈنگ کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ تفصیلا ت کے مطابق سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ جسٹس عمر عطیا بندیال اور جسٹس فیصل عرب تین رکنی بنچ کا حصہ ہیں۔ چیف جسٹس نے انور منصور سے مکالمہ کیا کہ اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ میں زیادہ دیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ سماعت میں عمران خان کے وکیل انور منصور نے دلائل دئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اپنے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کی فارن فنڈنگ کی تحقیقات کا اختیار نہیں ہے۔ جس پر انور منصور نے کہا کہ جی میں یہی کہنا چاہ رہا ہوں ۔ چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کے بعد الیکشن کمیشن کو آڈٹ کا اختیار نہیں ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ کے آڈٹ کے بعد الیکشن کمیشن کو آڈٹ کا اختیار نہیں ہے۔آرٹیکل 17تھری کے مطابق ہر سیاسی جماعت فنڈنگ ذرائع سے متعلق جوابدہ ہے۔
انور منصور نے کہا کہ میں اس سے منحرف نہیں ہورہا ، کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تفصیلات دینے کے بعد وصول شدہ فنڈ کی الیکشن کمیشن جانچ پڑتال نہیں کر سکتا؟ انور منصور نے جواب دیا کہ قانونی میں ایسی کوئی اجازت نہیں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قابل قبول دفاع ہے کہ الیکشن کمیشن اسکروٹنی نہیں کر سکتا ؟ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ یہ کوئی جائز دفاع نہیں ہے ، جب یہ معاملہ آیا تو دیکھیں گے۔
انور منصور خان نے کہا کہ فارن فنڈنگ سے متعلق پی ٹی آئی اور عمران خان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب آڈٹڈ اکاﺅنٹس رکارڈ پر آ جائیں تو انکوائری نہیں ہو سکتی ۔ جسٹس عمر عطا بندیا ل کا کہنا تھا کہ اگر باہر سے کوئی فنڈ بعد میں آ جائے تو کیا ای سی پی تحقیق کر سکتا ہے؟ انور منصور نے کہا کہ قانون کے اندر تحقیق کی اتھارٹی موجو د نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 17کہتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے فنڈز کا حساب دے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر کیسے الیکشن کمیشن انکوائری نہیں کرسکتا رول 6پڑھ لیں۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ساری ذمہ داری آڈیٹر پر ہے؟ جس پر انور منصور نے کہا کہ جب آڈیٹڈ اکاﺅنٹس ریکارڈ پر آجائیں تو انکوائری نہیں ہو سکتی۔ سب نے حساب دینا ہے ، ہم نے حساب دیا انہوں نے تسلیم کر لیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قبولیت ایپلیکیشن آف مائنڈ پر ہے؟ کیا قبولیت کا ثبوت یہ ہے کہ انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا ؟ ہر سال آپ کو انتخابی نشان الاٹ نہیں ہوتا ، کیا کہیں گے؟ انور منصور نے کہا کہ انتخابی نشان ہر سال واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔
ابھی کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف کا انتخابی نشان واپس لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پوچھا جائے کہ باہر پیسے آئے تو آپ کہتے ہیں کہ ساری تفصیلات دے دیتے ہیں ´ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کوئی سیاسی جماعت تفصیلات چھپا بھی سکتی ہے۔ تفصیلات چھپانے پر کیا کوئی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی؟ انور منصور نے کہا کہ ہم نے تمام ذرائع بتا دئے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ ہے کہ اکاﺅنٹ میں ممنوعہ فنڈنگ آئی ؟ اس کی تحقیقات کس نے کرنی ہیں؟آرٹیکل 184/3میں تحقیقات ہم نے خود کرنی ہے یا کوئی فورم موجود ہے؟ الیکشن کمیشن معاملات کو دیکھ سکتا ہے۔
جو بھی آرڈر پاس کیا جاتا ہے وہ کسی انکوائری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ آڈیٹر بھی آپ خود منتخب کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے جواب الجواب کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اکرم شیخ کا کہناتھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے جو لسٹ دی گئی وہ جعلی اور خود ساختہ ہے۔ دہرہ شہریت اور پاکستانی نژاد ہونے میں فرق ہے ۔جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ پاکستانی اوریجن ہونے کا کیا مطلب ہے؟ جس پر اکرم شیخ نت کہا کہ مستقل ملک چھوڑ کر دیاد غیر میں بسنے والا پاکستانی اوریجن کا کہلائے گا۔
جمع کروائی گئی دستاویزات درحقیقت جعلی طور پر تیار کی گئی ہیں۔ جب ہم نے اقلیتوں سے فنڈز لینے کا کہا تو اخبار میں ہیڈ لائنز چھپیں کہ ہم نے توہین کی ہے۔ اب انہوں نے اپنی نئی لسٹ میں اقلیتوں کے نام خود نکالے ہیںَ انور منصور نے کہا کہ پانچ ہزار ڈالر کارڈ کے ذڑیعے چارج کرتے ہیںَ۔جسٹس عمر نے کہا کہ او وہ پانچ ہزار ڈالر دے کر نام نہیں بتاتے ؟ اکرم شیخ نے کہا کہ نئی دستاویزات میں جو لکھا ہے وہ عدالت کو بتا رہا ہوں۔ جمع کروائی گئی دستاویزات جعلی طور پرتیار کی گئی ہیں۔