ریکوڈک تنازعہ ختم کرانے پر قوم پاک فوج کی شکرگذار۔۔11ارب کا جرمانہ ختم

 
0
233

اندر کی بات۔۔۔کالم نگار۔۔۔۔اصغرعلی مبارک

اسلام آباد 31 مارچ 2022 (ٹی این ایس): زمانہ امن ہو یا جنگ پاک فوج کاکردار اہم ہمیشہ سے مثالی اور تاریخی رہاہے اور حالیہ مثال ریکوڈک کیس پاک فوج کے زمہ داران کی خصوصی کاوشوں سے پاکستان پر عائد 11 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہوگیاہے سیاسی شخصیات کی غفلت ولاپروائی کی وجہ پاکستان کے بیرون ملک اربوں کے اثاثے نیلام ہونے کے قریب تھے یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ معجزہ ہوگیا۔۔نہ صرف پاکستان عائد شدہ 11 ارب کے جرمانے سے بچ گیاہے بلکہ اب پاکستان کی معاشی ترقی میں انقلاب کی نوید سنادی گئی ہےجس کی تفصیلات نئے معاہدے میں موجودہیں.نئے معاہدے سے متعلق اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ نئے معاہدے کے مطابق ریکوڈک پراجیکٹ کو بیرک گولڈ کی پاکستانی اداروں کے ساتھ شراکت کے ساتھ بحال اور تیار کیا جائے گا،

نئے پراجیکٹ میں 50 فیصد حصہ بیرک گولڈ کے پاس ہوگا، باقی 50 فیصد شیئر ہولڈنگ پاکستان کی ملکیت ہوگا جو وفاقی حکومت اور بلوچستان کی حکومت کے درمیان مساوی طور پر تقسیم کیا جائے گا۔وفاقی حکومت کا 25 فیصد شیئر ہولڈنگ وفاقی حکومت کے تین سرکاری اداروں میں یکساں طور پر تقسیم کیا جائے گا، بلوچستان کا حصہ ایک کمپنی کے پاس ہوگا جس کی مکمل ملکیت اور حکومت بلوچستان کے کنٹرول میں ہے، اس منصوبے کے لیے حکومت بلوچستان کا حصہ سرمایہ اور آپریٹنگ اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی۔حکومت بلوچستان مائنز کی ترقی پر کوئی خرچ نہیں اٹھائے گی اور اس کے اخراجات وفاقی حکومت برداشت کرے گی، اس منصوبے کو تیار کرنے میں بلوچستان میں تقریباً 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی، سرمایہ کاری میں 1 ارب ڈالر الگ بھی شامل فلاحی منصوبوں کے لیے بھی مختص ہیں۔ یہ رقم سڑکوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور کان کنی کے لیے ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی تشکیل جیسے منصوبوں میں لگائی جائے گی، سرمایہ کاری سے 8 ہزار سے زائد نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی، یہ منصوبہ بلوچستان کو پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا وصول کنندہ بنا دے گا۔ حکومت پاکستان، حکومت بلوچستان اور بیرک گولڈ کارپوریشن آف کینیڈا نے نئے معاہدے پراتوار 20 مارچ 2022 کودستخط کیےاگست 2019ء میں وزیر اعظم پاکستان نے کان کنی کی جلد ترقی کے مقصد کے ساتھ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی، اس کوشش میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو پاک فوج کے زمہ داروں اورمشیروں کی مدد حاصل تھی، ریکوڈک کیس میں پاکستان پر عائد 11 ارب ڈالر جرمانہ ختم ہوگیا اس منصوبے سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا آغاز ہوگاجس سے پاکستان میں عام شہریوں کا معیار زندگی بہترین ہوجائےگا۔ریکوڈک منصوبہ دنیا میں تانبے اور سونے کی کان کنی کے سب سے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے، پاکستان کی معدنی دولت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ایک سمیلٹر کے قیام پر بھی غور کر رہی ہے، ریکوڈک معاہدہ گزشتہ تین سال کے دوران کئی دور کی بات چیت کے بعد طے پایا ہے۔جس کا سہرا پاک فوج کے زمہ داروں کے سر جاتاہے جنہوں پاکستان دنیامیں دیوالیہ ہونے دے بچاکر پاکستانی قوم پر احسان عظیم کیاہےوزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ 10 سال کی قانونی لڑائیوں اور گفت و شنید کے بعد بالآخر ریکوڈک کان کی ڈویلپمنٹ کے لیے بیرک گولڈ کے ساتھ کامیاب معاہدے پر عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

تقریباً 11 ارب ڈالر کا جرمانہ آف سیٹ ہوا ہے، دس ارب ڈالر بلوچستان میں لگائے جائیں گے جس سے 8 ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ریکوڈک ممکنہ طور پر دنیا میں سونے اور تانبے کی سب سے بڑی کان ہوگی، یہ منصوبہ ہمیں قرضوں سے آزاد کرے گا اور ترقی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔قبل ازیں وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور بیرک گولڈ کمپنی کے صدر مارک برسٹو نے ریکو ڈک معاہدے پر دستخط کے بعد ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان اب سرمایہ کاری اور تعمیر و ترقی کا میدان بنے گا، ریکو ڈک پر فیصلے میں دس سال کی تاخیر کا نقصان سرمایہ کاروں اور ہماری نسلوں کو پہنچا، یہ منصوبہ بلوچستان کو دنیا بھر سے جوڑے گا۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ لیڈر شپ کا کام فیصلے کرنا ہوتا ہے، حکومت نے ریکو ڈک میں بہترین معاہدہ کرکے وسائل کا تحفظ کیا، وزیراعظم، آرمی چیف اور وزیر خزانہ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہماری تلخ باتوں کو بھی برداشت کیا۔بیرک گولڈ کمپنی کے صدر مارک برسٹو نے کہا کہ ماضی کو بھلا کر مستقبل کی جانب ایک اچھے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں، اعتماد سازی کی فضا بحال کرکے بات چیت کا آغاز کیا۔ نئے معاہدے میں بلوچستان کے عوام کے مفاد اور نوجوانوں کے روزگار کا تحفظ کریں گےریکوڈک کا مطلب بلوچی زبان میں ریتلی چوٹی ہے، بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ریکوڈک اپنے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں سونے کا دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے۔

یہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب نوکنڈی سے 70 کلومیٹر شمال مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہے۔ یہ علاقہ ٹیتھیان کی پٹی میں واقع ہے جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔ریکوڈک کا معاملہ ٹیتھیان کاپر کمپنی اور حکومت پاکستان کے درمیان آسٹریلیاپاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور تانبے اور سونے کے سب سے بڑے میں سے ایک کی کان کنی کے حقوق سے انکار پر ایک قانونی مقدمہ تھا۔آسٹریلوی کان کنی کمپنی بی پی ایچ بلیٹن اور حکومت پاکستان نے 1993 میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کے لیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی اس منصوبے میں 75 فیصد سود پر رکھے گی جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25 فیصد حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پر دو فیصد رائلٹی کی ادائیگی کے ساتھ ہوگا۔ بعد ازاں اپریل 2000 میںکمپنی نے اپنی ذمہ داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنر ریسورسزکے حوالے کر دیں، جسے ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں حاصل کیا تھا۔ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011 میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کرائی تاہم اسے نومبر 2011 میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔بعد ازاں 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا کیونکہ بلوچستان نے اس پر دستخط کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا کیونکہ یہ عوامی پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا۔

عدالت کاکہنا تھا کہ ٹی سی سی کے پاس ریکوڈک میں دریافت اور کان کنی کا کوئی قانونی حق نہیں ہے۔2011 کے فیصلے پر ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کے لیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی کے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹریبونل نے 12 جولائی 2019 کو پاکستان پر 6 بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ٹربیونل کی سربراہی جرمنی کے کلاؤس ساکس کر رہے تھے اور اس میں بلغاریہ کے ثالث سٹینمیر الیگزینڈروف اور برطانیہ کے لارڈ ہوف مین بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4 بلین ڈالر سے زائد ہرجانے کے علاوہ 1اعشاریہ 7 بلین ڈالر کے پری ایوارڈ سود ادا کرے۔جب آئی سی ایس آئی ڈی نے آسٹریلیا پاکستان دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کی خلاف ورزی پر ایوارڈ کا اعلان کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیشن تشکیل دیا تھا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کرے وزیر اعظم کا یہ اعلان صوبے کے سیاسی رہنماؤں کی تنقید کے بعد سامنے آیاجنہوں نے ریکوڈک منصوبے کے “مجوزہ معاہدے” پر تنقید کی تھی. ریکوڈک کا شمار پاکستان میں تانبے اور سونے کے سب سے بڑے جبکہ دنیا کے چند بڑے ذخائر میں ہوتا ہے۔ریکوڈک کے قریب ہی سیندک واقع ہے جہاں ایک چینی کمپنی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے تانبے اور سونے کے ذخائر پر کام کر رہی ہے۔ تانبے اور سونے کے دیگر ذخائر کے ساتھ ساتھ چاغی میں بڑی تعداد میں دیگر معدنیات کی دریافت کے باعث ماہرین ارضیات چاغی کو معدنیات کا ‘شو کیس’ کہتے ہیں۔حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا تھا،چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی)کو فروخت کیے۔نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں۔ بعد میں کینیڈا اورچِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔ضلع چاغی میں واقع اس پراجیکٹ کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں کینیڈا اور چلی کی ایک جوائنٹ وینچر کمپنی، ٹھیتیان کاپر کمپنی(ٹی سی سی ) کے حوالے کیا گیا تھا.

پاکستان میں اب تک جو 50 معدنیات دریافت ہوئی ہیں ان میں سے 40 بلوچستان سے حاصل کی جارہی ہیں۔ریکوڈک کے حوالے سے بلوچستان کے بعض سیاسی حلقوں میں تحفظات پائے جاتے تھے۔ ان حلقوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ ریکوڈک کے معاہدے میں بلوچستان کے لوگوں کے مفاد کا خیال نہیں رکھا گیا۔اس معاہدے کو پہلے بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا مگر ہائی کورٹ نے اس حوالے سے مقدمے کو مسترد کر دیا اور بعد میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں ایک بینچ نے قواعد کی خلاف ورزی پر ٹی سی سی کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹی سی سی نے مائننگ کی لائسنس کے حصول کے لیے دوبارہ حکومت بلوچستان سے رجوع کیا۔اس وقت کی بلوچستان حکومت نے لائسنس کی فراہمی کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ کمپنی یہاں سے حاصل ہونے والی معدنیات کو ریفائن کرنے کے لیے بیرون ملک نہیں لے جائے گی۔ حکومت کی جانب سے چاغی میں ریفائنری کی شرط رکھنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے حصے کو بھی بڑھانے کی شرط بھی رکھی گئی۔کمپنی کی جانب سے ان شرائط کو ماننے کے حوالے سے پیش رفت نہ ہونے اور محکمہ بلوچستان مائننگ رولز 2002 کے شرائط پوری نہ ہونے کے باعث معدنیات کی لائسنس دینے والی اتھارٹی نے نومبر2011 میں ٹی سی سی کو مائننگ کا لائسنس دینے سے انکار کر دیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف ٹی سی سی نے سیکریٹری مائنز اینڈ منرلزحکومت بلوچستان کے پاس اپیل دائر کی تھی جسے سیکریٹری نے مسترد کیا تھا۔تاہم بلوچستان حکومت نے لیز کو ختم کر دیا کیونکہ اس کا دعویٰ تھا کہ کمپنی نے لیز کو غیر شفاف طریقے سے حاصل کیا اس وقت تک ٹی سی سی نے 2011 تک ریکوڈک میں اس وقت 220 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی جب پاکستان نے اپنی کان کنی کی لیز ختم کر دی تھی‘ ٹی سی سی اس کے بعد کیس کو انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی ایس ایس آئی ڈی) کے پاس لے گیا کیونکہ کمپنی نے حکومت سے 8.5 بلین ڈالر کا دعویٰ پیشگی منافع کی صورت میں کیا 700 صفحات کے فیصلے میں آئی سی ایس آئی ڈی نے پاکستان کو 4.08 بلین امریکی ڈالر کا جرمانہ اور 1.87 بلین ڈالر کا سود دیاکمپنی نے 2012 میں عالمی بینک کے ثالثی ٹربیونل سے بھی مدد طلب کی جولائی 2019 میں، ورلڈ بینک نے ٹی سی سی کو کان کنی کی لیز سے انکار کرنے پر پاکستان پر 6 بلین ڈالر کا بھاری جرمانہ عائد کیا ریکوڈک کیس پاک فوج کے زمہ داران کی خصوصی کاوشوں سے پاکستان پر عائد 11 ارب ڈالر کا جرمانہ ختم ہوگیاہے سیاسی شخصیات کی غفلت ولاپروائی کی وجہ پاکستان کے بیرون ملک اربوں کے اثاثے نیلام ہونے کے قریب تھے یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ معجزہ ہوگیا۔۔نہ صرف پاکستان عائد شدہ 11 ارب کے جرمانے سے بچ گیاہے بلکہ اب پاکستان کی معاشی ترقی میں انقلاب آئےگا.