صحافت کا قیدی شرجیل میمن

 
0
220

جاوید ملک /شب وروز

اسلام آباد 26 اپریل 2022 (ٹی این ایس): ایک لمحہ کیلئے مجھے یوں لگا جیسے کائنات رک گئی ہے گھڑی کی سوئیاں ساکت ہو گئیں تھوڑی دیر قبل تک چیختی چھنگاڑتی سمندر کے کناروں پر سر پٹختی لہریں بھی جیسے تھم سی گئی تھیں شرجیل میمن کے سیاست دان دوست کے الفاظ جیسے تیز دھار خنجر کی طرح میری روح تک کو زخمی کر گئے تھے وہ کہہ رہا تھا مشہور ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن میں نے کوچہ سیاست میں اہل دل کو ہی پایا ہے اقدار روایات باہمی احترام دیکھا ہے لیکن تجربے سے کہہ رہا ہوں کہ سیاست کا تو پتہ نہیں البتہ صحافت کا سینہ دل سے ضرور خالی ہے،یہ ایک مشترکہ دوستوں کی دعوت تھی اور سارے کے سارے لوگ شعبہ صحافت سے تھےصحافت سے ہٹ کر واحد مہمان پیپلز پارٹی کا ایک پرانا جیالا اور شرجیل انعام میمن کا یار غار تھا سب حیرت سے اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے شاید کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا کہ ایک سیاسی کارکن کڑوا سچ اتنی بے رحمی سے ہمارے منہ پر دے مارے گا وہ کہہ رہا تھا جب شرجیل نے وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالا تو اس کے اردگرد خوش آمدی مالکان کا تانتا بندھ گیا یہ روز اسے شام غریباں سناتے تھے اپنے حالات کی ایسی منظر کشی کرتے کہ انکی خستہ حالی پر سب کا دل بھر آتا پھر جب ان اداروں میں کام کرتے ورکرز کی حالت زار ہم نے دیکھی تو لرز گئے شرجیل میمن نے اس شعبہ کا مسیحا بننے کا فیصلہ کیا اس نے سرکاری اشتہارات میں اضافہ کر دیا چھوٹے بڑے اخبار پسندیدہ نا پسندیدہ چینلز کی تفریق کو ختم کر دیا میڈیا صنعت کیلئے سرکاری اشتہارات آکسیجن کا درجہ رکھتے ہیں اشتہارات میں اضافہ کا مطلب خوشحالی تھا جس نے اس صنعت کے دروازے کو کھٹکھٹایا اور اس کے مثبت ثمرات بھی دکھائی دینے لگے مگر پھر ڈو مور کا بے رحم مطالبہ سامنے آنے لگا اس نے اپنی بساط کے مطابق اس مطالبہ پر بھی سر تسلیم خم کیا لیکن اب بے رحم مسابقتی سیاست اس کا منہ چڑھا رہی تھی ہر کسی کی خواہش تھی کہ وہ دوسروں کے حصے سے بھی کچھ کانٹ چھانٹ کرکے ان کا حصہ بڑھا دے وہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کر سکتا تھا اور اسکا یہ اصولی موقف ہی اس کا قصور بن گیا ساری محنت غارت ہو گئی باقی بچی تو اندھی دشمنی جو ہوس کے زہر میں لپٹی ہوئی تھی قیادت کو شکایتیں لگائی گئیں کرپشن کے فسانے تراشے گئے اداروں کے آگے واویلا مچایا گیا اور یہ ٹولہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھا جب تک وفاقی حکومت قہر بن کر اس پر نہ ٹوٹی چئیرمین نیب اپنے بیٹے کی اشتہاری ایجنسی کو قواعد کے برعکس نہ نوازنے پر پہلے ہی برہم بیھٹا تھا چنانچہ نیب کے ذریعہ مقدمات بنا کر پابند سلاسل کیا گیا اب وہی میڈیا روز اس کے پرخچے اڑانے لگا بیماری کی وجہ سے ہسپتال منتقل ہوا تو کوئی دن ایسا نہ تھا جو چین سے گزرا ہو شرجیل میمن کے دوست کا لہجہ آنسووں سے تر ہو گیا اس کے چہرے پر کرب ہی کرب نقش ہو گیا تھا

ایک دن تو کمال ہی ہوگیا منصف اعلی محترم ثاقب نثار پورے لاؤ لشکر کے ساتھ ہسپتال اس کے کمرے میں تشریف لے آئے اور کچھ نہ ملا تو شہد کی بوتلوں کو شراب بنا کر لے گئے میڈیا والوں کے ہاتھ تو جیسے تماشہ لگ گیا ان دنوں سب شرجیل سے کترا نے لگے طبی عملہ بھی ڈرا سہما تھا وہ تنہائی کے ان لمحوں میں صرف کڑھتا رہتا محسن کشوں کے اس لشکر کی حرکتیں دیکھتا اور اپنے ہی بال نوچتا رہتا شرجیل میمن کے دوست نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی اور چپ ہو گیا کافی دیر تک محفل کو سکوت نے اپنی چادر میں لپیٹے رکھا میں نے کھنگارا مار کر اس خاموشی کو توڑا اور پوچھا کڑا وقت کٹ گیا سازشی شرمسار ہوئے شرجیل انعام میمن سرخرو ہو کر آج دوبارہ وزیر اطلاعات ہے اب کیا کرے گا؟
میری بات سن کر ایک بے ساختہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی ہم جیالے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی رانی شہید کے سپاہی وقتی طور پر دل ضرور دکھتا ہے مگر انتقام یا چھوٹی سوچ ہمارے خمیر میں نہیں ہے ہمارے قائدین آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے درس دیا ہے کہ دشمن کو بھی گلے لگا لو اس نے جو کیا وہ اس کا ظرف اور تربیت تھی تمہیں اپنے ظرف کے مطابق چلنا اور آگے بڑھنا ہے
میں حیرت سے ان چہروں کو دیکھ رہا تھا ان کی دریا دلی اور سچائی نے تو تاریخ کا بھی دھارا بدل دیا تھا پیپلز پارٹی کی یہ روز اوّل سے بدقسمتی ہے کہ وہ بدترین پروپیگنڈہ کا نشانہ بنی ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد بھی ان کی شخصیت کے سحر کو ختم کرنے کیلئے غلیظ مہم چلائی گئی پھر محترمہ بے نظیر بھٹو کی ذات پر کیچڑ اچھالا گیا آصف زرداری کے ساتھ کیا کیا ستم نہ ڈھائے گئے اب بلاول کے روپ میں تیسری نسل کو بھی اسی متعصبانہ رویے کا سامنا ہے وقت بڑا منصف ہے وقت نے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو سرخرو کیا آج اپنے پرائے سب ان کی سیاسی بصیرت کے گن گاتے اور ان کے خلاف زہریلی سازشوں پر ماتم کناں دکھائی دیتے ہیں ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آصف زرداری نے محترمہ کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اور اب موجودہ سیاسی بحران میں بھی ملک کو دلدل سے نکال کر تاریخ ساز کردار ادا کیا اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوگی کہ ان کے بدترین مخالف صحافی مجید نظامی بھی ان کو مرد حر کہنے پر مجبور ہوگئے ہم آج کل روز ہی عمران خان کے جوشیلے خطاب سنتے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کئے اور ان کے خلاف رچائی جانے والی سازشوں کے ذکر کے بغیر ادھورے ہوتے ہیں ہم یہ سچ جانتے اور مانتے ہیں مگر اگلے ہی لمحے کسی نئے جھوٹ نئے پروپیگنڈہ کے دلفریب جال میں پھنس جاتے ہیں نہ جانے ہم ایسے کیوں ہیں شرجیل میمن میں قلم قبیلے کا ادنی سپاہی ہوں آپ نے میڈیا کی آزادی اور خوشحالی کیلئے جو کام کیا اسے مافیا کوئی بھی نام دے عام ورکر آپ کی پوجا کرتا ہے اور اسی لئیے ہم نے ہر دور میں آپ کو صحافت کا قیدی لکھا اور لکھتے رہیں گے۔