وزیراعظم سے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی ملاقات، نئے انتخابات کا مطالبہ

 
0
134

اسلام آباد 16 مئی 2022 (ٹی این ایس): متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہےکہ ایم کیوایم نئے انتخابات کے لیے تیار ہے پر نئی مردم شماری اور پھر نئی ووٹرلسٹوں کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں، سیاست بچانےکے لیے پیٹرولیم کی قیمتیں نہ روکیں، لیکن غریبوں پر بوجھ نہ ڈالیں۔

اسلام آباد میں وزیراعظم شہبازشریف سے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے ملاقات کی، جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر گفتگو اورمشاورت کی گئی۔

ملاقات کے بعد صحافیوں سےگفتگو کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ موجودہ مسائل کا حل عام انتخابات ہیں،فریش مینڈیٹ لیا جائے، دیر کی تو بدنصیبی ہوگی، انتخابی اصلاحات ایک ہفتے میں ہوسکتی ہیں، مشکل حالات ہیں ہمیں ریاست کو دیکھنا ہے یا سیاست کو، ریاست بچانےکی خاطرمشکل فیصلے لینے چاہئیں اور سیاست کی قربانی دیناہوگی، مردم شماری کا آغاز اگست کے بجائے جون میں کیا جاسکتا ہے۔

خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت سے معاہدہ کیا ہے اور مطالبہ بھی کیا ہےکہ پہلے نئی مردم شماری کرائی جائے اور پھر نئی ووٹر لسٹوں کی بنیاد پر انتخابات کرائے جائیں، پی ٹی آئی حکومت سے بھی یہی مطالبہ کیا تھا۔

رہنما ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ صرف اپنی سیاست بچانے کے لیے پیٹرولیم کی قیمتوں کو نہ روکیں، پیٹرولیم کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر ہیں تو بڑھائی جائیں، لیکن غریبوں پر بوجھ نہ ڈالیں، بڑی گاڑی والوں اور موٹر سائیکل کی ٹنکی بھروانے والوں میں فرق رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہبا زشریف کو تجویز دی ہے کہ وزیرخزانہ معاشی صورت حال پر اتحادیوں کوبریفنگ دیں، جاگیرداروں ،صنعت کاروں اور امیروں سے براہ راست ٹیکس وصول کیا جائے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت اور توسیع سے متعلق قانون سازی کرلینی چاہیے، بروقت فیصلے نہ ہوئے تومعاشی حالات مزید ابتر ہوتے دیکھ رہے ہیں، نگران حکومت پرزیادہ بوجھ نہیں ڈالاجاناچاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کوشش ہے پوری طاقت سےسیاست میں واپس آئیں، ہم چھینی گئی 14 سیٹیں واپس لینا چاہتے ہیں، جب تک الطاف حسین نے پاکستان کے خلاف نعرہ نہیں لگایا تھا تو ہم ساتھ کھڑے رہے، پی ڈی ایم کےساتھ معاہدوں پرعمل درآمدنہ ہوا تو اپوزیشن میں بیٹھنے کا آپشن کھلا ہے۔