معاشی ماہرین نے حکومت کو خبر دار کردیا

 
0
110

اسلام آباد 02 جون 2022 (ٹی این ایس): معاشی ماہرین نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ہے کہ پاکستان کے پاس موجود غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں

پاکستان کے مرکزی بینک کے پاس غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر صرف تین ہفتوں کی درآمدات کے برابر رہ گئے ہیں اور وہ 30 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئے ہیں، ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ شدت اختیار کرسکتا ہے۔

غیرملکی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ محدود کریڈٹ اور روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت نے ملک میں ایندھن کی سپلائی چین کو متاثر کرکے رکھ دیا ہے پاکستان کی کمزور معاشی صورتِ حال اور زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی وجہ سے ملک میں کام کرنے والی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو خام تیل کی درآمد کے لیے غیر ملکی بینکوں کی جانب سے فنانسنگ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.جس کے نتیجے میں ملک کے بڑے شہروں میں آٹھ سے 10 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کے علاوہ کئی دور دراز علاقوں اور دیہات میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 16 گھنٹوں تک جاپہنچا ہے

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال جو مئی کے تیسرے ہفتے میں 4250 میگاواٹ تھا اب دوبارہ بڑھ کر8 ہزار میگاواٹ کے لگ بھگ جا پہنچا ہے۔غیرملکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار کوئلے، آر ایل این جی اور پن بجلی سمیت دیگر ذرائع سے ہوتی ہے عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی قیمت نومبر 2021 میں 140 ڈالر فی ٹن تھی جو کہ اس سے پہلے 70 ڈالر فی ٹن کے لگ بھگ تھی اب یہ قیمت 400 ڈالر فی ٹن سے بھی تجاوز کرچکی ہے

اس طرح کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی جو پہلے چھ روپے فی کلو واٹ آور یعنی فی یونٹ تھی، اب 26 روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے اسی طرح پاکستان نے اپریل میں 15 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے آر ایل این جی خریدی تھی جو مئی میں 21 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے حساب سے خریدنا پڑی.ماہرین کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں حالیہ تیزی سے کمی نے بھی بجلی مزید مہنگی کردی ہے اسی طرح گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال اب تک دریاں میں پانی کا بہائوکم ہے جس کی وجہ سے پن بجلی کی پیداوار بھی کم رہی ہے اس موسم میں پاکستان کو 26 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پاکستان اس وقت ایندھن کی کمی کی وجہ سے صرف 18 ہزار میگاواٹ بجلی ہی پیدا کر پارہا ہے.رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مسئلے کا طویل المدتی حل تو یہ ہے کہ ملک کو بین الاقوامی طورپر درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کم کرنا ہوگا

اگرچہ حکومت نے اس سمت میں کچھ ایسے اقدامات کیے بھی ہیں جس سے بجلی گھروں میں مقامی کوئلے سے بجلی پیدا کی جارہی ہے اسی طرح طویل المدت میں ہائیڈل، نیوکلئیر اور ہوا سے چلنے والے بعض منصوبے مکمل ہونے سے ایندھن پر انحصار مزید کم اور صاف توانائی کا حصول ممکن ہوپائے گا لیکن بجلی پیدا کرنے کے تجدیدی ذرائع پر سو فی صد انحصار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہوا ہو گی تو ہی اس سے بجلی کی پیداوار ممکن ہے اسی طرح سورج کی روشنی ہونے ہی کی صورت میں شمسی توانائی مل پائے گی.

ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں فی کلو واٹ بجلی کی اوسط قیمت 10 روپے 20 پیسے کی تھی لیکن مئی کی قیمت اس سے کہیں اوپر جانے کی توقع ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ تمام وہ ممالک جن کا انحصار درآمدی ایندھن پر زیادہ ہے، وہاں پر بھی کم و بیش یہی صورتِ حال ہے جب کہ یورپ میں بھی توانائی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے ماہر معاشیات اسد علی شاہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ حکومت کے پاس مہنگا درآمد شدہ ایندھن خریدنے کے لیے رقم کی کمی ہے جب کہ رہی سہی کثر پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی نے پوری کردی ہے.ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں مسئلہ صرف مہنگے ایندھن سے بجلی پیدا کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ ٹرانسمیشن لاسز 18 سے 20 فی صد کے درمیان ہیں جس کا خمیازہ بھی شہریوں کو مہنگی بجلی خرید کربھگتنا پڑتا ہے ایک تحقیق بتاتی ہے کہ پاکستان میں بجلی کے ترسیلی نیٹ ورک کو بہتر بنانے کے لیے 40 ارب ڈالرز کی ضرورت ہے .