سیاسی تنازعات کو پارلیمنٹ میں حل کیا جائے، چیف جسٹس اطہر من اللہ سارہ انعام قتل کیس: ملزم شاہنواز 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل

 
0
240

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ عوام نے بھروسہ کرکے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے اپنے اراکین کے استعفوں کی منظوری کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایت دے کہ وہ استعفوں کی منظوری سے متعلق اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن کے درخواست گزاروں میں ڈاکٹر شیریں مزاری، شاندانہ گلزار، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، اعجاز شاہ، جمیل احمد، محمد اکرم شامل ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان، شاندانہ گلزار سمیت دیگر اراکین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔پی ٹی آئی اراکین کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو پارلیمنٹ کا احترام ہے، اس سے قبل بھی ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی، کیا یہ سیاسی جماعت کی پالیسی ہے؟ ابھی تک باقیوں کے استعفی ہی منظور نہیں ہوئے، عوام نے اعتماد کر کے نمائندوں کو پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اسپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، آپ کو دیگر ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنا چاہئے، کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ آئے عدالت آئے یا نہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پٹیشنرز اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف عدالت نہیں آئے، اسپیکر نے اپنی آئینی ذمہ داری پوری نہیں کی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس شرط پر استعفے دیے گئے تھے کہ 123 ارکان مستعفی ہوں گے،اسپیکر نے تمام استعفی منظور نہیں کیے اور صرف 11 استعفے منظور کیے، ہم کہتے ہیں کہ دیے گئے استعفی مشروط تھے، اگر تمام ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے تو شرط بھی پوری نہیں ہوئی، پارلیمنٹ واپس جانا سیکنڈری ایشو ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر وہ ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہوئے اسمبلی کارروائی کا ورچوئلی بائیکاٹ کر رہے ہیں، آپ اس متعلق سوچ لیں اور بیان حلفی جمع کرائیں، کیا عدالت آنے والے دس ارکان اسمبلی پی ٹی آئی پالیسی کے حق میں ہیں یا مخالف ؟ ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔بیرسٹر علی ظفر نے موقف اپنایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے، ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلے منٹ کا احترام ہے، سیاسی معاملات کو وہاں حل کریں، جن ارکان کے استعفے منظور نہیں ہوئے وہ تو پارلیمنٹ جا کر بیٹھیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اس مرحلے پر ایسا ممکن نہیں کیونکہ آڈیو لیک آئی ہے اور گیارہ ارکان کو نکال دیا گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلے منٹ کی بہت بے توقیری ہو گئی ہے، جمہوریت کا مذاق نہ بنائیں، عدالتیں سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے نہیں ہیں، سیاسی تنازعات حل کرنے کے لیے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو مذاق نہ بنائیں، پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی ذمہ داری ہے کہ جن لوگوں نے منتخب کیا ان کی نمائندگی کریں، پہلے اسمبلی جائیں اور پھر یہ درخواست لے آئیں عدالت درخواست منظور کر لے گی۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم اسمبلی واپس نہیں جا سکتے انہوں نے ہمیں نکال دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں ہو گی، جائیں اور اپنی سیاسی لڑائی اس عدالت سے باہر لڑیں۔علی ظفر نے کہا کہ پارٹی نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ پارلیمنٹ میں واپس جانا ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح نہیں ہوتا کہ آپ پارلیمنٹ میں بھی نہ جائیں اور نشست بھی باقی رہے، کیا عدالت یہ درخواست منظور کر کے حلقوں کے عوام کو نمائندگی کے بغیر چھوڑ دے، پارلیمنٹ کے ساتھ 70 سال سے بہت ہو چکا، اب ختم ہونا چاہیے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار اپنی پارٹی کی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ پھر یہ عدالت یہ درخواست بھی منظور نہیں کر سکتی، درخواست گزار اسپیکر کے پاس جا کر کہہ سکتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں واپس آنا چاہتے ہیں۔علی ظفر نے کہا کہ ہم اسپیکر کے پاس تو نہیں جا سکتے، یہ عدالت نوٹیفکیشن معطل کرے پھر جا سکتے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت آپ کی سیاسی ڈائیلاگ کے لیے سہولت کاری تو نہیں کرے گی، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ہم پارلیمنٹ کو نہیں مانتے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو مانتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی کہے کہ عدالت کو مانتا ہوں اور عدالت کو جو مرضے آئے کہتا رہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی غیریقینی ملکی مفاد میں نہیں، یہ عدالت درخواست منظور کیوں کرے؟ جب تک پارلیمنٹ کے احترام کا اظہار نہیں کریں گے درخواست منظور نہیں ہو سکتی، پارلیمنٹ مانتے بھی نہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں بھیج دیں، یہ عدالت آپ کو کل تک کا وقت دے دیتی ہے، کل پارلیمنٹ واپس چلے جائیں یہ عدالت آپ کی درخواست منظور کر لے گی۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ضمنی الیکشن پر کتنا خرچہ آتا ہے، سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں، سیاسی تنازعات اس عدالت کیلئے نہیں، یہ عدالت مداخلت نہیں کریگی، یہ عدالت پارلیمنٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دے گی، سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں واپس جا کر سیاسی عدم استحکام کو ختم کرے، سیاسی عدم استحکام سے ملک کا نقصان ہو رہا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر قومی اسمبلی تو پی ٹی آئی کو موقع دے رہے ہیں کہ آئیں اور عوام کی خدمت کریں جس پر پی ٹی آئی رہنماں کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے ایک گھنٹہ دیں میں مشاورت کر کے عدالت کو آگاہ کرتا ہوں جس پر عدالت نے کیس کی سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔پی ٹی آئی کے دس ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست پر دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وکیل پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے مقف اپنایا کہ پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں پر کچھ قانونی مسائل پیش کرنا چاہتا ہوں، سپیکر قومی اسمبلی نے ہمارے استعفے منظور کرتے ہوئے قانون کو مدنظر نہیں رکھا۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری سپیکر نے نہیں باہر کے لوگوں نے دی، ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں ایاز صادق، اعظم تارڑ اور دیگر استعفے منظوری کے فیصلے کررہے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ ایسی بات نہ کریں کہ سپیکر نے کسی کے کہنے پر استعفوں کا فیصلہ کیا، پارلیمنٹ تحلیل کرنے یا ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ کیا ان کا اپنا فیصلہ تھا ؟ ماضی میں نہ جائیں، سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی عام پاکستانیوں کیساتھ ہورہا،یہ عدالت پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کرتی ہے اور کرتی رہے گی، ارکان پارلیمنٹ یہ احترام نہیں کر رہے۔یاد رہے کہ اپریل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی اراکین نے مشترکہ طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔اسمبلی سے بڑے پیمانے پر مستعفی ہونے کے فیصلے کا اعلان پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے 11 اپریل کو وزیر اعظم شہباز شریف کے انتخاب سے چند منٹ قبل اسمبلی کے فلور پر کیا تھا۔سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری(جو اس وقت قائم مقام اسپیکر کے طور پر کام کر رہے تھے) نے فوری طور پر استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو نوٹی فکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی تھی۔نئی حکومت کی تشکیل کے بعد جون میں نئے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے پی ٹی آئی کے 123 اراکین اسمبلی کے استعفوں کی تصدیق کا عمل انفرادی طور پر یا چھوٹے گروپس میں بلا کر شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔تاہم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اپنی پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی کو استعفوں کی تصدیق کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجا پرویز اشرف کے سامنے پیش ہونے سے روک دیا تھا۔بعدازاں اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف نے رواں سال جولائی میں پاکستان تحریک انصاف کے 11 ممبران کے استعفی منظور کیے جن میں شیریں مزاری، اعجاز احمد شاہ، علی محمد خان، فرخ حبیب، فضل محمد خان، شوکت علی، فخر زمان خان، جمیل احمد خان، محمد اکرم چیمہ، عبدالشکور شاد، شاندانہ گلزار خان شامل تھے اور الیکشن کمیشن نے ان ممبران کے استعفوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔چونکہ شیریں مزاری اور شاندانہ گلزار خان پنجاب اور خیبرپختونخوا سے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں پر منتخب ہوئی تھیں اس لیے الیکشن کمیشن نے بقیہ 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔تاہم یہ ضمنی انتخابات سیلاب اور مون سون کی بارشوں کے باعث ملتوی کردیے گئے تھے۔ایک روز قبل ہی پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنر اسد عمر نے اعلان کیا تھا کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ارکان کے 100 سے زائد استعفوں میں سے صرف 11 استعفوں کی منظوری کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔جبکہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز عامر کا جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔شاہنواز عامر کو 23 ستمبر کو اسلام آباد کے علاقے شہزاد ٹان کے ایک فارم ہاس میں مبینہ طور پر اپنی کینیڈین شہریت کی حامل بیوی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ابتدائی طور پر انہیں گرفتاری کے ایک دن بعد پولیس کی تحویل میں دیا گیا تھا جس کے بعد جسمانی ریمانڈ کی مدت میں کئی بار توسیع کی گئی، گزشتہ سماعت پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں تین دن کی توسیع کی اجازت دی تھی جو آج ختم ہو گئی۔شاہنواز کو جسمانی ریمانڈ کی میعاد ختم ہونے پر آج عدالت میں پیش کیا گیا جہاں پولیس نے ان کا جوڈیشل ریمانڈ طلب کیا۔عدالت نے پولیس کی استدعا منظور کرتے ہوئے شاہنواز کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔شاہنواز کے خلاف اسلام آباد کے چک شہزاد تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ایف آئی آر سٹیشن ہاس آفیسر (ایس ایچ او)نوازش علی خان کی شکایت پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(قتل کی سزا) کے تحت درج کی گئی۔شکایت میں کہا گیا کہ 23 ستمبر کو ملزم کی والدہ ثمینہ شاہ نے پولیس کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ شاہنواز نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کر دیا ہے۔ایف آئی آر میں ثمینہ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ میرا بیٹا گھر میں موجود ہے اور اس نے لاش چھپا رکھی ہے، ان کے اس بیان کے بعد پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا تھا۔پولیس نے کہا کہ ملزم نے خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیا تھا، جب وہ اندر داخل ہوئے تو شاہنواز کے ہاتھوں اور کپڑوں پر خون کے دھبے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ملزم نے اعتراف کیا کہ اس نے جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کو بار بار ڈمبل سے مارا اور پھر اس کی لاش کو واش روم کے باتھ ٹب میں چھپا دیا۔ایف آئی آر کے مطابق شاہنواز نے یہ بھی کہا کہ اس نے قتل کا ہتھیار اپنے بستر کے نیچے چھپا دیا تھا۔ڈمبل کا معائنہ کرنے پر پولیس کو اس پر خون کے چھبے اور بال ملے، ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ ہم نے اسے فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے۔شکایت میں مزید کہا گیا ہے کہ متاثرہ خاتون کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے پولی کلینک ہسپتال بھیج دیا گیا ہے۔اس سے قبل کیپیٹل پولیس کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ(ڈی ایس پی) پراسیکیوشن اظہر شاہ نے بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر کے اندراج یا واقعے کی شکایت موصول ہونے سے قبل لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا جو کہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر ایسے معاملے میں خاندان کا کوئی فرد دستیاب نہ ہو تو پولیس خود ریاست کی جانب سے شکایت کنندہ بن سکتی ہے اور ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے