عوامی مشکلات میں کمی کیلئے منی بجٹ کی بازگشت

 
0
74

مہنگائی کے طوفان میں اتحادی حکومت نےبالآخرعوامی مشکلات میں کمی کیلئے منی بجٹ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ ،آئی ایم ایف کے تحفظات کو بھی دور کیا جاسکے تاہم اس سے مہنگائی میں کمی کا امکان مشکل ہے البتہ مزید اضافے کو قابو کرنے میں مدد ضرور ملے گی ۔خیال رہے کہ پہلے ہی اتحادی حکومت نے تعطل کا شکار قرض پروگرام بحال کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات تسلیم کرنے کے بعد 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے لیے 2 مسودہ آرڈیننس تیار کرلیے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق حکومت پاور سیکٹر کی سبسڈی کو ختم کرنے اور ایکسپورٹ سیکٹر خاص طور پر ٹیکسٹائل صنعت کاروں کے لیے خام مال پر سیلز ٹیکس لگانے پر بھی غور کر رہی ہے۔ یہ ایسے اقدامات جو انتخابات کے سال میں مسلم لیگ (ن) کو سیاسی اعتبار سے بھاری پڑ سکتے ہیں، بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزید اضافہ بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈارکی پالسیوںکا دفاع کرتے ہوئے قوم سے اپیل کی ہے کہ بگڑتے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسحٰق ڈار پر اعتماد رکھا جاۓ ،اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر مریم نواز شریف نے لندن سے واپسی پر وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا دفاع کرتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ بگڑتے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے اسحٰق ڈار پر اعتماد رکھیں۔اسحٰق ڈار کی پالیسیوں کے ناقد سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ حکومت کی پالیسیاں درست سمت پر ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کے لیے یہ اقدامات ضروری ہیں۔ انکاماننا ہے کہ” ہمارے پاس آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے”۔ملک کی اعلیٰ ٹیکس مشینری کی جانب سے تیار کردہ ان دونوں مسودہ آرڈیننس میں سے ایک آرڈیننس 100 ارب روپے کے نئے ٹیکسز اور دوسرا درآمدات پر 100 ارب روپے کے فلڈ لیوی کے نفاذ سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں ٹیکس عہدیدار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے دونوں آرڈیننس تیار کر لیے ہیں، ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح اور لگژری آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ ہوگا، علاوہ ازیں روپے کی قدر میں بڑے پیمانے پر کمی سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لیے اضافی آمدنی کی بھی توقع ہے۔یف بی آر کی جانب سے درآمدات پر فلڈ لیوی وصول کی جائے گی جسے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) میں کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف نے پی ڈی ایل سے متعلق 300 ارب روپے کے شارٹ فال کا تخمینہ لگایا ہے اور وزارت خزانہ سے کہا ہے کہ وہ پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر لیوی 35 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرےیہ فیصلہ 31 جنوری کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اگلے جائزے میں متوقع ہے، جس کے نتیجے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 40 روپے فی لیٹر اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ان پالیسی اقدامات پر عمل درآمد کی یقین دہانی کے بعد 31 جنوری کو بات چیت کے لیے آئی ایم ایف ٹیم کی اسلام آباد آمد متوقع ہے۔یہ اقدمات سیاسی وجوہات کی بنا پر تقریباً 4 ماہ تک موخر کر دیے گئے تھے کیونکہ اِن کے سبب پہلے سے موجود شدید مہنگائی میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا، تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے قرض دینے سے انکار کے بعد حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑیں۔ تاہم اس عرصے کے دوران معاشی نقصان ہوچکا ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کئی سال کی کم ترین سطح پر آ کر 3 ارب 68 ڈالر رہ گئے جوکہ 3 ہفتوں کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے بمشکل کافی ہیں۔وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے ستمبر میں عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد آئی ایم ایف اور حکومتی ٹیم کے چند عہدیداروں کی شدید مخالفت کے باوجود ڈالر کو قابو کرنے کے لیے اپنی مشہور حکمت عملی پر عمل کیا۔
ابتدائی طور پر روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 240 سے 220 پر آکر کچھ مضبوط ہوا تو کچھ فوائد ضرور حاصل ہوئے لیکن یہ فوائد پائیدار نہیں تھے کیونکہ ذخائر میں مسلسل کمی آتی رہی جس کی بنیادی وجہ برآمدات میں کمی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ابھرتی ہوئی سیاسی بے یقینی کی صورتحال معاشی بحالی کے راستے میں چیلنج کا باعث بن رہی ہے۔ دوسری جانب شرح سود اور مہنگائی کی انتہائی بلند سطح، عالمی اقتصادی سست روی، اجناس کی غیر مستقل قیمتیں اور روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے ناموافق عالمی ماحول بھی بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کو اس فیصلے کے نتیجے میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور پھر ملک بھر میں عام انتخابات سے قبل جلد ہی سخت فیصلے لینے ہوں گے جو کہ ووٹرز کے لیے کڑوی گولیاں ثابت ہوں گے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ابھرتی ہوئی سیاسی بے یقینی کی صورتحال معاشی بحالی کے راستے میں چیلنج کا باعث بن رہی ہے۔ دوسری جانب شرح سود اور مہنگائی کی انتہائی بلند سطح، عالمی اقتصادی سست روی، اجناس کی غیر مستقل قیمتیں اور روس اور یوکرین کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ کی وجہ سے ناموافق عالمی ماحول بھی بڑا چیلنج ہے۔ حکومت کو اس فیصلے کے نتیجے میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور پھر ملک بھر میں عام انتخابات سے قبل جلد ہی سخت فیصلے لینے ہوں گے جو کہ ووٹرز کے لیے کڑوی گولیاں ثابت ہوں گے۔بجلی کی قیمتوں میں تقریباً 30 فیصد اضافہ، گیس کی قیمتوں میں 60 سے 70 فیصد یا اس سے بھی زیادہ اضافہ، نئے ٹیکس اقدامات اور شرح سود میں اضافہ آنے والے معاشی طوفان کے نمایاں ثمرات ہوں گے۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق ان اقدامات کے مشترکہ اثرات سے مہنگائی کی شرح میں مزید 5 سے 10 فیصد تک اضافہ ہوگا جو پہلے ہی 25 فیصد کے اردگرد منڈلا رہی ہے۔اس کے سیاسی اثرات ہوں گے اور یہ بہت تلخ ہوں گے ۔ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ ’ان اقدامات کے ساتھ ساتھ ملک میں اس وقت موجود 3 الگ الگ فارن ایکسچینج مارکیٹوں کے خلاف فیصلہ کن کریک ڈاؤن نظام میں سنگین بگاڑ کو دور کرنے میں مدد کرے گا، جو پہلے ہی غیر ملکی زرمبادلہ کی خطرناک حد تک کمی کا شکار ہے۔’یہ ایسے نازک مرحلے پر ہوتا ہے جب معیشت جمود کا شکار ہو، اس وقت ٹرپل فاریکس مارکیٹ کی وجہ سے برآمدات اور ترسیلات زر میں کمی آرہی ہے اور سپلائی سائیڈ کے مسائل کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے،تاہم ان اقدامات کی عدم موجودگی میں مہنگائی چند ہفتوں میں 50 فیصد سے بھی تجاوز کر سکتی تھی جیسا کہ دیگرممالک میں ہوا تھا جہاں اب مہنگائی کی شرح 70 فیصد اور 50 فیصد سے تجاوز کر رہی ہے۔اس صورت میں بحالی کا راستہ طویل اور زیادہ تکلیف دہ ہو سکتا ہے، یہ حکمران جماعتوں اور حزب اختلاف دونوں کے لیے ایک سبق ہے کہ وہ آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے دانشمندانہ حکمت عملی اپنائیں کیونکہ معاشی فیصلوں کے حوالے سے اگلی حکومت کو اس سے بھی زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کا سہارا لینا سب سے اہم اور واحد اقدام تھا جسے مارکیٹوں اور عالمی برادری کو ایک سمت دینے کے لیے ہفتوں اور مہینوں پہلے اٹھا لیا جانا چاہیے تھا۔
تاہم تاخیر کے باوجود اس فیصلے پر عمل درآمد کے بعد غیر یقینی کی صورتحال کو جزوی طور پر دور کرنے میں مدد ملے گی اور پریشان حال کاروباری طبقے کو یہ اشارہ ملے گا کہ مخلوط حکومت اپنے سیاسی نقصان کے باوجود سنجیدہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے طے پا جانے کی صورت میں لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فوری طور پر جاری ہوں گے اور اس سے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین جیسے دوست ممالک سمیت قرض دہندگان سے مالی امداد حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔دوست ممالک نے پہلے ہی عوامی سطح پر یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے ذمہ دارانہ انداز اختیار کرنے اور اصلاحات کے بعد ہی اضافی وسائل کے ساتھ پاکستان کی مدد کی جائے گی۔پی ڈی ایم حکومت ایک دوراہے پر کھڑی ہے، اس کے لیے ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ عام انتخابات کا اعلان کردیا جائے اور 5 سالہ مینڈیٹ والی نئی حکومت کو اس سے بھی زیادہ سخت فیصلے کرنے دیں لیکن اس وقت تک بحران مزید خطرناک شکل اختیار کرلے گا۔
نئی حکومت کو وہ تمام ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنی ہوں گی جو سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے دور سے اب تک آنے والی تمام حکومتوں میں زیر التوا رہیں اور اس کے لیے ایک اور آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہوگی۔خسارے میں چلنے والے اداروں خصوصاً بجلی اور گیس کمپنیوں کی نجکاری، ریگولیٹرز کی جانب سے توانائی کے شعبے کے لیے ٹیرف کے انتظام اور چینی، گندم اور کھاد وغیرہ جیسی اشیا کے لیے شفاف سبسڈی کو تمام فریقین نے ہمیشہ اس وقت حمایت کی ہے جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں اور جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ ’جب ہمارے سعودی عرب جیسے دوست مالی امداد سے پہلے اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق حکومت کے وزیر خزانہ کی طرح دوبارہ کسی وزیر خزانہ کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینے کے لیے 8 سے 9 ماہ کا وقت نہیں ملے گا۔اس لیے ہمیں عالمی برادری سے اس وقت تک توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں جب تک کہ ہم ان کی توقعات پر پورا نہ اتریں۔