نیشنل ایکشن پلان وقت کی ضرورت پشاورپولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکا کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت مزید بڑھ گئی

 
0
122

نیشنل ایکشن پلان وقت کی ضرورت پشاورپولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکا کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے نیشنل ایکشن پلان اصلاً دو اجزا پر مشتمل ہے ۔ ایک جزو وہ ہے جس کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے ہے۔ دوسرا جزو انتہا پسندی کے خاتمے کو مخاطب بنا تا ہے۔ انتہا پسندی ایک ذہنی اور فکری عمل ہے جس کے زیرِ اثر انسان کی نفسیات بنتی ہے۔ دہشت گردی اس کا عملی اظہار ہے۔ ایک انتہا پسند ذہن ایک خاص نفسیاتی کیفیت میں جب انسانی جان و مال کو ہدف بناتا ہے تو دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ دہشت گردی کا خاتمہ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی کہ دونوں کو بیک وقت ہدف بنایا جائے۔ نیشنل ایکشن پلان کا بنیادی تصور بھی یہی ہے وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور دھماکے کی شدید مذمت کی ہے۔ایک بیان میں وزیراعظم شہباز شریف نے پشاور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کے حضور سربسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے،

اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں وزیراعظم نےکہا کہ دہشتگرد پاکستان کے دفاع کا فرض نبھانے والوں کونشانہ بناکرخوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے اور ناحق شہریوں کا خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پوری قوم اور ادارے یکسو اور متحد ہیں، پوری قوم اپنے شہداء کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔خودکش دھما کے میں پچاس کے قریب افراد شہید اور 140 سے زائد زخمی ہوئے ہیں ، خیال رہے کہ قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مراحل درپیش آتے ہیں، جو ظاہری طور پر بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیں باہمت اقوام کا یہ وصف ہوتا ہے کہ ان وہ چیلنجوں کو ’’مواقع‘‘ میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور اے پی ایس میں جو انتہا افسوس ناک المیہ پیش آیا ‘اس کو تاحال قومی سطح پر پوری طرح سے ایک ’’موقع ‘‘میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین کا کہنا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں جو سانحہ ہوا، اس نے یکد م پوری ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے سبھی متعلقہ فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات کا تمام حکومتی و ریاستی ادارے کس طور تدارک کریں گے اور کس ڈھنگ سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔اسی حوالے سے پارلیمنٹ کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا گیا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے بھرپور شرکت کی۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیا گیا۔اس حوالے سے ابتدائی ہفتوں میں کافی اقدامات بھی اٹھائے گئے

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوجوہ یہ امر اس حد تک نتیجہ خیز اور باآور ثابت نہ ہو پایا جس کی توقع کی گئی تھی۔ اس ضمن میں اگرچہ کافی پیش رفت بھی ہوئی اور ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشتگردی کے ڈھانچے کو کافی حد تک کمزور بھی کیا گیا مگر اس کے باوجود واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ گذشتہ چند مہینوں میں دہشتگردی کی یہ عفریت یوں لگتا ہے جیسے نئی نئی شکلیں بدل کر پھن پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں اب کئی چھوٹے اور بڑے گروہ مختلف ناموں سے پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت بجا طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔
اسی سلسلے کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائےدی ہے کہ ایک جانب تو موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جائے۔ یہ امر کسی حد تک خوش آئند ہے کہ گذشتہ سال اس ضمن میں خاصی سنجیدگی دکھائی گئی ۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔ اس پر اگر پوری طرح عمل کیا جاتا تو دہشتگردی و انتہا پسندی کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔ اسی ضمن میں اسلام آباد میں ’’نیشنل ایکشن پلان : ضروریات اور رکاوٹیں ‘‘ کے عنوان سے ایک مباحثے کا بھی انعقاد کیا گیا۔ جس میں ماہرین نے اس معاملے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے رائے ظاہر کی کہ چونکہ فرقہ واریت اور دہشتگردی پاکستان کیلئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں لہذا وزیر اعظم کو ’’نیکٹا‘‘ سے متعلقہ تمام معاملات کو زیادہ موثرانداز سے خود دیکھنا چاہیے ۔ ان رکاوٹوں کا جائزہ لینا بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے جن کی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان پر اس طرح عمل نہ پایا جس کا حالات تقاضا کرتے ہیں کیونکہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی میں ایک اہم ڈاکومنٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک قومی سلامتی کے تحفظ اور دہشتگردوں کے خلاف، ایک مربوط پالیسی کا نہ ہونا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کو اسکی صحیح رُو کے مطابق نافذ کرنے کے لئے سویلین لیڈر شپ کی کمٹمنٹ بھی انتہائی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں گڈ گورننس کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئے خلا سے ملک دشمن قوتوں کو پاؤں پھیلانے کا موقع ملا۔ سالہاسال بعد ایسی دستاویز میسر آئی جس پر تمام قیادت کا اتفاق تھا مگر بوجوہ تاحال منطقی نتائج حاصل نہیں ہو سکے ۔ اس کی رکاوٹوں میں سے ایک خاطر خواہ فنڈز کی کمی بھی ہے لہذا صوبوں میں قائم اینٹی ٹیرارسٹ ڈیپارٹمنٹس کو مضبوط کیا جائے۔اسی کے ساتھ قبائلی علاقہ جات اور افغان مہاجرین کا مسئلہ فوری حل کا متقاضی ہے۔


اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ زمینی حقائق اس ا مر کے متقاضی ہیں کہ قوم کے سبھی حلقے تدبر ،معاملہ فہمی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کو اس کی صحیح رُو اور سپرٹ کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ واضع رہے کہ پشاورمیں پولیس لائنز کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران خودکش دھماکے میں امام مسجد اور پولیس اہلکاروں سمیت شہید ہونے والوں کی تعدادپچاس ہوگئی ہے جب کہ 140 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ، دھماکے سے مسجد کی دومنزلہ عمارت کر گئی، سکیورٹی حکام کے مطابق حملہ آور نمازیوں کی پہلی صف میں موجود تھا، مسجد کے ملبے تلے سے تین افراد کو نکال لیا گيا ،اب بھی متعدد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے، بھاری مشینری سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال نے دھماکے میں شہید اور زخمی افراد کی فہرست جاری کردی ہے جس کے مطابق دھماکے میں 47 افراد شہید ہوئے، 140 سے زائد زخمی ہوئے۔ شہداء میں 5 سب انسپکٹرز، مسجد کے پیش امام صاحبزادہ نور الامین ، ایک خاتون اور دیگر افراد شامل ہیں۔ خاتون مسجد سے متصل پولیس کوارٹر میں رہاش پذیر تھی۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تین جاں بحق افراد کی شناخت ابھی نہیں ہوسکی ہے۔ریسکیو کے مطابق پشاور کے علاقے صدر پولیس لائنز میں مسجد کے اندر دھماکا ہوا، دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ دور دور تک سنی گئی جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ دھما کے کے بعد علاقے میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ ریسکیو کا کہنا ہےکہ دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا وزیراعظم شہباز شریف کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کا ہنگامی دورہ، حکام کی بریفنگ دی گئی وزیراعظم شہباز شریف پولیس لائنز کے قریب میں مسجد میں دھماکے کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے بعد پشاور پہنچے اور ہسپتال کا ہنگامی دورہ کیا جہاں انہیں بریفنگ دی گئی۔ حکومت پاکستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف ہنگامی دورے پر پشاور پہنچے جہاں کور کمانڈر پشاور نے دہشت گردی کے عوامل اور محرکات کے حوالے سے انہیں بریفنگ دی‘۔بیان میں کہا گیا کہ ’انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا(آئی جی) نے پولیس لائنز میں ہونے والے خود کش حملے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی اور اس موقع پر وزیراعظم کو خود کش حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائی گئی‘۔ اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف ہنگامی دورے پر پشاور پہنچے جہاں آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی موجود تھے، اس کے علاوہ وزیردفاع خواجہ محمد آصف اور وزیراطلاعات مریم اورنگزیب بھی ساتھ تھیں۔وزیراعظم کے دورے کے حوالے سے بتایا گیا کہ وزیراعظم کو پولیس لائنز میں خود کش حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دکھائی گئی، شرکا نے پولیس لائنز حملے میں شہید ہونے والوں کے لیے فاتحہ خوانی کی اور متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔سرکاری خبرایجنسی کے مطابق وزیراعظم کے ہمراہ نگراں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور انجینئر امیر مقام، خیبرپختونخوا کے آئی جی پی معظم جاہ انصاری اور دیگر صوبائی حکام بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نے ایل آر ایچ کے مختلف وارڈز کا دورہ کیا اور زخمیوں کی عیادت کی اور ہسپتال انتظامیہ کو ہدایت کی کہ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔س سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات اور نشریات مریم اورنگزیب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف پشاور پہنچ گئے ہیں، پشاور کے افسوس ناک واقعہ کے بعد ہنگامی اجلاس اور تمام متعلقہ اداروں کے حکام کو طلب کر لیا ہے‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’امن وامان سے متعلق وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس دہشت گردی کے آج کے واقعے کے محرکات پر غور کرے گا‘۔ وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ ’اجلاس میں واقعے پر ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش ہو گی‘۔وزیراعظم شہباز شریف نے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کیا تو ان کے ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ خیال رہے کہ پشاور میں پولیس لائنز کے قریب مسجد میں نماز ظہر کے دوران ہونے والے دھماکے میں اب تک 44 افراد کی شہادت کی تصدیق ہوچکی ہے اور 157 افراد زخمی ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف کا پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں خود کش دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی کے حضور سربسجود مسلمانوں کا بہیمانہ قتل قرآن کی تعلیمات کے منافی ہے، اللہ کے گھر کو نشانہ بنانا اس بات کا ثبوت ہے کہ حملہ آوروں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، دہشت گرد پاکستان کے دفاع کا فرض نبھانے والوں کو نشانہ بنا کر خوف پیدا کرنا چاہتے ہیں، پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شہریوں کا ناحق خون بہانے والوں کو عبرت کا نشان بنائیں گے، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پوری قوم اور ادارے یکسو اور متحد ہیں،پوری قوم اپنے شہدا کو سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال پر جامع حکمت عملی اپنائیں گے، وفاق صوبوں کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت بڑھانے میں تعاون کرے گا۔ وزیراعظم نے وفاقی وزیر داخلہ کو ہدایت کی کہ صوبوں بالخصوص خیبرپختونخوا کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی صلاحیت بڑھانے میں مدد فراہم کریں۔سیاسی و عسکری قیادت کا متفقہ تجزیہ یہی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعض ایسے پہلو ہیں جن پر پوری طرح عمل درآمدنہیں ہو سکا۔ اس کمزوری کے باعث دہشت گردوں کی باقیات کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ کسی واقعے سے معاشرے کو اضطراب میں مبتلا کردیں۔ایسے اِکا دُکا واقعات سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ دہشت گرد ختم نہیں ہوئے۔دراصل ایسے واقعات کا تعلق انتہا پسندی کے ساتھ ہے جس کاخاتمہ ابھی نہیں کیا جا سکا۔اس سے وہ لوگ جو اِدھر اُدھر چھپے بیٹھے ہیں، فائدہ اُٹھاتے اور واردات کر گزرتے ہیں۔

دہشت گرد تو وہ تھے جن کے ہاتھ میں ہتھیار تھے اور وہ پوری قوم کے خلاف منظم تھے۔ ان کے خاتمے کے لئے عسکری اقدامات ہی نا گزیر تھے۔ یہ صلاحیت ہماری فوج میں ہے یا پولیس جیسے سلامتی کے اداروں میں۔فوج نے ضربِ عضب میں یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اُٹھائی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کو کامیابی سے نبھایا۔ دہشت گردی کے مراکز ختم ہو چکے اور ان کو اس ملک سے دیس نکالا دیا جاچکا۔ اب ناگزیر ہے کہ انتہا پسندی کے مراکز بھی ختم ہوں تاکہ دہشت گردوں کو نئے ہاتھ میسر نہ آئیں۔ اس کے لئے لازم ہے کہ ان افکار کا ابطال کیا جائے جو انتہا پسندانہ ذہن بناتے ہیں۔ ان اداروں کا خاتمہ ہو جو نوجوانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔

یہ معلوم ہے کہ اس انتہا پسندی کا بڑا سبب وہ دینی تعبیرہے جو گزشتہ دو عشروں میں دنیا بھرمیں پھیلائی گئی۔ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کو ان کے نظمِ اجتماعی کے خلاف ابھارا۔ ریاست کے وجود کو ہدف بنایا۔ مسلم عوام کے دلوں سے اپنے ملک، حکومت اور فوج کی محبت نکالنے کی کوشش کی اور اس مذموم خیال کو دینی استدلال فراہم کیا۔ دنیا میں مظلوم مسلمانوں کے حالات کا ذمہ دار مسلم ریاستوں کو قرار دیا اور یوں عوام کو اس پر اُبھارا کہ وہ اپنی ہی ریاست کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں۔ موجودہ قومی ریاست کے مقابلے میں ایک اسلامی ریاست یا خلافت کا تصور دیا جو کسی سرحدکو نہیں مانتا اور انہیں دشمنوں کی سازش قرار دیتا ہے۔ جب نوجوانوں کے ذہن بن جاتے ہیں تو پھر ان کے ہاتھ میں بندوق پکڑا کر انہیں اپنے ہی ملک اور فوج کے بالمقابل لا کھڑا کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے کم عمر لڑکوں کو خود کش حملہ آور بنایا جاتا ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے اس تعبیرِ دین کو ہدف بنانا ضروری ہے۔ قوم کو ایک جوابی بیانیے کی ضرورت ہے جو دین کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں، چند سوالات کو بطورخاص موضوع بنائے اور اس کا اہتمام کرے کہ اس باب میں نئی نسل کے ذہنوں میں موجود اشکال ختم کئے جائیں,انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے ان سوالات پر نئی نسل کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ قومی ایکشن پلان میں، نظریاتی تشکیلِ نو کے لئے ایک قومی بیانیے کی تشکیل کی بات ہوئی ہے جو اس انتہا پسندی کے بالمقابل ایک نقطہ نظرپیش کرتا ہو۔ اس محاذ پر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں اور ریاست کی طرف سے ابھی تک کوئی ایسا بیانیہ سامنے نہیں آ سکا جو انہیں مخاطب بناتا ہو۔ اس کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ مذہبی اداروں اور مذہبی تعلیم کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ اس مقصد کے لئے ضروری تھا کہ دینی مدارس اور مساجد جیسے دینی اداروں کو ایک نظم کے تحت لایا جاتا تاکہ کوئی محراب و منبر کو منفی مقاصد کے لئے استعمال نہ کرے۔ ہم ابھی تک اس میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے جہاں ان مراکز کی نشاندہی اور خاتمہ ضروری ہے‘ جہاں یہ نظریات فروغ پاتے ہیں‘ وہاں اس نظامِ ابلاغ کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے جن کے تحت ان افکار و نظریات کو پھیلایا جاتا ہے۔ یہ معلوم حقیقت ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بہت سے نوجوان جدید تعلیمی اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان اداروں میں ایسی تعلیم نہیں دی جاتی ۔ سوال یہ ہے کہ یہ نظریات کیسے اپنے مراکز سے سفر کرتے ہوئے ان نوجوانوں کے ذہنوں تک پہنچتے ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کئے بغیر بھی انتہا پسندی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کا وہ جزو بہت کامیاب رہا جس کا تعلق دہشت گردی کے خاتمے سے تھا۔لیکن دوسرا جزء ریاست کی مزیدتوجہ کا متقاضی ہے۔ انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکتا۔