’اب کہاں جائیں‘، شام میں زلزلے سے متاثرہ ڈیم ٹوٹنے سے گاؤں زیرِ آب

 
0
119
شام میں پیر کو آنے والے زلزلے سے متاثر ہونے والا ڈیم اچانک ٹوٹ گیا جس کے نتیجے میں ادلیب کا ایک گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔
عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق ہفتے کے آغاز میں ترکیہ کے جنوبی اور شام کے شمالی حصے میں آنے والے زلزلے نے بھی گاؤں کو متاثر کیا تھا تاہم اب دریائے ارونٹس نے ان کے گھر بھی ڈبو دیے ہیں اور ان کو بے سروسامانی کی حالت میں گھروں کو چھوڑنا پڑا۔
اس علاقے کے لوگ قریبی زیتون  کے باغوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
26 سالہ نجم الدین بن عبدالربیبی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کا گاؤں زلزلے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا اور لوگوں کو فوری طور پر خیموں اور دوسرے سامان کی ضرورت ہے۔
’ہمارے گھر ڈوب چکے ہیں، ہم کہاں جائیں، ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں۔‘
اسی طرح دریا کے کنارے واقع دوسرے علاقوں کے لوگ بھی اسی پریشانی میں اپنے گھر چھوڑ چکے ہیں کہ کہیں انہیں بھی ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔
خیال رہے پیر کو علی الصبح سات اعشاریہ آٹھ کی شدت کے زلزلے نے ترکیے اور شام کے کچھ علاقوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق دونوں مماک میں 22 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
اگرچہ ترکیہ میں امدادی کارکن پہنچ چکے ہیں اور پہنچ بھی رہے ہیں تاہم شمالی شام میں بہت کم امداد پہنچ پائی ہے جہاں تقریباً 45 لاکھ لوگ آباد ہیں اور ان میں سے 90 فیصد کا انحصار بھی پہلے سے ہی امداد پر تھا۔
مڈل ایسٹ کے ادارہ برائے انسداد دہشت گردی و شدت پسندی کے ڈائریکٹر چارلس لِسٹر نے رواں ہفتے ایک غیرملکی میگزین میں لکھا کہ ’عالمی برادری نے ترکیہ کے ساتھ خاطر خواہ امداد کا وعدہ کیا ہے جو بجا بھی ہے تاہم ہمیشہ کی طرح شامیوں کو نظرانداز کیا گیا۔‘
 اس سخت سردی میں متاثرین کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
شام کے شمال مشرقی علاقے اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور درجہ حرارت منفی چار تک گر گیا ہے۔
شام کے محکمہ شہری دفاع جس کو وائٹ ہیلمٹ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے نے الطلول کے علاقے میں اہلکار بھیجے ہیں جو عمارتوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ نکاسی کے نظام کو صاف کر کے سیلابی پانی کو گزرنے کا موقع مل سکے۔
محکمے نے جمعے کو اقوام متحدہ پر شمال مشرقی شام میں اس کے ردعمل کو ناکام بنانے کا الزام بھی لگایا تھا۔
گروپ کے سربراہ رائد صالح نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اقوام متحدہ شام کے عوام کے خلاف جرم کا ارتکاب کیا ہے۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے زلزلے کے بعد بننے والی صورت حال کے حوالے سے مخصوص امداد فراہم نہیں کی گئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’اقوام متحدہ کو شام کے عوام سے معافی مانگنی چاہیے۔‘
الطلول کے لوگوں کو زلزلے سے قبل بھی شدید مسائل کا سامنا رہا ہے کیونکہ وہ خانہ جنگی کے دوران پچھلے 12 سال سے ایک زیرقبضہ علاقے میں رہنے پر مجبور رہے۔
62 سالہ حاتم العلی نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’الطلول ایک غریب ترین گاؤں ہے جہاں کے رہائشیوں کے پاس کچھ نہیں۔ سب کچھ چلا گیا اور لوگوں کے پاس روٹی خریدنے کے بھی پیسے نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سب سے ضروری چیز اس وقت مناسب پناہ گاہ ہے جبکہ کھانے کے سامان کے علاوہ  بیماریوں کی روک تھام کے لیے صاف پانی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے ہسپتال اور دوسرا انفراسٹرکچر پہلے سے تباہ ہو چکا ہے بجلی اور پانی کی بھی شدید کمی تھی۔