اکستان کے ساحلی شہر کراچی میں پولیس چیف کے دفتر پر حملے کے بعد جائے وقوعہ سے ملنے والی مشکوک گاڑی کے مالک کو لانڈھی سے حراست میں لے لیا گیا۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حراست میں لیے گئے شخص کے نام پر گاڑی حملے میں استعمال ہوئی۔
پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں شہری نے پولیس کو بتایا ہے کہ اس نے گاڑی شوروم پر فروخت کی تھی اس کے بعد کس نے خریدی اسے علم نہیں۔
پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں 17 فروری کو کراچی پولیس چیف کے دفتر پر مسلح ملزمان نے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں پانچ قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور 18 افراد زخمی ہوئے۔
پولیس کی جانب سے واقع کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جو مختلف زاویوں سے کیس کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ڈی آئی جی جنوبی عرفان بلوچ نے کراچی پولیس آفس کے باہر میڈیا کو بتایا کہ کے پی او پر حملے کے بعد دفتر کے باہر سے ایک مشکوک گاڑی ملی ہے۔
’امکان ہے کہ حملہ آوروں نے اسی گاڑی کا استعمال کیا تھا۔ گاڑی سے اندر سے نمبر پلیٹس بھی ملی ہیں۔‘
شہر میں پیش آنے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے ایک بار پھر فینسی نمبر پلیٹ، غیر رجسٹرڈ اور اوپن لیٹر پر چلنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاس میں اداروں کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ شہر میں لاتعداد گاڑیاں بنا رجسٹریشن کے چلائی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پرانی گاڑیاں استعمال کرنے والے بیشتر افراد گاڑیاں اوپن لیٹر پر ہی چلا رہے ہیں جو سکیورٹی رسک ہے۔
کراچی کے رہائشی ساجد لطیف نے کہا کہ ’پرانی گاڑیوں کو نام کرانے کے احکامات اچھے ہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مڈل کلاس فیملز میں ایک ہی گاڑی خاندان کے کئی افراد استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ ممکن نہیں کہ ایک ہی گاڑی خاندان پانچ افراد کے نام کی جا سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اس حوالے سے احکامات واضح کیے جائیں کہ گاڑی چلانے والے ہر شخص کے نام گاڑی کا ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے۔ ساجد لطیف پیشے کے اعتبار سے وکیل ہے اور ان کے پاس 1000 سی سی کی گاڑی موجود ہے جو ان کے علاوہ ان کے تین بھائی اور دیگر دوست ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے تین بھائیوں سمیت دیگر دوستوں کے نام پر بھی گاڑی کی جائے؟
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سکیورٹی کے انتظامات بہتر ضرور کرے لیکن ایسے اقدامات کیے جائیں کہ عوام کے لیے ان پر عملدرآمد آسان ہو۔














