آخری معرکہ

 
0
12325

پاناما کے فیصلے سے قبل بظاہر باخبر،باوثوق اور حکومت مخالف لوگوں کی جانب سے ایک تھیوری پیش کی گی جس کا برملا نہیں تو ڈرائنگ رومز میں شَد ومد سے اظہار کیا جا رہا تھا اور بہت سے ڈگمگاتے سیاستدان اس کو حقیقت مان کر ایک منڈیر سے دوسری منڈیرپر اُڑان بھی بھر گئے چلیں ایک نظر اُسی ڈرائنگ رومی تھیوری پر ہی ڈالتے ہیں نواز شریف کے مخالفوں کا کہناتھا کہ نواز شریف کے نااہل ہوتے ہی ن لیگ کا سیاسی شیرازہ بکھر جائے گاق لیگ کے مردہ گھوڑے میں دوبارہ جان پڑجائے گی جو کبوتر چوہدریوں کی منڈیر سے اُڑ کر جاتی عمرہ دانہ چُگنے جا بیٹھے تھے وہ واپسی پر نونی کبوتروں کا ایک جتھا بھی ہمراہ لائیں گے جبکہ نواز شریف کسی صورت اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسرے پارٹی ممبرکو ملک کا وزیراعظم نہیں بنائیں گے یوں اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں گی عبوری حکومت وقت سے قبل انتخابات کروائے گی جس کا فائدہ تحریک انصاف،ق لیگ اور پیپلزپارٹی کو ہوگا اور یہی تینوں مستقبل میں حکومتیں بنائیں گے۔۔۔اس سوچ کا ایسا پرچار کیا گیا کہ اس تھیوری سے حقیقت کا سا گمان ہونے لگا!حالات کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ تھیوری نہیں پلاننگ تھی ۔۔۔کیسے ذرا غور کیجئے!!
اس سوچ کا پہلا حصہ تو درست ثابت ہوا کہ نواز شریف کو نااہل کردیا گیا مگر نہ تو پارٹی ٹوٹی اور نہ ہی اسمبلیوں کو تحلیل کیا گیا اور تو اور چوہدری نثار جس پر بہت سے لوگوں کو خاصی توقع تھی وہ بھی پوری نہ ہوئیں اور چوہدری نثار نے ببانگ دہل اعلان کردیا کہ وہ کسی آوارہ ٹرین کے مسافر نہیں۔۔۔۔
یوں خواہشی نظریے کے حامیوں اور مفادات حاصل کرنیوالوں کو مایوسی ہوئی جس وجہ سے بہت سے کبوتروں نے اپنی منڈیر چھوڑنے کا فیصلہ موخر کردیااب چونکہ نواز شریف ملکی سیاست میں کوئی قانونی کردار ادا نہیں کرسکتے تو انہوں نے اپنا مقدمہ عوام میں لیجانے کی ٹھانی ۔۔پہلے تونواز شریف نے موٹر وے سے لاہورجانے کا ارادہ کیا اور اس غرض سے مری سے اسلام آباد پہنچے تو صحافیوں اور اتحادیوں سے مشاورت کے بعد لاہور بذریعہ موٹر وے جانے کا اردارہ تبدیل کردیا ۔۔جس کی وجہ چند جذباتی صحافیوں اور مولانا فضل الرحمن کی رائے تھی کہ میاں صاحب عوام سے رابط بڑھائیں اور عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں۔۔۔اس بات سے متاثر ہوکر نواز شریف نے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور جانے کا اعلان کردیا،اب چونکہ جی ٹی روڈ پر اکثریتی ن لیگ کہ ایم این اینز اور ایم پی ایز ہیں ان کو راستے میں استقبال کی ہدایت جاری کردی گئیں۔۔۔ خواہش کو خبر اور پھر تجزیہ بنا کر عوام کا دل جیتنے والوں کو پریشانی لاحق ہوگئی کہ اگر نواز شریف کو جی ٹی روڈ پر بھرپور عوامی پذیرائی مل گئی تو سپریم کورٹ سے سزا یافتہ وزیراعظم کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے گا۔۔۔جو کسی بھی طور قبول نہیں۔۔!
نااہل وزیراعظم کے عوامی لانگ مارچ کو روکنے کے لیے سر دھڑ کی کوششیں کی گئیں،سیکورٹی کا خدشہ ظاہر کیا گیا،تصادم کی افواہ اُڑائی گئی،مگرپھر بھی نواز شریف تو جیسے طے کر بیٹھے ہیں کہ اپنے گھر اپنی مرضی سے جائیں گے۔۔۔۔
اب پلان اے کی ناکامی اور نااہل وزیراعظم کی ضد توڑنے کے لیے اچانک ڈاکٹر طاہر القادری کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا8اگست کو لا ہور میں وارد ہونے والے حضور شیخ صاحب نے چار چھ روز قبل ہی اچانک ملک واپسی کا اعلان کیا تھا،کیونکہ اب اگلہ معرکہ پنجاب میں ہونے والا ہے جس کا بنیادی اور اہم نقط ایک ہی ہوگا کہ جسٹس باقر نجفی کی سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔۔۔جس کے لیے عوامی تحریک تین آپشنز استعمال کرسکتی ہے ،ایک سپریم کورٹ سے رجوع کیاجائے کہ باقر نجفی رپورٹ کو منظر عام پر لانے کا حکم جاری ہوسکے اس حوالے سے سوموار کو خرم نواز گنڈا پور کی بابر اعوان سے مشاورت بھی ہوچکی ہے ،دوسرا آپشن پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنے کا ہے جس میں تحریک انصاف،ق لیگ سمیت دیگر اشاراتی جماعتیں شامل ہوسکتی ہیں،جبکہ تیسرا آپشن پورے لاہور کو بند کرنے کا بھی ہوسکتا ہے !!اس کا فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے گا۔۔۔اس کوشش کے بعد اگر باقر نجفی رپورٹ منظر عام پر آجاتی ہے اور اس رپورٹ میں شہباز شریف اور راناثنائاللہ قصور وار پائے گئے تو ان دونوں کو بھی حق حکمرانی کھونا پڑے گا !نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد پارٹی کو متحد رکھنے میں شہباز شریف کا اہم کردار ہے اسی وجہ سے شہباز شریف کوپنجاب سے مرکز میں لانے کا ارادہ بھی ترک کیا گیا ہے مگر شہباز شریف سے پنجاب کی کمان جانے کی صورت میں ن لیگ میں پھوٹ پڑ سکتی ہے۔۔۔جو کہ اصل میں ہدف آخر ہے۔۔!!!
لیکن عمران خان،ڈاکٹر طاہر القادری،چوہدری برادران اور شیخ رشید کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ن لیگ کو توڑنے اور شریف خاندان کو سیاست میں قصہِ پارینہ بناتے بناتے کہیں جمہوریت کی گاڑی ڈی ریل نہ ہوجائے،اسی لیے نواز شریف کے بولنے اور عوامی لانگ مارچ پر اعتراضات بھی ہیں اور رونا دھونا بھی شروع ہے۔۔۔ہر کارنر،ہر شخص،ہر طریقہ استعمال میں لایا جا چکا مگر نواز شریف ٹلنے کوتیار نہیں۔۔۔تین بار وزارت عظمٰی کا مسند رکھنے والے اور جدہ جانے کے طعنے برداشت کرنیوالے نواز شریف نے سوچ لیا ہے کہ اب سیاست کا آخری معرکہ لڑ ہی لینا چاہیے۔۔
جس عوام نے منتخب کیا وزیراعظم بنایا اس عوام کو بتا ہی دینا چاہیے کہ حکومتیں کیوں نہیں چلا کرتیں؟
کون ہے جو نوبت یہاں تک لے آیا؟کس نے آخری معرکہ لڑنے پر مجبور کیا؟
خدشات میں گِھرے سیاستدانوں کو چاہیے کہ ن لیگ کو نواز شریف کی سربراہی میں آخری معرکہ لڑنے دیں کیونکہ اگر آپ سازش کا حصہ نہیں ۔۔سازشیوں کو جانتے نہیں۔۔جمہور نواز کے ساتھ نہیں۔۔ تو آپ کوخوف کیوں ہے؟ن لیگ کو شوق پورا کر لینے دیں!!سیاست کا آخری معرکہ لڑنے والوں کی نظر۔۔۔کچھ تبدیلی کیساتھ اپنا ہی ایک شعر!!
سیاست کا یہی انجام ہوگا
تم نہ ہوگے تمہارانام ہوگا