شہیدذوالفقار علی بھٹو ایک قوم پرست لیڈر

 
0
496

تحریر: نتاشہ دولتانہ جنرل سیکرٹری پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب

5 جنوری 1928کوذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ سندھ کے بڑے سیاسی خاندان سرشاہنواز بھٹو کے ہاں پیدا ہوئے اور اپنی بے مثال سیاسی جدوجہدکے نتیجے میں تاریخ کے افق پر قائد عوام فخر ایشیا ء کے طور پر جگمگانے لگے۔04 اپریل 1979 ء کو ملک کے آمر حکمران جنرل ضیاء الحق کے دور جبر میں دار پر چڑھا دیئے گئے ۔ 1965 کی جنگ کے خاتمے پر معاہدہ تاشقند کے بعد ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تو دونوں کے راستے جدا ہو گئے ۔ بھٹو کی قیادت میں 30نومبر1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ۔پارٹی کی اساس انہوں نے اسلام ہمارا دین ، سوشلزم ہماری معیشت، جمہوریت ہماری سیاست اور طاقت کا سرچشمہ عوام جیسے بنیادی اصولوں پر رکھی ۔ جس کے ساتھ ساتھ روٹی کپڑا اور مکان کا مقبول عام نعرہ بھی دیا گیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے دور افتادہ علاقوں کے دورے کرکے پسماندہ طبقات کو قومی آزادی کا شعور دیا ۔ آج بھی اسے پانے کی جدوجہد جاری ہے اور تین سال کے قلیل عرصے میں انہوں اسے پاکستان کی مقبول جماعت بنا دیا ۔1970 کے انتخابات میں پارٹی نے تاریخی کامیابی حاصل کی ۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے نامساعد حالات میں اقتدار سنبھالا ۔ مایوسی میں گھری ہوئی قوم کو حوصلہ دیا ۔ بے پناہ مشکلات کے باوجود مملکت کی تعمیر شروع کی ۔ تنکاتنگا جوڑا اور اسے اپنے پائوں پر کھڑاکیا۔بلا شعبہ ذوالفقار علی بھٹو کرشماتی شخصیت اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے اگر انہیں راستے سے نہ ہٹایا جاتا تو ملکی سیاسی منظر نامہ یکسر مختلف ہوتا ۔
عالمی سامراج نے اپنے کارندوں کے ذریعے پاکستان سے مدبر قیادت چھین کر ملک کو آمریت کے طویل اندھیروں میں دھکیل دیا اور اقتدار کی باگ دوڑ چھوٹے قدکے افلاس زدہ ذہنوں کے حصہ میں آگئی جو نہ معاملات کی نوعیت کو سمجھتے تھے اور نہ استعمار کے ارادے ۔نتیجتاً پاکستان ایک ایسی کھائی میں کرتا چلا گیا جو آج دہشت کردی ، بد امنی، بے روزگاری کی شکل میں موجود ہے۔ناعاقبت اندیش اگر ان کی جان نہ لیتے تو وہ افغانستا ن میں روسی مداخلت ، امریکی عزائم و ارادے اور خلیج بحران میں اپنا تاریخی کردار ادار کر رہے ہوتے۔کیونکہ وہ اعلی پائے کی ذہانت کے مالک اور اپنے عہد کی عالمی قیادت سے کم نہ تھے ایک موقع پر ان کا کہنا تھا۔
“عوام کی جدوجہد میرا ایمان ہے میں اس ملک سے سامراج کے پٹھوئوں کو ختم کرنے کی آخری دم تک جدوجہدکرتا رہوں گا ۔دنیا کی امیر قوتوں کا رویہ افسوس ناک ہے اور وہ دنیا کے ترقی پذیر ملکوں کی امداد کے نام پر اپنے سیاسی مفادات پورا کرتی ہیں یہ بھی غریب قوموں کی استحصال کی بدترین مثال ہے ہمیں ایسی اقتصادی امداد کی کوئی ضرورت نہیں جو ہمیں قومی مفادات سے بے خبر کر دے اور ہماری خود مختاری کے لئے چیلنج بن جائے ۔ دنیا امیر و غریب قوموں میں تبدیل ہو چکی ہے اور غربت کے خاتمے کیلئے غریب قوموں کا اتحاد بہت ضروری ہے ۔ہم عوام کو زیادہ دیر انتظار میں نہیں رکھ سکتے ”
18 دسمبر1978 کو عدالت عظمی میں اپنی صفائی کا موقع ملنے پر شہید ذوالفقار علی بھٹونے جوکچھ خطاب میں کہا اس نے ایک تاریخ رقم کی ۔ اس بیان سے آج کے پاکستان کی صورتحال کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
” مجھے آج عدالت میں اس لئے نہیں کھڑا گیا کہ میں ایک شخص کا قاتل ہوں میرا جرم یہ ہے کہ میں ایک عظیم پاکستان کی جدوجہد کر رہا تھا ۔ مجھے کٹہرے میں کھڑا کرنے والے پاکستا ن کو ایک آتش فشاں میں جھونک رہے ہیں ۔ اس مقدمے میں صرف میری زندگی دائو پر نہیں لگائی گئی بلکہ پاکستان کا مستقبل دائو پر لگا دیا گیا ہے”
کیا بھٹو شہید نے 42 سال قبل پاکستان کے آج کے حالات کی واضح تصویر کشی نہیں کر دی تھی؟ کوئی اس کو جھٹلا سکتا ہے ۔یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کا کمال ہے کہ وہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ عوام کے دلوں سے پیپلز پارٹی کی محبت کو کم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہیں ہو گا کہ وقت کے ساتھ ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت میں اضافہ ہو اہے اور ان کے مخالفین کو بھی ان کو کھو دینے کا احساس ہوا ہے کہ آج اگر وہ زندہ ہو تے تو ملک کہاں سے کہاں پہنچ چکا ہوتا۔
آج شہید ذوالفقار علی بھٹوکی 94 ویںسالگرہ منائی جارہی ہے آج کے دن پیپلز پارٹی کے کارکن انہیں خیراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کی سالگرہ جوش و جذبے کے ساتھ منائیں گے اور یہ عہد کریں گے کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹوکے افکار اور نظریات کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری ریاست بنانے کے لئے اپنی اصولی جنگ جاری رکھیں گے ۔