پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورک کیسے کام کرتے ہیں؟

 
0
153
اتوار کو اٹلی کے قریب غیرقانونی تارکین وطن کی ایک کشتی کے حادثے میں تقریباً 60 لوگ موت کا شکار ہو گئے۔ حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 20 پاکستانی بھی تھے جن میں سے 16 کو بچا لیا گیا، جبکہ چار لاپتہ ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ غیرقانونی طور پر یورپ جانے والے پاکستانی اتنی بڑی تعداد میں کسی حادثے کی بھینٹ چڑھے ہوں۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکستان سے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے والے درجنوں پاکستانی سمندری حادثوں، انسانی سمگلروں کے ہاتھوں فائرنگ یا یورپ کے غیرمحفوظ لمبے زمینی اور سمندری سفر کے دوران بھوک اور موسمی حالات کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں جان گنواتے رہے ہیں۔

پاکستان سے انسانی سمگلنگ کے تین روٹس کون سے ہیں؟ 

کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔
آئی او ایم کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں، جن میں سے یورپ جانے کے لیے بلوچستان، ایران اور ترکی کا راستہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس راستے پر پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے تفتان کے علاوہ منڈ بلو اور پشین کے خفیہ راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔