وزیراعظم , عوام بجٹ سے خوش; آئی ایم ایف ناخوش ؟

 
0
54

پاکستانی تاریخ کے بہترین بجٹ سے عوام خوش ہیں جبکہ اتحادی حکومت کے وزیراعظم شہباز شریف مطمئن ہیں۔ لیکن آئی ایم ایف نے آئندہ بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے،وزیراعظم شہباز شریف رواں ماہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے معاہدے کےلیے پرامید ہیں۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی بہت پرامید ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام عملی شکل اختیار کر لے گا۔ آئی ایم ایف کی طرف سے ہمارا 9واں جائزہ تمام شرائط و ضوابط سے مطابقت رکھتا ہے۔ آئی ایم ایف فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے پاکستان تمام اقدامات مکمل کر چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اُمید ہے کہ ہمیں اس ماہ کوئی اچھی خبر ملے گی۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کردی ہیں، اس میں کوئی شک نہیں یہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہترین بیلنس بجٹ ہے۔ اوراس ضمن میں پوری فنانس ٹیم تعریف کے قابل ہے۔ لیکن وزارت خزانہ کے حکام نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس ہدف پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کوششیں ناکافی قرار دی ہیں اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اقدامات بھی ناکافی قرار دینے ہیں۔
خیال رہے کہ اس بجٹ کا اثر آنے والے الیکشن پر بھی پڑے گا کیونکہ اب ہر پاکستانی جان چکا ہے کہ پاکستانی سیاست کے لیے کون بہتر ہے۔ مہنگائی کو مد نظر رکھ کر سرکاری ملازمین کو تنخواہوں اور پنشنرز کو ریلیف دیا گیاہے۔ بجٹ میں بغیر کسی نئے ٹیکس کے زیادہ متوازن بجٹ موجودہ رکاوٹوں کے اندرممکن نہیں تھا۔ اتحادی حکومت نے ان صحیح شعبوں کو ترجیح دی ہے جو اقتصادی ترقی تیز کر سکتے ہیں، ان شعبوں کو بھی ترجیح دی ہےپاکستان کا مستقبل خوبصورت ہے، ہم ہوں یا نہ ہوں یہ ضرور آگے جائے گا، ہمیں پاکستان کو بھنور سے نکالنا ہے۔سستی سیاست کے لیے ملک کو نقصان پہنچایا جارہا ہے، معیشت پر سیاست نہ کی جائے،
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ .آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کی شرائط رکھی جس کو پورا کیا جا رہا ہے لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے بجٹ اسٹریٹجی پیپر میں تاخیر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کی وجہ سے ہوئی، بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر اور ایس ایم ایز پر توجہ دی گئی-آئندہ مالی سال کے لیے 3.5 فیصد شرح نمو حاصل کی جا سکتی ہے- یہ کہنا ہے وزیر خزانہ اسحٰق ڈارکا جنہوں نےقومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بریفنگ دی ان کا کہنا تھا کہ چین سے آج ایک ارب ڈالر آجائیں گے، چین کو جو ہم نے قرض واپس کیا وہ دوبارہ مل رہا ہے، چین کے ساتھ اس معاملے پر بات چیت مکمل ہوچکی ہے- خیال رہے کہ پوسٹ بجٹ پریس بریفینگ میں آئی ایم ایف کے حوالے سے وزیر خزانہ نے راقم الحروف کے سوال پر” کیا عوام کی طرح آئی ایم بجٹ سے خوش ھے? آئی ایم ایف کی تقریبا ساری شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں? .جس پر وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ” آئی ایم ایف بجٹ سے خوش نہ ہوتا تو مجھے فون آ جاتا”وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرا کر وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ” اگر میڈیم کو فون آیا تو علم نہیں.” وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ابھی 30 جون تک آئی ایم ایف کی بات رہنے دیں ,خیال رہے کہ 6.7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا وقت 30 جون کو ختم ہو رہا ہے، اس سے قبل پاکستان کو 2 قسطوں کی مد میں تقریباً 2.2 ارب ڈالر حاصل کرنا ہیں، آئی ایم ایف نے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں کیے گئے اقدامات پر سوالات اٹھائے ہیں جبکہ ریٹنگ ایجنسیز نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر قائل کرنے کے لیے وقت ختم ہورہا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ اسٹریٹجی پیپر میں تاخیر آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں تاخیر کی وجہ سے ہوئی، بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر اور ایس ایم ایز پر توجہ دی گئی.وزیر خزانہ نے کہا کہ اس سال اوسط مہنگائی 29 فیصد ہے، سرکاری ملازمین سب سے زیادہ پسا ہوا طبقہ ہے، بجٹ میں پنشنرز کو بھی مہنگائی کے تناسب سے دیکھا گیا- آئندہ مالی سال کے لیے ایف بی آر کا ٹیکس ہدف سائنسی بنیادوں پر رکھا گیا ہے، ایف بی آر کا نئے مالی سال کا ہدف غیر حقیقی نہیں ہے-اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ مہنگائی اور شرح نمو کے حساب سے ٹیکس کا ٹارگٹ رکھا جاتا ہے، بجٹ میں 223 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کیے گئے- موجودہ ٹیکس دہندگان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس اکھٹا کرکے ہدف پورا کریں گے-کراچی پورٹ پر کھڑے کنٹینرز کی کلیئرنس میں تاخیر پر چئیرمین ایف بی آر سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔یوریا کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، ڈالرز کی اسمگلنگ بھی اب شروع ہوچکی، افغانستان میں حکومت تبدیلی سے ڈالرز میں کمی ہوئی جس سے پاکستان سے ڈالر اسمگل ہوا-ڈالرز کی اسمگلنگ ابھی تک رکی نہیں بلکہ ڈالرز کی اسمگلنگ میں کمی ہوئی ہے، 20 لاکھ ڈالرز کی اسمگلنگ اور 5 ارب روپے کی اسمگل شدہ چینی پکڑی ہے-نان فائلر پر 0.6فیصد ودہولڈنگ ٹیکس معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے لگایا گیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈارکا کہنا ہے کہ ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، لوگ اس طرح کی باتوں پر توجہ نہ دیں اور میں ثابت کرسکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا۔انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے 70 ارب ڈالر کے نقصان کا کون ذمہ دار ہے؟ پاکستان اس گمبھیر صورتحال میں کیسے پہنچا؟ جب میں نے آخری بار اپنا عہدہ چھوڑا تو گلوبل اتھارٹی کے مطابق پاکستان 2030 میں دنیا کی 18ویں معیشت بننے جارہا تھا۔ آج ہم ایک ایک ارب ڈالر کے لیے بھاگ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ماضی میں جو غلطیاں کی ہیں انہیں دوبارہ نہ دہرایا جائے جس کی وجہ سے پاکستان اس نہج پر پہنچ چکا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں ہمیشہ یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل شاندار ہے لیکن ہمیں اس کے لیے ایک ساتھ کام کرنا چاہیے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ملک کو ایسی جگہ لاکھڑا کیا ہے جس کا یہ ملک مستحق نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ روز سنتے ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا، میں کہتا ہوں کہ ڈیفالٹ کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے، لوگ اس طرح کی باتوں پر توجہ نہ دیں، میں ثابت کرسکتا ہوں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا، ہم کوشش کر رہے ہیں، حالات بہت سخت ہیں لیکن یہ حکومت کی ٖغلطی نہیں بلکہ نظام خراب ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مجموعی قرضے جی ڈی پی کے 72 فیصد ہیں، جب میں نے پاکستان چھوڑا تو یہ 62 فیصد تھے، آج امریکا کے قرضے 110 فیصد ہے، جاپان کے 298 فیصد، برطانیہ کے 101 فیصد ہیں،کئی ممالک کے قرضے ان کی جی ڈی پی سے زیادہ ہیں وہ تو ڈیفالٹ نہیں کر رہے، ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک نیچے چلا جاتا ہے،ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا چاہیے، ملک بہتری کی جانب گامزن ہے، یہ ملک رہنے کے لیے بنا ہے ورنہ میں چوتھی بار پاکستان کا وزیر خزانہ کبھی نہ بنتا۔انہوں نے کہا کہ میں نے جب عہدہ سنبھالا تو فیصلہ کیا کہ پیرس کلب نہیں جائیں گے، ہم نے بانڈز وقت پر ادا کیے، اکتوبر میں واشنگٹن کا دورہ کیا تو کئی لوگوں نے مجھے سراہا کہ میں نے پاکستان کے لیے بہت اچھے فیصلے کیے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کو طویل مدتی فائدہ ہوگا۔سینیٹر اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ سنہ 2014 میں بولا جارہا تھا کہ یہ ملک ڈیفالٹ کرے گا لیکن ہمارے دور کے تین سالوں میں ملک دنیا کی اٹھارویں معیشت بننے جارہا تھا، اب حالات ایسے ہیں تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ پانچ سال پہلے ہم کہاں تھے اور آج کہاں ہیں۔وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ آج بھی سیاست ہو رہی ہے کہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا، پاکستان کی اپنی خامیاں اور کمزویاں ہیں جس کی وجہ سے ملک نیچے چلا جارہا ہے،لیکن اسے بحال کرنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ معیشت پر جو تجربے ہوئے اس کا جوابداہ میں نہیں ہوں، ڈالر کی ہمسایہ ملک کو اسمگلنگ ایک بڑا مسئلہ ہے، ہمیں ڈالر، گندم اور کھاد کی اسمگلنگ کو روکنا ہے، اگلے 6 سے 7 سال میں پاکستان کو 35 ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف مسلم لیگ (ن) نے 2013 میں آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا تھا، یہاں تک کہ ڈیکٹیٹر بھی آئی ایم ایف کا پروگرام پورا نہیں کرسکے، ہم اس بار بھی آئی ایم ایف کا پروگرام دوسری بار مکمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے، کوشش ہے کہ اگر ہم عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے تو عوام پر بوجھ بھی نہ ڈالیں۔ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ جو لوگ ہر روز ڈیفالٹ کا رونا رو رہے ہیں وہ کس کے لیے کام کر رہے ہیں، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا بلکہ تمام شعبوں پر کام ہو رہا ہے اور صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔یاد رہے کہ وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔سینیٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ آئی ایم ایف نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس ہدف پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے ایف بی آر ٹیکس وصولیوں کی کوششیں ناکافی قرار دی ہیں اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے اقدامات بھی ناکافی قرار دیے ہیں۔وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے بتایا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس وصولی کے ہدف کو ناکافی اور پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے بتایا کہ عالمی مالیاتی فنڈ نے پٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے بڑھاکر 60 روپے کرنے کا مطالبہ کیا ہے. آئی ایم ایف نے 9 جائزہ مکمل کرنے کیلئے لیوی بڑھانے کی شرط عائد کی ہے، پٹرولیم مصنوعات پر لیوی نہ بڑھانے پر آئی ایم ایف تاحال مطمئن نہیں ،آئی ایم ایف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر عدم اطمینان ، ایف بی آر ٹیکس ہدف پر تحفظات کا اظہار کیا ہے آئی ایم ایف نے ایف بی آر ٹیکس وصولی کی کوششیں ناکافی، ٹیکس نیٹ میں اضافے کے اقدامات بھی ناکافی قرار دیئے ہیں، آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس وصولیاں بڑھانے کے اقدامات کرنے کا کہا ہے۔ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 9200 ارب مقرر کیا گیا ہے آئی ایم ایف نے 869 ارب کی لیوی جمع کرانے کیلئے لیوی کا ریٹ بڑھانے کا مطالبہ کیا، وزارت خزانہ کے جوائنٹ سیکریٹری بجٹ نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی ایم ایف بجٹ کے اعداد وشمار سے مطمئن نہیں ہے، اس لیے آئندہ مالی سال کےلیے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف 869ارب روپے مقرر کیا گیا ہے جو کہ رواں مالی سال نظر ثانی شدہ ہدف 542ارب روپے ہے، ارکان کمیٹی نے فنانس بل میں دی گئی اس ترمیم کی مخالفت کی کہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر حکومت کو پیٹرولیم لیوی میں اضافے یا کمی کے اختیارات حاصل ہو جائیں . کمیٹی نے نان فائلرز کےلیے بنکوں کی 50ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزکشن پر 0.6فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز بھی مسترد کر تے ہوئے سفارش کی کہ نان فائلر کے لیے 25ہزار روپے کی ٹرانزکشن پر ایک فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جائے، کمیٹی نے سپرٹیکس کی شرح میں بھی کمی کی سفارش کر دی ہے پاکستان میں انٹرنیشنل مانیٹرنگ فنڈ (آئی ایم ایف) کی نمائندہ ایسٹر پریز کا کہنا ہے کہ بجٹ تجاویز میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پرو گرام کیلئے وسائل کو کم کیا گیا، جبکہ نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو قرض پروگرام کی شرائط کے منافی قرار دیدیا۔ آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پریز کا کہنا ہے کہ نئی ایمنسٹی ایک نقصان دہ نظیر پیدا کرتی ہے، ٹیکس اخراجات میں ایمنسٹی پروگرام کی شرائط حکمرانی کے ایجنڈے کے خلاف ہے۔ انہوں نے توانائی شعبے پر مالی دباؤ میں کمی کیلئے اقدامات پر زور دیا اور بجٹ کی منظوری سے پہلے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی پیشکش کی۔ یاد رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 12 جون کو 14460 ارب روپے کا بجٹ 6924 ارب روپے خسارے کے ساتھ پیش کیا تھاجس میں 7303ارب روپے صرف قرضوں اور سود کی مد میں ادا کئے جائیں گے جبکہ دفاع کیلئے 1804ارب روپے اور PSDP کیلئے 950ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مالی گنجائش نہ ہونے کے باوجود انتخابات کے مدنظر وزیر خزانہ نے اتحادی حکومت کی جانب سے ایک انتخابی بجٹ پیش کیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ریکارڈ 30سے 35فیصد، پنشن میں 17.5فیصد اور دیگر الائونسز میں اضافے کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ نجی شعبے کے ملازمین کی کم از کم اجرت 32000 روپے کردی گئی ہے۔ بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر، نوجوانوں اور اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی گئی ہیں اور آئی ٹی ایکسپورٹ کا ہدف 2.5 ارب ڈالر سے بڑھاکر 4.5رب ڈالر رکھا گیا ہے۔ سولر پینل پر ڈیوٹی میں کمی شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں مدد دیگی۔ حکومت کو زراعت، صنعت اور تعمیراتی شعبوں کی اہمیت کا احساس ہوا ہے اور بجٹ میں ان شعبوں کے فروغ کیلئے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جو خوش آئند ہے۔بجٹ سے ایک دن پہلے اکنامک سروے رپورٹ جاری کی گئی جس میں حکومت اہم معاشی اہداف پورا کرنے میں ناکام رہی۔ بجٹ کے حجم میں 34ارب ڈالر کی کمی رہی جو گزشتہ سال کے 371ارب ڈالر سے کم ہوکر 341ارب ڈالر رہ گیا۔ سود کی ادائیگیوں کا دبائو بڑھ کر GDP کے 67فیصد تک پہنچ گیا ہے اور وفاق کو صوبوں کو فنڈز کی ادائیگی کے بعد سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینا پڑیں گے۔ اس سال GDP گروتھ گزشتہ سال کے 6.1فیصد سے کم ہوکر صرف 0.29 فیصد رہ گئی ہے۔ معیشت کے تینوں شعبوں زراعت، صنعت اور سروس سیکٹر کی کارکردگی گزشتہ سال کے مقابلے میں مایوس کن رہی اور کوئی شعبہ اپنا ہدف حاصل نہیں کرسکا۔ فی کس آمدنی میں بھی 11فیصد کمی ہوئی جو 1765ڈالر سے کم ہو کر 1568 ڈالر رہ گئی ہے۔ افراط زر یعنی مہنگائی بڑھ کر ریکارڈ 29.2 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال 11.3فیصد تھی۔ امپورٹس کم ہوکر 51.2ارب ڈالر ہوگئی ہیں جو گزشتہ سال 72.3ارب ڈالر تھیں جبکہ ایکسپورٹس 12فیصدگرکر 25ارب ڈالرہوگئی ہیں۔ ترسیلات زر بھی گزشتہ سال کے 31ارب ڈالر سے گر کر 20.5ارب ڈالر پر آگئی ہیں جس کی وجہ ڈالر کا اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ایکسچینج ریٹ میں بڑا فرق ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں بھی 23فیصد کمی ہوئی ہے جو گزشتہ سال کے 2.6ارب ڈالر سے کم ہوکر 1.86ارب ڈالر پر آگئی ہیں۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہوکر 3.4ارب ڈالر رہ گیا ہے جو GDP کا 4.6 فیصد بنتا ہے جبکہ گزشتہ سال یہ 13.7 ارب ڈالر تھا۔ نجی شعبے کے قرضوں (ورکنگ کیپٹل)میں کمی آئی ہے جو جولائی سے اپریل کے دوران 576 ارب روپے سے کم ہوکر صرف 158 ارب روپے رہ گئے ہیں۔ ملکی GDP میں ٹیکس کی شرح گزشتہ سال کے 9.8فیصد سے کم ہوکر 9.2 فیصد رہ گئی ہے حالانکہ اس سال FBR نے 7لاکھ ہدف کے مقابلے میں 9 لاکھ نئے ٹیکس دہندگان رجسٹرڈ کئے ہیں اور امپورٹ پابندیوں کے باوجود ریونیو وصولی میں 16.1فیصد گروتھ حاصل کی جبکہ آئندہ مالی سال ریونیو کا ہدف 9200ارب روپے رکھا گیا ہے۔ IMF نے بجٹ کے اہداف پر گہری نگاہ رکھی ہوئی ہے اور IMF کا انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ایکسچینج ریٹ میں فرق کو کم کرنے کا دبائو ہے۔IMF کےمطالبے پر حکومت نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی، سیلز ٹیکس اور دیگر اضافی ٹیکسز کی مد میں 170ارب روپے کا جو منی بجٹ پیش کیا تھا، IMF اِسے قومی بجٹ میں ضم کرکے فنانس بل کی شکل میں پارلیمنٹ سے منظور کروانا چاہتی ہے تاکہ یہ ٹیکسز مستقل بنیاد پر لگے رہیں۔دنیا میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز غیر مقبول ہونے کی وجہ سے ختم کئے جارہے ہیں جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسز کو فروغ دیا جارہا ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس ٹیکسوں کی وصولی میں ان ڈائریکٹ ٹیکسز 60فیصد (5441 ارب روپے) اور ڈائریکٹ ٹیکسز 40فیصد (3759ارب روپے) ہیں۔ کئی دہائیوں سے خسارے میں چلنے والے ادارے قومی خزانے پر بوجھ ہیں جن میں عوام کے 500ارب روپے سالانہ جھونکے جارہے ہیں۔ حالیہ بجٹ میں خسارے میں چلنے والے ان اداروں کی نجکاری یا تنظیم نو کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ملک میں معاشی تنزلی کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔