اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر، ’افغانستان نے کمٹمنٹ پوری نہیں کی

 
0
111

پاکستان گذشتہ طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا تو کر ہی رہا ہے لیکن حالیہ چند ماہ سےدہشت گردانہ کاروایوں میں تیزی آگئی ہے
عالمی برادری نے ایک بار پھر پاکستانی مطالبے کی حمایت کرتےافغانستان سے ’دہشت گردی کا مرکز‘ نہ بننے کا مطالبہ دہرایا ہے خیال رہے کہ پاکستان نے بارہا سرحد پار دہشت گردی کے لیے عسکریت پسندوں کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے، حال ہی میں ایک بیان میں پاکستان کی فوج نے عسکریت پسندی میں اضافے پر افغانستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ محفوظ پناہ گاہیں اور کارروائی کی آزادی کے ساتھ ساتھ افغانستان سے عسکریت پسندوں کو دستیاب جدید ترین ہتھیاروں نے انہیں پاکستان کے اندر حملے کرنے کے قابل بنایا۔
پاک فوج نے کہا تھا کہ توقع ہے کہ افغان حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور دوحہ معاہدے کی پاسداری کرے گی ۔ سینئر پاکستانی صحافی اصغر علی مبارک کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق روس کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق علاقائی سلامتی کے اجلاس میں پاکستانی موقف کو سراہتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ افغانستان میں موجود ہر قسم کے دہشت گرد گروپس ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور اقدامات سے یقینی بنائے کہ ان کی سرزمین دہشت گردی کے مرکز کے طور پر استعمال نہ ہو۔ یہ بہت اہم ہے کہ جس دن جمعے کوروس میں اجلاس جاری تھا۔ بلوچستان کے ضلع مستونگ اور خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں ہونے والے خود کش حملوں میں 63 افراد ہلاک جبکہ 100 سے زائد زخمی ہو گئے ۔
افغانستان سے متعلق علاقائی سلامتی کے اجلاس میں چین اور بھارت سمیت خطے کے دیگر ممالک نے شرکت کی ۔سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکیہ کے نمائندوں نے بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
افغانستان سے سیکیورٹی اقدامات میں اضافے کا مطالبہ افغانستان سے متعلق پانچویں ماسکو فارمیٹ کنسلٹیشن کے دوران ہواہے،جس میں چین اور بھارت کے علاوہ پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، روس، ترکمانستان اور ازبکستان کے اعلیٰ عہدیداروں شریک تھے۔ شرکا نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی فلاح و بہبود، ان کی مزید نقل مکانی روکنے اور مہاجرین کی واپسی کے لیے درکار اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکا نے افغانستان میں بنیادی طور پر دہشت گرد گروپس بالخصوص داعش کی کارروائیوں کی وجہ سے سیکیورٹی کی گھمبیر ہوتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ شریک ممالک نے افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں موجود ہر قسم کے دہشت گرد گروپس ختم کرنے، ان کو روکنے، ملک کو دہشت گردی، عدم استحکام کا گڑھ بننے اور ان عناصر کا علاقائی ریاستوں تک پھیلاؤ روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ انہوں نے صنعتی منشیات کی پیداوار سمیت مؤثر انسداد منشیات پالیسی جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
شرکا نے موجودہ افغان حکام پر زور دیا کہ وہ افغان سرزمین سے پیدا ہونے والی دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ اپنا تعاون مضبوط کریں۔ شرکا نے افغانستان میں بیرونی عناصر کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت کی پرزور مخالفت کی۔ دوسری طرف امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے کالعدم تحریک طالبان کی دہشت گرد کارروائیوں کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کی تائید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک پیج پر ہیں۔ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے ایک سیمینار سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان خطے کے امن کیلئے شدید ترین خطرہ ہے ، ٹی ٹی پی کی جانب سے افغان سرزمین کواستعمال کرکے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ افغان طالبان اورٹی ٹی پی آپریشنل اورمالی معاونت میں ایک پیج پرہیں، افغان طالبان ٹی ٹی پی کولاجسٹک سپورٹ بھی فراہم کرتے آئے ہیں , واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس پر خودکش دھماکے میں پولیس افسر سمیت 53 افراد جاں بحق اور درجنوں شہری زخمی ہوگئے ۔جبکہ سیکورٹی فورسز نے بلوچستان کے علاقے ژوب میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں کی افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 3 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے 4 جوان شہید ہوگئے۔


پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 28 ستمبر کی شام پونے 6 بجے ضلع ژوب کے علاقہ سمبازہ میں پیش آیا۔ پاک-افغان سرحد کے قریب دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ میں بہادری سے لڑتے ہوئے 4 جوان شہید ہو گئے۔ شہدا میں حوالدار ستار، لانس نائیک شیر اعظم، لانس نائیک عدنان اور سپاہی ندیم شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ فائرنگ کے شدید تبادلے میں 3 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ متعدد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل 26 ستمبر کو خیبرپختونخوا میں ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا تھا جس کے نتیجے میں دہشت گرد کمانڈر کفایت عرف تور عدنان سمیت 3 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ آئی ایس پی آر نے بیان میں کہا تھا کہ ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن کیا گیا اور اس دوران سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ بیان میں بتایا گیا تھا کہ فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دہشت گرد کمانڈر کفایت عرف تور عدنان سمیت 3 دہشت گرد مارے گئے، ہلاک ہونے والے دہشت گرد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں سرگرم تھے اور ساتھ ہی معصوم شہریوں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔ قبل ازیں 23 ستمبر کو شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے انٹیلی جنس آپریشن کیا تھا تاہم فائرنگ کے تبادلے میں اہلکار شہید ہو گیا تھا۔ 21 ستمبر کو سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے دو اضلاع میں خفیہ اطلاع کی بنیاد پر کارروائیوں کے دوران 8 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا تھا۔ سیکیورٹی فورسز نے پہلی کارروائی ضلع بنوں کے علاقےجانی خیل میں کی جہاں اہلکاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں 6 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے دوسری کارروائی ضلع شمالی وزیرستان کے شہری علاقے دتہ خیل میں کی تھی اور اس دوران 2 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔ 20 ستمبر کو خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے کولاچی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک اور دوسرا زخمی ہوگیا تھا۔ اس سے قبل 15 ستمبر کو بلوچستان میں کوئٹہ کے قریب والی تنگی میں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جہاں 3 دہشت گرد ہلاک جبکہ پاک فوج کا ایک جوان شہید ہوگیا تھا۔دریں اثناء ہنگو دوبہ تھانے کی مسجد میں خودکش دھماکے کی ابتدائی رپورٹ تیار کرلی گئی۔ رپورٹ کے مطابق 2 خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہنچے تھے، پولیس کے بر وقت رسپانس سے ایک خودکش حملہ آور مسجد کے باہر ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس اور حملہ اوروں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے وقت نمازی مسجد سے نکلے، فائرنگ کےدوران دوسرا خودکش حملہ آور مسجد میں داخل ہوا۔
نمازیوں کے وقت پر مسجد سے نکلنے کی وجہ سے نقصان کم ہوا، حملہ آور کہاں سے آئے، پولیس کی تحقیقات ہر پہلو سے جاری ہے۔ دہشت گردوں کی فائرنگ سے 2 پولیس اہل کار بھی زخمی ہوئے، عینی شاہدین کے مطابق مسجد کے اندر 30 کے قریب لوگ موجود تھے۔ دہشت گرد کو گیٹ پر روکنے والے اہلکار نے بڑی ہلاکتوں سے بچا لیا، اگر حملہ آوروں کو بروقت نہ روکا جاتا تو جانی نقصان کا اندیشہ زیادہ تھا، فائرنگ کی آواز سن کر نمازی چوکنے ہوئے اور خود کو محفوظ کرلیا قبل ازیں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے دوآبہ خودکش حملے کی جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔ لیفٹیننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے بڑے حادثے سے بچانے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو سراہا۔ انہوں نے سی ایم ایچ ٹل کا بھی دورہ کیا اور زخمیوں سے ملاقات کرکے ان کی خیریت دریافت کی۔ کور کمانڈر پشاور نے کہا کہ دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ انہوں نے زخمیوں کے علاج کو یقینی بنانے کے احکامات بھی جاری کیے۔اس کے دو دن بعد اتوار کو صوبہ پنجاب کے خیبرپختونخوا سے متصل ضلع میانوالی میں پولیس کی ایک پیٹرولنگ پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار کی جان چلی گئی جبکہ دو حملہ آور مارے گئے۔اس سے قبل رواں ماہ کے اوائل میں مستونگ میں ہونے والے دھماکے میں جے یو آئی (ف) کے سینئر رہنما حافظ حمداللہ سمیت 11 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ جبکہ اس سے ایک ہفتہ قبل ایک لیویز اہلکار کو ایک بس اسٹینڈ پر نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا جب کہ وہاں سے گزرنے والے دو افراد زخمی بھی ہو ئے تھے۔
رواں سال مئی مستونگ میں پولیو ٹیم پر حملے کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل شہید ہو گیا تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں مستونگ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 5 زخمی ہوگئے تھے۔ جولائی 2018 میں اسی ضلع میں خوفناک خودکش دھماکے میں سیاستدان نوابزادہ سراج رئیسانی سمیت کم از کم 128 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔خیال رہے کہ وزیر داخلہ نےکہا ہے کہ” جو مرضی ہو، داعش، کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی یا کوئی اور” کسی بھی نام پردہشت گردی کر رہا ہے ہم ان کے پیچھے جائیں گے” ۔ان کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کا جو واقعہ ہوا ہے، ہم نے اس کے ماسٹر مائنڈ کو مارا ہے، جو لوگ سہولت کاری کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو بھی کر رہا ہے، وہ کوئی بھی ہو، آپ اس کو جو بھی نام دے دیں، ہمارے لیے سب ایک ہی ہیں، سب کی نانی ایک ہے، سب کو ایک جگہ سے ہینڈل کیا جارہا ہے، اس سے پہلے جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں، ان سب کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ہے۔ جو قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتی ہیں، ہم ان کے خلاف جائیں گے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہم اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے ایک جامع معائنہ کریں گے،ان کا کہنا تھا کہ ریاست نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ زیرو ٹالرنس ہوگی، ہمارے یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف ایک مخصوص سطح تک پہنچتے ہیں، چاہے وہ قوم پرستی کے نام پر دہشت گردی ہے، چاہے وہ مذہب کے نام پر ہے، تو اچانک سے ہماری ریاست نرمی کی پالیسی پر آجاتی ہے، اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب یہ نہیں ہوگا، ہم آخری دہشت گرد تک جائیں گے، ان شا اللہ تعالیٰ ان کا قلع قمع کریں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے آج کوئٹہ کا دورہ کیا، جہاں انہیں مستونگ اور ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی
آئی ایس پی آر کے مطابق بریفنگ میں وفاقی وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور اہم صوبائی وزراء کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے بھی شرکت کی۔ شرکاء نے مستونگ، ہنگو اور ژوب کے شہداء کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف نے شہدا کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور ریمارکس دیئے کہ “12 ربیع الاول کو ہونے والے دہشت گردی کے اس طرح کے واقعات خوارج کے مذموم عزائم کو ظاہر کرتے ہیں، جنہیں دہشت گردی کے ریاستی سرپرستوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ یہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار جن کا مذہب اور نظریے سے کوئی تعلق نہیں، وہ پاکستان اور اس کے عوام کے دشمنوں کے پراکسی ہیں۔ بدی کی یہ طاقتیں ریاست اور سیکورٹی فورسز کی بھرپور طاقت کا سامنا کرتی رہیں گی جن کی حمایت ایک مضبوط قوم ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف ہمارا آپریشن بلا روک ٹوک جاری رہے گا اور مسلح افواج، انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا۔
جنرل سید عاصم منیرنے زور دیا کہ “پاکستان کے لوگوں نے دہشت گردوں کے سیڈو نظریے اور ان کے پشت پناہوں کے پروپیگنڈے کو مسترد کر دیا ہے اور وہ امن، معاشی ترقی اور انسانی ترقی کے لیے پوری طرح پرعزم ہیں جس کی وجہ سے پاکستان کے اندر اور باہر شر پسند قوتوں کو بہت زیادہ تکلیف پہنچ رہی ہے”۔
آرمی چیف نے سی ایم ایچ کوئٹہ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے مستونگ واقعے کے زخمیوں اور اہل خانہ سے ملاقات کی جنہیں پاک فوج کی جانب سے مکمل طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔ انہوں نے بلوچستان پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی بہادری اور لچک کو بھی سراہا۔ انہوں نے شہدا کے اہل خانہ کو مکمل تعاون اور حمایت کا یقین دلایا اور انہیں یقین دلایا کہ دہشت گردوں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو بخشا نہیں جائے گا۔خیال رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اپنے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا کہ ستمبر کے مہینے میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 106 حملے کیے۔ ان میں 100 حملے صوبہ خیبرپختونخوا کے اضلاع میں ہوئے جبکہ چار بلوچستان میں ہوئے۔
خیال رہے کہ کچھ بیرونی قوتیں پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس لیے وہ پاکستان مخالف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان ,ٹی ٹی پی کے لوگ ملوث ہیں۔افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکلتے ہوئے جان بوجھ کر اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے پیچھے انڈیا اور کچھ اور ممالک کا بھی ہاتھ ہے۔ وہ سی پیک کی تکمیل کو کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ بن گیا تو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا جمپ ثابت ہو گا۔ اس وقت چین کو مڈل ایسٹ اور دیگر منڈیوں تک سمندر کے راستے پہنچنے میں 90 دن لگتے ہیں۔ اگر سی پیک بن گیا تو یہ سفر کاشغر کے راستے صرف آٹھ دن میں طے ہو گا۔ ظاہر ہے اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ افغانستان بارڈر پر ہماری توجہ بہت زیادہ نہیں ہے اسے لیے وہاں ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔
ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے جو اب پاکستان پر اس علاقے سے دباؤ ڈال رہا ہے۔ افغانستان سے متصل پاکستان کے کافی علاقے پر ان کا اثر رسوخ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید انہیں وہاں حاصل مقامی حمایت ہے یا پھر مقامی افراد حکومت کی مکمل رٹ نہ ہونے کے باعث ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ وہ خوف کا شکار ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بارڈر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں بہت کچھ چل رہا ہے۔ افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔ وہاں کے لوگوں کو تعلیم ، صحت اور دیگر سہولیات دینا ضروری تھا, انہیں سولائیزڈ سچویشن میں داخل کرنا چاہیے تھا لیکن حکومتیں انہیں آج تک ایسے ہی ٹریٹ کرتی رہی ہیں جیسے ماضی میں انگریز حکمران کیا کرتے تھے۔ فاٹا کے علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام تو ہوا تو لیکن بات کتابی انضمام سے آگے نہیں بڑھی۔ ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے دہشت گردی کا سلسلہ نہ رکا تو الیکشن کچھ علاقوں میں متاثر ہو گا۔ لیکن یہ کہنا کہ الیکشن ہی نہیں ہو گا، یہ درست نہیں ,افغان باشندوں کی نگرانی کی ضرورت ہے پاکستان میں 30 سے 40 لاکھ افغان باشندے موجود ہیں جن پر چیک کی ضرورت ہے۔اگر دہشت گردوں کی جانب سے حملے اسی طرح جاری رہے تو الیکشن کیسے ہوں گے۔ عوامی نمائندے جنہیں الیکشن مہم پر نکلنا ہوتا ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکہ کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انہیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان کا افغان طالبان سے یہی مطالبہ رہاہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انہوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی۔
ملک کے مختلف حصوں میں ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں لیکن اس میں عوام کا تعاون بہت اہم ہے۔ جب کسی علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر وہاں فورسز پہنچیں تو عوام کو ان کی مزاحمت کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں تو نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ماضی میں اس وقت کی معیشت پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کا اثر پڑا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو معیشت بہرصورت متاثر ہو گی,
دہشت گردی کے جڑوں کے خاتمے پر کام نہیں ہوا دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں پاکستان میں واپس آنا ہے یہاں ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں کارروائیاں تو ہوئیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنے کے لیے کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائی گئی۔ کبھی ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو کبھی ان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ان گروہوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ آپ کے پاس ان کے پاس مفاہمت کا آپشن موجود ہے۔اس لیے ہمیں اس پالیسی کو بدلنا اور اس کے بارے میں سوچنا چاہیے۔