نومنتخب صدر آصف علی زرداری نے اپنی دوسری مدت کے لیے ملک کے چودہویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہےسات دہائیوں میں مجموعی طور پر 14 صدر مملکت آئے ہیں جن میں سے 5 فوجی جبکہ 9 سویلین صدر تھے۔رصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پاکستان کو اپنے سیاسی نظام کا ڈھانچہ 1935 کے ’انڈیا ایکٹ‘ کے تحت بنانا پڑا اور اسی ایکٹ کے تحت ہندوستان کے آخری وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے مسلم لیگ کے سربراہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل اپنے عہدے کا حلف لیا۔قائد اعظم چاہتے تھے کہ اس منصب سے پاکستان کو ایک ایسا مضبوط جمہوری ڈھانچہ فراہم کیا جائے کہ جس سے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنایا جاسکے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ قائد اعظم کی وفات کے بعد یہ عہدہ طاقت کی ایک کرسی بن گیا جس کے گرد میوزیکل چیئر کا کھیل شروع ہوگیا۔ 1956 میں پاکستان کا پہلا آئین منظور ہونے کے بعد گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا اور صدر کا عہدہ تخلیق کیا گیا جس کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہونا تھا پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا تھے جو لگ بھگ 2 سال 7 ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل وہ پاکستان کے آخری گورنر جنرل بھی رہ چکے تھے۔ 1956 میں ملک کے پہلے آئین کے وجود میں آنے کے صرف دو سال بعد ہی اسکندر مرزا نے اس آئین کو معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا اور جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا۔ 27 اکتوبر 1958 کو ایوب خان کی قیادت میں ہونے والی کامیاب فوجی بغاوت میں انہیں اس عہدے ہٹا دیا گیا۔فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ہری پور میں پیدا ہوئے اور پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں بنے جنہوں نے اسکندر مرزا کو برطرف کر کے اقتدار سنبھالا اور تقریباً ساڑھے 10 سال صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے 1960 میں ایک صدارتی ریفرنڈم کرایا اور پھر 1964 کے انتخاب میں تمام جماعتوں کے طرف سے فاطمہ جناح کی حمایت اور عوامی مقبولیت کے باوجود کامیابی حاصل کی، جنرل ایوب 1969 میں اپوزیشن کے دباؤ پر حکومت سے دستبردار ہوئے لیکن اپنے دور میں ہی بنائے گئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار عوامی نمائندوں کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کردیا 1971 میں بھارت سے جنگ میں بدترین شکست اور ملک کے دولخت ہونے پر رائے عامہ یحییٰ خان کے اس قدر غیر موافق ہوگئی کہ ان کا مزید اپنے عہدے پر برقرار رہنا ناممکن ہو گیا۔ چنانچہ انہوں نے 20 دسمبر 1971 کو عنان اقتدار مغربی پاکستان کی مقبول جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو کے حوالے کردی۔ذوالفقار علی بھٹو پہلے جنرل ایوب کی کابینہ میں وزیر خارجہ اور پھر ان کے خلاف عوامی تحریک کے بانیوں میں سے تھے اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد ملک کے پہلے صدر اور سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے۔1973 کے آئین میں پہلی مرتبہ ملک میں پارلیمنٹ کو ایوان بالا یعنی سینیٹ اور ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں تقسیم کیا گیا، ملک کے تیسرے آئین میں پارلیمنٹ کو اختیار دیا گیا کہ وہ حکومت کا سربراہ، وزیراعظم کو مقرر کرے نئے آئین میں بھی گزشتہ برسوں میں پیش کیے گئے 2 آئینی مسودوں کی طرح بنیادی حقوق، آزادی اظہار رائے جبکہ اضافی طور پر مذہب، پریس، تحریکوں، ایسوسی ایشن کی آزادی، زندہ رہنے اور اسلحہ رکھنے کی اجازت کے ساتھ ساتھ دیگر آزادیاں دی گئیں، آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب اور ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا۔ آئین کی نمایاں خصوصیات میں پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت اور وزیراعظم کو ملک کا سربراہ قرار دیا جانا، صدر اور وزیراعظم کا لازمی طور پر مسلمان ہونا، آئین میں ترمیم کے لیے ایوان زیریں میں دو تہائی اور ایوان بالا میں بھاری اکثریت ہونا لازمی قرار دینا، اردو کو پاکستان کی قومی زبان، عدلیہ کی آزادی کی ضمانت، عصمت فروشی سمیت دیگر غیر اخلاقی معاملات پر پابندی اور عربی زبان کو فروغ دینا وغیرہ شامل ہیں۔5 جولائی 1977 کو مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد ضیاالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو عہدے سے ہٹا کر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا۔ 18 مارچ 1977 کو انہیں اس قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی اور 4 اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ فضل الہٰی چوہدری 1973 کے آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کے وہ پہلے صدر بنے جن کے پاس وزیر اعظم سے کم اختیارات تھے۔ وہ 5 سال ایک ماہ اس عہدے پر فائز رہے۔وہ 14 ستمبر 1978 کو سبکدوش ہوگئے۔ جنرل ضیاالحق لگ بھگ 10 سال صدارت کے عہدے پر براجمان رہے۔ اس مدتِ صدارت کو توسیع دینے کے لیے جنرل ایوب کی مانند جنرل ضیا کو بھی ریفرنڈم کی بیساکھیوں کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ 1984 میں انہوں نے انتہائی متنازع ریفرنڈم منعقد کروایا جس میں وہ 95 فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئےریفرنڈم کے اگلے ہی برس جنرل ضیاالحق نے غیرجماعتی انتخابات منعقد کروائے۔ نومنتخب اسمبلی نے نہ صرف ضیاالحق کے تمام سابقہ اقدامات کی توثیق کر دی بلکہ آٹھویں ترمیم بھی منظور کی جس کی شق 58 (ٹو) (بی) کے تحت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا۔17 اگست 1988 کو صدر ضیاالحق کے اقتدار کا سورج اس وقت غروب ہوا جب ان کا طیارہ بہاولپور کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہ ہوگیا۔ 1973 کے آئین کے تحت صدر کی غیر موجودگی میں سینیٹ کا چیئرمین صدر بن جاتا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحٰق خان تھے، چنانچہ وہ ملک کے پانچویں صدر بن گئے۔ غلام اسحٰق خان کا دور صدارت تقریباً 5 برسوں پر محیط رہا۔جولائی 1993 میں نواز شریف نہ صرف خود وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ غلام اسحٰق خان کو بھی ساتھ لے ڈوبے۔

عام انتخابات کے انعقاد اور نئی حکومت کی تشکیل تک سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد ملک کے قائم مقام صدر بنے وہ 14 نومبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے جس کے بعد نئی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے فاروق احمد خان لغاری کو عہدہ صدارت کے لیے نامزد کردیا۔ وسیم سجاد نے صدر کے انتخاب میں باقاعدہ حصہ بھی لیا لیکن فاروق لغاری نے انہیں ہرا دیا۔سردار فاروق احمد خان لغاری پیپلز پارٹی کی بھرپور حمایت کے ساتھ 1993 میں ملک کے صدر بنے، 1997 کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی جماعت نے بھرپور اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی اور بھاری مینڈیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی اختیارات کو ختم کرا دیاچیئرمین سینیٹ وسیم سجاد ایک بار پھر ایک ماہ کے مختصر عرصے کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بنے۔محمد رفیق تارڑ 1997 میں سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور یکم جنوری 1998 کو ملک کے صدر بنے۔اپرویز مشرف کا دور صدارت رفیق تارڑ اور چوہدری فضل الہٰی کی طرح اختیارات سے عاری نہ تھا۔ انہوں نے 58 (ٹو) (بی) کا گڑا مردہ نکالا اور اسے اسمبلی اور وزیرِ اعظم کے سر پر تلوار کی طرح لٹکا دیا جس کے بعد وزیر اعظم کے عہدے کی حیثیت ثانوی ہوگئیدسمبر 2007 میں بےنظیر کی شہادت اور 2008 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد پرویز مشرف پر استعفے کا دباؤ بڑھا۔ انہوں نے شروع میں ایسا کرنے سے انکار کیا لیکن تمام جماعتوں کی طرف سے ان کے مواخذے کی دھمکی کے بعد وہ اگست 2008 میں مستعفی ہوگئے۔ان کے مستعفی ہونے کے بعد محمد میاں سومرو ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے لیے ملک کے قائم مقام صدر بنے۔آصف علی زرداری نے مخالفت کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد مفاہمتی پالیسی اختیار کی اور پانچ سال اس پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ انہوں نے اپنے دور صدارت میں کچھ ایسے فیصلے کیے جنہیں اعلیٰ سطح پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے 8 اپریل 2010 کو 18ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دیے،آصف علی زرداری کو نومبر 2009 میں گلگت بلتستان کو خودمختاری دینے اور پاکستان کے شمال مغربی صوبے کا نام تبدیل کرکے ’خیبر پختونخوا‘ رکھنے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے۔یملک کے بارہویں صدر ممنون حسین نے مسلم لیگ (ن) کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد 9 ستمبر 2013 کو صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ صدارتی انتخاب میں انہوں نے 432 ووٹ لیے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے۔ ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں حکومت آنے کے بعد 9 ستمبر 2018 کو عہدے کا حلف اٹھایا۔ان کی مدت صدارت 8 ستمبر 2023 کو باضابطہ طور پر ختم ہوگئی لیکن صدر کے انتخاب کے لیے درکار ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی کے باعث ڈاکٹر عارف علوی 8 مارچ 2024 تک اس عہدے پر براجمان رہے۔عارف علوی پر ان کے دور صدارت میں کئی بار آئین شکنی کے الزامات لگے، بالخصوص اپریل 2022 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت مختلف جماعتوں کے تقریباً 16 ماہ کے دور حکومت میں وہ کئی بار متنازع ہوئے اور سیاسی جماعتوں نے ان پر متعدد بار ملک کا صدر ہونے کے بجائے سیاسی جماعت کے کارکن کا کردار ادا کرنے کا الزام لگایا۔آصف علی زرداری اتحادی جماعتوں کی حکومت آنے کے بعد 9 مارچ 2024 کو دوسری بار ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ آصف زرداری کو مجموعی طور پر 411 الیکٹورل ووٹ ملے جس میں سے چاروں اسمبلیوں سے 156 جبکہ پارلیمنٹ سے 255 ووٹ ملے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے 14 میں سے 5 صدور فوجی جبکہ 9 سویلین تھے۔ تقریب میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے حلف لیا۔تقریب میں سبکدوش ہونے والے صدر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین و آصف زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق، نومنتخب صدر کی بیٹیاں بختاور بھٹو اور آصفہ بھٹو زرداری شریک ہوئے۔مسلح افواج کے تینوں سروسز چیفس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ تقریب میں صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور تقریب میں شریک نہیں ہوئے۔ بعد ازاں کابینہ ڈویژن نے بھی نوٹی فکیشن جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ عارف علوی صدرپاکستان نہیں رہے اور آصف علی زرداری صدر پاکستان بن گئے ہیں۔ نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ آصف علی زرداری نے آئین پاکستان کے تحت عہدے کا حلف اٹھایا۔ واضح رہے کہ حکمران اتحاد کے نامزد صدارتی امیدوار آصف زرداری نے گزشتہ روز الیکٹورل کالج کے ایک ہزار 185 ووٹوں میں سے 411 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی کو 111 ووٹ ملے تھے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق صدارتی انتخاب میں مجموعی طور پر سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہزار 44 ارکان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔نتائج کے مطابق آصف زرداری نے 411 اور محمود خان اچکزئی نے 181 ووٹ لیے۔ آصف علی زرداری کو چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 156 الیکٹورل ووٹ ملے، محمود خان اچکزئی نے چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 62 ووٹ حاصل کیے۔ حکمران اتحاد کے مشترکہ امیدوار آصف زرداری نے پارلیمنٹ سے 255 ووٹ حاصل کیے جب کہ محمود خان اچکزئی کو پارلیمنٹ ہاؤس سے 119 الیکٹورل ووٹ ملے ۔ صدر مملکت کے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ووٹ ڈالے گئے، اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہوئی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے پریزائیڈنگ افسر کے فرائض سرانجام دیے۔ ووٹنگ کے دوران وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف، حکمران اتحاد کی جانب سے صدر مملکت کے عہدے کے نامزد آصف علی زرداری، سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدوار محمود خان اچکزئی، وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، سابق وزیر دفاع خواجہ آصف سمیت دیگر اراکین قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ووٹ کاسٹ کیا۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے پر پریزائیڈنگ افسر جسٹس عامر فاروق نے نتیجے کا اعلان کیا جس کے مطابق آصف علی زرداری نے 255 ووٹ، سنی اتحاد کونسل کےحمایت یافتہ امیدوار محمود خان اچکزئی کو 119 ووٹ ملے جب کہ ایک ووٹ مستردہوا۔ مجموعی طو پر 375 ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، تین سیاسی جماعتوں نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا، جمعیت علما اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا۔ ووٹ نہ دالنے والوں میں جے یو آئی (ف) کے 13 ارکین جب کہ جماعت اسلامی اور جے ڈی اے کا ایک ایک سینیٹر شامل ہیں، پی ٹی آئی کے اعجاز چوہدری کو پروڈکشن آرڈر پر نہ لایا گیا جس کی وجہ سے وہ بھی ووٹ نہ ڈال سکے، شبلی فراز اور اعظم سواتی بھی ووٹ ڈالنے نہیں آئے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے صدارتی انتخاب میں 411 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل کے چیئرمین محمود خان اچکزئی صرف 181 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ کراچی، لاہور، کوئٹہ، پشاور اور اسلام آباد میں صدر کے انتخابات کرائے گئے۔ مزید کہا گیا کہ پانچوں مقامات سے پریذائیڈنگ افسران کے مرتب کردہ نتائج الیکشن کمیشن سیکرٹریٹ کو موصول ہوئے۔ الیکٹورل کالج میں نشستوں کی کل تعداد 1185 تھی جس میں سے 92 خالی تھیں، باقی ایک ہزار 93 ووٹرز کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا تھا۔ ایک ہزار 44 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے 9 مسترد قرار دیے گئے، اس طرح ڈالے گئے درست ووٹوں کی کل تعداد ایک ہزار 35 بنتی ہے۔ ہ پریزائیڈنگ افسران سے اصل ریکارڈ کی وصولی کے بعد فارم 7 پر سرکاری نتیجہ تیار کر کے وفاقی حکومت کو بھجوایا گیا۔ واضح رہے کہ دوسری مرتبہ پاکستان کے صدرِ بننے والے آصف علی زرداری پہلی مرتبہ 2008 میں 5 سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہوئے تھے، انہوں نے مخالفت کے باوجود اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد مفاہمتی پالیسی اختیار کی اور پانچ سال اس پالیسی پر عمل پیرا رہے، انہوں نے اپنے دور صدارت میں کچھ ایسے فیصلے کیے جنہیں اعلیٰ سطح پر سراہا جاتا ہے۔ انہوں نے 8 اپریل 2010 کو 18ویں ترمیم منظور ہونے کے بعد تمام اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دیے، چونکہ ان کی پارٹی برسراقتدار تھی اور وہ اپنی جماعت کے صدر بھی تھے اس لیے انہیں اپنے دور کے دوران کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوا۔ آصف علی زرداری کو نومبر 2009 میں گلگت بلتستان کو خودمختاری دینے اور پاکستان کے شمال مغربی صوبے کا نام تبدیل کرکے ’خیبر پختونخوا‘ رکھنے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے۔ تاہم صدر کے عہدے پر فائز رہنے کے پانچ سال کے دوران ان پر کرپشن کے کئی الزامات بھی لگے۔
دوسری جانب صدارتی امیدوار اصغرعلی مبارک نےکہا کہ پاکستان میں عام انتخابات کے کامیاب انعقاد پر تمام اداروں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتا ہوں. پاکستان کومستخکم کرنے کے لئے صدر پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ سیاسی پولارائزیش سے پہلے پاکستان میں سیاسی مسائل نے جنم لیا ہے, الزمات کی سیاست کے بجائے قائدین کو میثاق معیشت پراکٹھا کرنا وقت کی ضرورت ہے انتخابی اصلاحات اور آزاد عدلیہ, آزاد الیکشن کمشن اور گڈ گورنس کیلئے اپوزیشن اور حکومتی بنچوں کو مل کر کام کرناہوگا امیدوار برائے صدر پاکستان اصغر علی مبارک نے کہا کہ نو منتخب صدر آصف علی زرداری کے لیے نیک خواہشات کا اظہارکیا۔ صدر پاکستان کا عہدہ وفاق کی علامت ہوتا آئین پاکستان میں موجود حقوق کے لئے بلاتفریق کام کیا جائے گا اور جہاں ضرورت پڑے آئینی ترامیم کی جائیں ,
اپنے تہنیتی پیغام میں امیدوارصدر پاکستان اصغرعلی مبارک نے کہا کہ امید ہے دوسری بار صدر پاکستان منتخب ہونے پر آصف علی زرداری اس منصب پر فائز ہونے کے بعد غیر سیاسی رہیں گےاور ملک و قوم کی خوشحالی کے لیے اپنا آئینی کردار ادا کریں گے چین کے صدر شی جن پنگ اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے آصف علی زرداری کو پاکستان کا صدر مملکت منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ چینی صدر شی جن پنگ نے صدر آصف زرداری کو پاکستان کے 14ویں صدر کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے۔ اپنے پیغام میں شی جن پنگ نے کہا کہ چین اور پاکستان اچھے پڑوسی، دوست، شراکت دار اور بھائی ہیں اور دونوں ممالک کی آہنی دوستی دونوں عوام کے لیے قیمتی خزانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے حالیہ برسوں میں اعلیٰ سطح پر قریبی روابط کو برقرار رکھا، بنیادی باہمی مفادات اور اہم خدشات سے متعلق امور پر ایک دوسرے کی حمایت کی، پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے اور اعلیٰ سطح کے دو طرفہ تعلقات کو برقرار رکھا۔ چینی صدر نے کہا کہ وہ پاک چین تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور چین اور پاکستان کے درمیان روایتی دوستی کو مزید فروغ دینے، مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو بڑھانے اور پاکستان اور چین کی ہر موسم میں پائیدار تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید بہتر بنانے کے لیے صدر زرداری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی نے آصف علی زرداری کو پاکستان کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ ابراہیم رئیسی نے امید ظاہر کی کہ آصف زرداری کے دور صدارت میں دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تاریخ کے تعلقات پہلے سے زیادہ مستحکم ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح اور خاص طور پر نئے دور میں اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ باہمی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے اپنی آمادگی کا اعادہ کرتا ہے۔,وہ پاکستان کے پہلے ایسے سیاستدان بن گئے ہیں جو دو مرتبہ منصب صدارت پر فائز ہوئے ہیں۔ 1955 میں پیدا ہونے والے آصف علی زرداری اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں اور اُن کی تین بہنیں ہیں۔ آصف زرداری نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کی جس کے بعد وہ پٹارو کیڈٹ کالج چلے گئے اور اُن کی آفیشل بائیو گرافی کے مطابق انھوں نے لندن سے بزنس میں گریجوئیشن مکمل کی ہے۔ آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری زمینداری کے علاوہ کراچی میں سنیما گھروں اور تعمیراتی شعبے سے منسلک تھے اور کسی زمانے میں وہ شیخ مجیب کی عوامی لیگ کا حصہ بھی رہے تھے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق حاکم زرداری سنہ 1985 میں جنرل ضیاالحق کے دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں نوابشاہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے لیکن ہار گئے۔اپنے والد سے قبل آصف علی زرداری نوابشاہ کی ضلعی کونسل کے انتخابات میں حصہ لے چکے تھے، جہاں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پاکستان کے عوام سنہ 1987 سے قبل آصف زرداری کے نام سے ناآشنا تھے۔ اور پھر جب دسمبر 1987 میں اُن کی شادی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ہوئی تو اسی نسبت سے اُن کا نام ملک بھر میں جانا پہچانا بن گیا شادی کے اگلے ہی برس یعنی 1988 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ بینظیر اپنے ساتھ اپنے شوہر کو بھی وزیر اعظم ہاؤس لے آئیں، اور یہی وہ وقت تھا جہاں سے آصف زرداری کی سیاست، ان سے منسلک تنازعات کا آغاز ہوا۔صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو منتخب ہونے کے دو برسوں کے اندر ہی برطرف کر دیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں نواز شریف کی مسلم لیگ کی حکومت آنے کے کچھ ہی عرصے بعد 10 اکتوبر 1990 کو آصف زرداری پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے اور جب نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو فروری 1993 میں انھیں رہائی ملی۔آصف زرداری پر مالی بدعنوانی، اغوا، اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے، نوے کی دہائی کا یہی وہ دور تھا جب مبینہ طور پر سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن جیسے الزامات کے باعث اُن کے نام کے ساتھ ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا لاحقہ جوڑا گیا جس نے دہائیوں تک اُن کا پیچھا کیا۔1993 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنیں تاہم یہ حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996 میں اسے برطرف کر دیا گیا۔ بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں آصف زرداری پر سیاسی جوڑ توڑ اور کرپشن جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ بینظیر کی دوسری حکومت کی برطرفی سے قبل آصف زرداری دبئی میں تھے اور دبئی سے پاکستان واپسی پر اگلے ہی روز انھیں ایک مرتبہ پھر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔تاہم دوسری مرتبہ ہونے والی ان کی گرفتاری طویل تھی۔ آصف زرداری کی اسیری کے دوران پاکستان میں دو حکومتیں تبدیل ہوئیں جس میں پہلے نواز شریف اور اس کے بعد جنرل مشرف کا مارشل لا آیا۔ اگرچہ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے زرداری کی رہائی ممکن ہو پائے گی تاہم ایسا نہ ہوا۔آصف زرداری پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور قتل جیسے سنگین الزامات تھے۔ ان پر بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا الزام بھی تھا تاہم بعدازاں اس میں انھیں بری کر دیا گیا۔آصف علی زرداری کی رہائی اس وقت تک عمل میں نہیں آئی جب تک پیپلز پارٹی کی پرویز مشرف کے ساتھ مفاہمت نہیں ہوئی، جس کے بعد جنرل مشرف کی جانب سے قومی مصالحاتی آرڈیننس یعنی این آر او جاری ہوا جس کے تحت ان پر دائر مقدمات معطل ہوئے اور بعدازاں ان مقدمات میں ان کی عدالتوں سے بریت بھی ہوئی۔طویل اسیری کی وجہ سے وہ پاکستان میں ماضی قریب میں جیل میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والے سیاست دان بن گئے، اگرچہ بعد ازاں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جیل میں گزرے وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُن کی غیر موجودگی میں بچوں کی پرورش کی مکمل ذمہ داری بینظیر بھٹو کے پاس رہی۔بینظیر بھٹو نے جب 18 اکتوبر 2007 کو خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو آصف زرداری اپنے بچوں کے ساتھ دبئی میں موجود رہے۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو ہونے والے ایک خودکش حملے میں بینطیر بھٹو کی وفات کے بعد وہ وطن واپس آئے اور اپنی اہلیہ کی تدفین کے بعد جب مشتعل افراد کی جانب سے ’نہ کھپے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا گیا تو زرداری نے اپنے پہلے پہلے عوامی خطاب میں ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ بلند کیا، جو بعد میں اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی اور خود آصف زرداری کی سیاست کا نعرہ بن کر سامنے آیا۔پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے پاس رکھنے کے بجائے انھوں نے اسے اپنے نوجوان زیر تعلیم بیٹے بلاول بھٹو کے سپرد کر دیا اور اُن کا نام بلاول زرداری سے بدل کر ’بلاول بھٹو زرداری‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ ایک بہتر حکمت عملی ثابت ہوئی اور اس طرح انھیں پارٹی میں کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کیا گیا حالانکہ اس سے قبل عام رائے یہ تھی کہ یہ منصب سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے سینیئر رہنما مخدوم امین فہیم کو ملے گا۔ تاہم یہ پہلی بار تھا کہ پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم سندھ سے نہیں بلکہ پنجاب سے تھا۔یپلز پارٹی کی حکومت کا ابتدا میں مسلم لیگ ن نے بھی ساتھ دیا لیکن یہ اتحاد دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ جنرل مشرف کی جانب سے معزول کیے گئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کی بحالی کے معاملے پر فریقین میں اختلافات سامنے آئے۔ صدر مشرف کا مواخذہ کرنے کے معاملے پر بھی دونوں کا اتفاق تھا تاہم اسی عرصے میں زرداری کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ’اگر مشرف مستعفی ہو جائیں تو انھیں محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔‘ بالاخر مشرف مستعفی ہو گئے اور زرداری اس منصب کے لیے خود امیدوار بن گئےآصف زرداری 2008 سے 2013 تک پاکستان کے صدر رہے۔ چوہدری فضل الٰہی کے بعد وہ دوسرے سویلین صدر تھے جنھوں نے اپنی مدت پوری کی۔ دور صدارت میں ان کے قابل ذکر فیصلوں میں اسمبلی کی معطلی کے اختیارات پارلیمان کو واپس کرنا، 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختیاری بحال کرنا، فاٹا اصلاحات، آغاز حقوق بلوچستان اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے کی از سر نو تشکیل، گلگت بلتستان کی خودمختاری اور صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا شامل ہیں,جنرل پرویز مشرف کی پاکستان پر 8 سالہ حکمرانی کے بعد آصف زرداری نے جب سویلین صدر کا منصب سنبھالا تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں توازن کی کوشش کی












