اسلام آباد(ٹی این ایس) 4 رمضان الکریم “”یوم تحفظ ناموس رسالت“ ، اور ہماری ذمہ داریاں

 
0
30

.اللہ رب العالمین کے بعد جس ہستی کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے؛ وہ سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے. مسلمانوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے؛ وہ تعلق تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بالا تر ہے۔ دنیا کا کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق، اس تعلق سے جو نبی کریم اور اہل ایمان کے درمیان ہے ، ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں. لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں.
سوشل میڈیا پر توہین آمیزمواد کی تشہیرسےدین دشمن طبقات آئےروزمسلمانوں کےجذبات مجروح اور نوجوان نسل کو گمراہ کررہےہیں ناموس رسالت کےتحفظ اور دین دشمنوں کوعدالتوں سےتختہ دارتک پہنچانےکےلیے لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان کی اپیل پر ملک بھر میں 15 مارچ بروز جمعہ بمطابق 4 رمضان الکریم “”یوم تحفظ ناموس رسالت“ منایا جارہاہے۔ ٹیم لیگل کمیشن آن بلاسفیمی پاکستان کے مطابق اب تک 300 سےزائد ایسے گستاخ پکڑےجا چکے ہیں جن سےانکشافات ہورہےہیں ان نیٹ ورکس کاقلع قمع منظم طریقے سےہی ممکن ہے. وزارت مذہبی امورپاکستان , وزرات تعلیم پیمرا ودیگر سرکاری ونیم سرکاری اداروں کی جانب سےبھی یہ یوم منانےکا اعلان کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں 15 مارچ بروز جمعہ بمطابق 4 رمضان الکریم سوشل میڈیا,مساجد محراب ومنبر خانقاہ ومدارس .تعلیمی اداروں کےزریعے ”اگاہی مہم“ چلائی جائے گی, اس دن کی مناسبت سے PTA کی جانب سے فون کال پر اہم پیغام بھی چلایا جارہاہے۔
علما, وکلا ,دانشور, سوشل میڈیا سٹریٹجسٹس ایکٹوسٹس سیشنز کریں گےاورٹویٹرپر ٹرینڈز بھی چلائے جائیں گے۔ سب مسلمانوں سے بھی اپیل کی گئی ہے 15 مارچ سوشل میڈیا پر گستاخان رسول کامحاسبہ کرنےاور اس حساس معاملے کی اہمیت کے ہیغام کو عام کرنے میں ساتھ دیا جائے,
یاد رہے کہ شرعی وفقہی طور پر گستاخ رسول کی وہی سزا ہے جو مرتد کی سزا ہے، عہد رسالت میں یہ سزا جن ملعونوں پر نافذ کی گئی، احادیث، سیرت النبی اور فقہی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل مذکور ہے ، اس موضوع پر شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول اور قاضی عیاض کی الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں مفصل کلام موجود ہے؛ موجودہ حالات میں اقلیتی ودیگر جمہوری ممالک میں چونکہ ان سزاؤں کی تعمیل کروانے میں مشکلات ہیں اس لیے سردست عملی وفکری طور بھی ایسے افراد اور ایسی ذہنیت کا تعاقب کیا جائے، اگر پہلے سے مشتہر نہ ہو تو ایسے آڈیو، ویڈیو اور گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی تشہیر وترویج سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے.شرعی وفقہی طور پر گستاخ رسول کی وہی سزا ہے جو مرتد کی سزا ہے، عہد رسالت میں یہ سزا جن ملعونوں پر نافذ کی گئی، احادیث، سیرت النبی اور فقہی کتابوں میں اس کی مکمل تفصیل مذکور ہے ، اس موضوع پر شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ کی الصارم المسلول اور قاضی عیاض کی الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں مفصل کلام موجود ہے؛ موجودہ حالات میں اقلیتی ودیگر جمہوری ممالک میں چونکہ ان سزاؤں کی تعمیل کروانے میں مشکلات ہیں اس لیے سردست عملی وفکری طور بھی ایسے افراد اور ایسی ذہنیت کا تعاقب کیا جائے، اگر پہلے سے مشتہر نہ ہو تو ایسے آڈیو، ویڈیو اور گستاخانہ تحریروں اور خاکوں کی تشہیر وترویج سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے.
موجودہ زمانے میں عملی تقاضہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کو اپنی تمام خواہشات وجذبات پر مقدم رکھا جائے، ان کی سنتوں پر پوری دیانت داری کے ساتھ عمل کیا جائے، ان کے لائے ہوئے دین پر مکمل یقین اور اٹوٹ وفاداری ہو، ان پر نازل کردہ کتاب قرآن کریم سے بھر پور تعلق اور اس پر عمل ہو، ان کی سیرت وسنت کو اپنی ذات اپنے گھر اور اہل خانہ پر نافذ کیا جائے، ان کی اخلاقی تعلیمات کو پوری دنیا میں عام کیا جائے، ان کی انسانیت پر مبنی پیغامات سے اپنے برادران وطن خاص طور پر اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کو واقف کرایا جائے اور نبی کریم کے اسوہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے دکھ درد مصیبت وغم میں شامل ہوا جائے فکری ونظری پہلو یہ ہے کہ ان کو اپنا سب سے بڑا محسن جان کر اور ان کے حقوق کا ادراک کر کے ان کی اعلیٰ درجے کی تعظیم کی جائے ان کے لیے جان ودل قربان کرنے کو تیار رہیں اور اگر ان کی عزت وناموس پر کوئی بدبخت ملعون حملہ آور ہو تو اس کا دندان شکن جواب دیا جائے،
قانونی طور پر ہمارے لیے جو کچھ بھی کرنا ممکن ہو اس میں دریغ نہ کیا جائے، اور متحد ہو کر ہر قسم کے فروعی اختلاف کو پس پشت ڈال کر، بنیان مرصوص یا سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بن کر مذھبی شخصیات بالخصوص حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی پرسخت سزا کا مطالبہ کیاجائے اس کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعے فضا بھی ہموار کی جائے اقوام عالم کو بھی قلمی، اخلاقی وفکری طاقت سے قانون سازی کے لیے مجبور کیا جائے نہیں تو ایسے واقعات پیش آتے رہیں گے, مسلمانوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے تعلق تمام انسانی تعلقات سے بالا تر ہے۔
سورہ احزاب کی چھٹی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ.
یعنی یہ نبیِ (مکرّم) مومنوں کے لیے اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ کی اَزواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔
ایک مسلمان پر دوسروں کے جو حقوق ہیں انہیں ادا کرنے کے حوالے سے دیگر تمام انسانوں کے مقابلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیادہ قریب ہیں، اس آیت کریمہ کی مزید وضاحت مندرجہ ذیل روایت سے ہوتی ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں، اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو، النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ، تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں۔(صحیح بخاری)۔
دوسرا حکم جو مذکورہ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا اس کا تعلق امہات المومنین سے ہے. اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بموجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں. چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں فرمایا گیا، لہٰذا امہات المومنین کی تعظیم و حرمت میں اور ان سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہونے میں وہی مقام ہے جو ماں کا ہے اس آیت نے ازواج مطہرات کو صراحتاً امت کی مائیں اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اشارتاً امت کے روحانی باپ قرار دے دیا،یعنی لوگوں میں ماں کے لیے جو احترام اور تقدس اور بزرگی کے جذبات پائے جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ نبی کریم کی ازواج مطہرات کے لیے تقدس واحترام کا جذبہ ہونا چاہیے. اس آیت کے ذیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں : یقیناً امتی کا ایمانی و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا پرتو اور ظِل ہوتا ہے اور جو شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے، ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اس کا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملی ہے۔
نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لیے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں.
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَنَا أَوْلَی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ۔ ’’میں ہر مومن کی جان سے زیادہ اس قریب ہوں‘‘۔ (صحیح مسلم) ایک اور مقام پر آں حضرت نے ارشاد فرمایا: مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ۔ ’’ میں ہر مومن سے دنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (صحیح بخاری)
اس کا تقاضہ یہ ہے کہ جب رسول اللہ کا حق تمام ایمان والوں پر سب سے زیادہ ہے تو ان کی محبت بھی اہل ایمان کے دلوں میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے.. یہاں تک کہ اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی اولاد سے بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کرنا لازم ہے,ارشاد ہے:
لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔’’ (بخاری، مسلم)
تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت اپنے والد اپنے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو. روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یارسول اللہ! آپ کی محبت میرے دل میں کائنات کے تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے، سوائے میرے نفس کے، تو آقا نے فرمایا کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ میری محبت ہونی چاہیے، تو انھوں نے کہا کہ اب اپنے نفس سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں.
وفي الصحيح أيضا أن عمر ، رضي الله عنه ، قال : يا رسول الله ، والله لأنت أحب إلي من كل شيء إلا من نفسي . فقال : ” لا يا عمر ، حتى أكون أحب إليك من نفسك ” . فقال : يا رسول الله لأنت أحب إلي من كل شيء حتى من نفسي . فقال : ” الآن يا عمر ” .
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی صاحب ایمان نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے نفس سے ، اس کے مال سے، اس کی اولاد سے اور دنیا کے تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
جس ذات سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کی عزت وناموس اس کے لیے اتنی ہی اہم ہوتی ہے، جو سب سے زیادہ محبوب ہوتا ہے اس کے ناموس کے تحفظ کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار رہتا ہے.. رسول اللہ کی ذات چوں کہ اہل ایمان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے اس لیے محبت کے تقاضے کے عین مطابق حضرت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین نے محبت رسول اور اس کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر سرفروشی اورجان نثاری کے ایسے انمٹ نقوش قائم کیے ہیں جو قیامت تک کے لیے مشعل راہ ہیں ,سیدنا عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ اُنہوں نے کہا: میں بدر والے دن صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں بائیں جانب نظر ڈالی تو دیکھا کہ میرے دونوں طرف دو نوجوان انصاری لڑکے کھڑے ہیں۔ میں نے تمنا کی: کاش !میرے نزدیک کوئی طاقتور اور مضبوط آدمی ہوتے۔ ا ن میں سے ایک مجھے میرے پہلو میں ہاتھ مار کرکہنے لگا:
” یا عم! هل تعرف أباجهل؟ ”چچا ; کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں ؟”میں نے کہا: ہاں ، بھتیجے!تمہیں اس کی کیا غرض ہے؟ اُس نے کہا : أُخبرت أنه یسبّ رسول الله والذي نفسي بیده لئن رأیته لا یفارق سوادي سواده حتی یموت الأعجل منا,
”مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو میرا جسم اس کے جسم سے اتنی دیر تک جدا نہیں ہوگا جب تک ہم میں سے جس کو جلدی موت آنی ہے، آجائے۔”عبدالرحمن بن عوف فرماتے ہیں کہ مجھے اس نوجوان لڑکے کے جذبات پر بڑا تعجب ہوا۔پھر مجھے دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح پہلو میں ہاتھ مارا اوراُس جیسی بات کہی۔ اتنے میں میری نظر ابوجہل پر پڑی۔ وہ لوگوں میں گھوم رہا تھا۔ میں نے کہا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ وہ ابوجہل ہے. جس کے بارے میں تم دونوں سوال کررہے تھے۔
ابن عوف کہتے ہیں: وہ دونوں جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور دونوں نے اس پر تلوار کا وار کیا یہاں تک کہ اسے جہنم رسید کردیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس آئے اور آکر آپ کو خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا «أیکما قتله؟»تم دونوں میں سے کس نے اس کو قتل کیا ؟ اُن دونوں میں ہر ایک کہنے لگا: ”أنا قتلته”میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «هل مسحتما سیفیکما؟» ”کیا تم دونوں نے اپنی تلواریں صاف کردی ہیں؟ اُنہوں نے کہا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں تلواروں پر نظر دوڑائی اور فرمایا: «کلاکما قتله»تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے اور ابوجہل کا پہنا ہوا سامان وغیرہ معاذ بن عمرو بن الجموع کو عطا کردیا۔ وہ دونوں نوجوان لڑکے معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفراء تھے۔ صحیح البخاري میں ہے کہ عبداللہ بن عوف کہتے ہیں: «فأشرت لهما إلیه فشدّا علیه مثل الصقرین حتی ضرباه وهما ابنا عفراء» ”میں نے ابوجہل کی طرف ان دونوں کو اشارہ کیا ۔وہ دونوں لڑکے دو عقابوں کی طرح اس پر شدت سے ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ اسے واصل جہنم کردیا اور وہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔” ختم نبوت اور ناموس رسالت کی حفاظت امت دو ہی طرح کر سکتی ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمان سنت رسولؐ پر پوری طرح عمل پیرا ہوں اور مسلمان حکمران اپنے اپنے ملکوں میں سنت کے مطابق حکمرانی کریں۔ ہمارے عوام کی اکثریت دلوں میں اپنے نبیؐ سے محبت رکھتی ہے۔ ان کی ناموس کے لیے جاں بھی قربان کرنے کو تیار رہتی ہے اور مسلمان اپنے نبیؐ کی شان میں گستاخی پر جان لے بھی سکتا ہے۔ لیکن اللہ نے اپنے انبیاء کو لوگوں کی جانیں لینے اور اپنی جانیں دینے کے لیے مبعوث نہیں فرمایا تھا بلکہ اس دُنیا میں اپنا دین غالب کرنے کے لیے مبعوث فرمایا تھا خواہ وہ مشرکوں یا کفار کو کتنا ہی ناگوار گزرے اور جب یہ ناگوار گزرتا ہے تو وہ اپنا غصہ نکالنے کے لیے خاکے بناتے ہیں۔ آزادیٔ اظہار کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن ان کا بس نہیں چلتا کہ اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ جدید دور کا المیہ یہ ہے کہ دُنیا بھر کے مسلمان حکمران مغرب کے غلام یا مغربی ذہنیت سے مرعوب ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں میں مغرب سے درآمد شدہ قوانین مسلط کرتے ہیں۔ اسلام کے فروغ کی تحریکوں کو روکتے ہیں اور اس کے خلاف بات کرتے یا انتشار اور ابہام پھیلانے والوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ دُنیا کے ادارے مغرب کے کنٹرول میں ہیں دُنیا کا نظام ان کے کنٹرول میں ہے۔ اگر کہیں کوئی موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ آج کے دور میں نام نہاد آزاد، مہذب اور ترقی یافتہ دُنیا نے سب سے زیادہ شیطان کی ذہنی غلام، غیر مہذب اور ذہنی طور پر غیر ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ جدید دور میں مغربی ریاستوں نے اسلام کے خلاف ریاستی سطح پر بھرپور کارروائیاں کی ہیں۔ میڈیا کو دُنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ امریکی اور مغربی حکمرانوں نے مہذب غیر جانبدار اور جمہوریت پسند ہونے کا لبادہ اوڑھ کر سب سے زیادہ حملے کیے۔ یہود اور ہنود کے حملوں کی توقع تو امت مسلمہ کو ہمیشہ رہتی تھی۔ لیکن مغرب کے پروپیگنڈے کے نتیجے میں امریکا و یورپ میں مساجد پر حملے، حجاب والی خواتین پر حملے، قرآن پاک کی توہین وغیرہ سب سے زیادہ کیے گئے۔ اسرائیل میں ایسا ہوتا ہے اور وہ کرتے رہیں گے۔ انبیاء کی توہین، قتل اور ان کو جھٹلانا ان کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے اور ہندوئوں کی جانب سے پورے بھارت میں مسلمانوں پر طرح طرح کے عذاب مسلط کیے جاتے ہیں۔ یہ سب لوگ جمہوریت پسند، مہذب اور ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہر اعتبار سے جہالت کے آئینہ دار ہیں۔ سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کیا کرے۔ مسلمان کیا کریں جو کچھ مسلم حکمرانوں کو کرنا تھا وہ تو اس پر رتی بھر عمل نہیں کر رہے۔ یہ ایک طویل عمل ہے جس طرح توہین انبیاء کرنے والے ہزاروں برس کی تاریخ رکھتے ہیں تو تعمیل انبیاء کرنے والے بھی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ اسلام سلامتی کا مذہب ہے۔ حضورؐ نے جتنے وفود بھیجے سب کو اسلام پھیلانے کا حکم دیا۔ جنگوں کے دوران لڑنے کے آداب بتائے۔ قیدیوں سے سلوک کا طریقہ سکھایا۔ دعوت کا طریقہ سکھایا۔ اگر مسلمان ناموس رسالت کا حقیقی تحفظ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے نبیؐ کے سکھائے ہوئے طریقوں پر عمل کرنا ہوگا۔