داعش کو پھلنے پھولنے دینا ہماری غلطی تھی،پاکستان اپنے ملک سے تمام شرانگیزوں کا خاتمہ کرے، ڈونلڈ ٹرمپ

 
0
287

واشنگٹن اگست22(ٹی این ایس) : ۔ فورٹ میئر آرلنگٹن میں بحیثیت کمانڈر ان چیف امریکی قوم سے اپنے پہلے رسمی خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاءکے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کیا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی کی ہے۔ پاکستان کی عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن وہ انہی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔انہوں نے کہا کہ جلد بازی میں امریکی فوجیوں کے انخلا کے باعث افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے جس میں ڈیڈ لائن نہیں ہوں گی۔ پہلے ارادہ تھا کہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے لیکن وہ عراق میں کرنے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس وقت تک ملک میں موجود رہیں گے جب تک جیت نے مل جائے۔

 

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو اورہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔ امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔

 

امریکہ افغان حکومت کے ساتھ تب تک مل کر کام کرے گا جب تک ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہ ہو جائے۔لیکن انھوں نے اس بارے میں وضاحت نہیں دی کہ امریکہ کتنے اور فوجی افغانستان بھیجے گا۔انہوں نے کہا کہ ہم اب اپنے فوجیوں کی تعداد اور اپنے منصوبے کے بارے میں گفتگو نہیں کریں گے۔صدر ٹرمپ کی تقریر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اس نئی پالیسی کے بارے میں اتحادیوں کی حمایت کی توقع کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے۔

افغانستان میں 16 سال سے جاری جنگ کو وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دینے کے اپنے سابقہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہاکہ اوول آفس کی ڈیسک کے پیچھے سے صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔اپنے خطاب میں امریکی صدر نے خبردار کیا کہ ان کا نقطہ نظر اب تصوراتی سے زیادہ حقیقت پسندانہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کو دی جانے والی امریکی فوجی امداد بلینک چیک نہیں ہم قوم کی دوبارہ تعمیر نہیں کررہے ہم دہشت گردوں کا صفایا کررہے ہیں۔

عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکی صدر نے طالبان سے سیاسی ڈیل کا اشارہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ مو ¿ثر فوجی کوششوں کے بعد ممکن ہے کہ ایسا سیاسی تصفیہ ہوجائے جس میں افغانستان میں موجود طالبان عناصر بھی شریک ہوں۔دوسری جانب جنوبی ایشیاءمیں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا افغانستان میں استحکام کے لیے بھارتی کردار کو سراہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت امریکہ کا ایک اہم اتحادی ہے۔ اور کہا کہ بھارت کو افغانستان کی معیشت، امن اور سیکورٹی میں بہتری لانے کے لیے مزید کردار ادا کرنا چاہیے۔ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان اور بھارت 2 ایٹمی طاقتیں ہیں، ایٹمی ہتھیار دہشتگردوں کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہتے تاہم پاکستان اور افغانستان میں ہمارے مقاصد واضح ہیں اس لیے پاکستان اور افغانستان ہماری ترجیح ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صرف فوجی کارروائی سے امن نہیں ہو سکتا، سیاسی، سفارتی اور فوج حکمت یکجا کرکے اقدام کریں گے، افغان حکومت کی مدد جاری رکھیں گے اور امریکا افغان عوام کے ساتھ مل کر کام کرے گا اس لیے افغانستان کو اپنے مستقبل کا تعین خود کرنا ہوگا۔

داعش کے حوالے سے امریکی صدر نے کہا کہ انہیں پھلنے پھولنے دینا ہماری غلطی تھی تاہم اب عراق کی طرح انخلا کی غلطی افغانستان میں نہیں دہرائیں گے، افغانستان سے نکلے تو پیدا ہونے والا خلا دہشتگرد پورا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا جلد بازی میں عراق سے نکل گیا، فائدہ دہشتگردوں نے اٹھایا اورعراق سے تیز انخلا کا نتیجہ داعش کے تیزی سے پروان کی صورت نکلا، تیزی سے انخلا کی صورت میں ممکنہ نتائج کا پتہ ہے۔

امریکی صدر نے خطاب کے دوران دہشتگردی کے حوالے سے پالیسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگرد رکنے والے نہیں، بارسلونا حملہ ثبوت ہے، دہشتگردوں کو بزور طاقت شکست دیں گے۔ انہوں نے دہشتگردوں کو خبردار کرتے ہوئے کہ قاتل سن لیں، امریکی اسلحے سے بچنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی اور دہشتگردی کے علمبرداروں کو دنیا میں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔ امریکی صدر نے کہا کہ نائن الیون کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس واقعے کو کوئی نہیں بھول سکتا، یہ حملے بدترین دہشتگردی ہیں، ان کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد افغانستان سے ہوا تاہم امریکا کو بیرونی دشمنوں سے بچانے کے لیے متحد ہونا پڑے گا اور دہشتگردی کے خلاف ساتھ دینے والے ہر ملک سے اتحاد کریں گے۔

ٹرمپ نے کہا کہ اتحادیوں سے مل کر مشترکہ مفادات کا تحفظ کریں گے اور دہشتگردوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔یاد رہے کہ امریکی فوج نے افغانستان میں براہ راست فوجی کاروائی 2014 سے ختم کر دی ہے اور اس وقت ملک میں 8400 موجود ہیں جو کہ افغان فوج کی مدد کر رہے ہیں۔2001 میں ستمبر 11 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد سے امریکہ کی فوج افغانستان میں موجود ہے اور ماضی میں صدر ٹرمپ فوج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔