اسلام آباد (ٹی این ایس) محرم الحرام میں عزاداری شہداء کربلا

 
0
14

اسلام آباد (ٹی این ایس) واقعہ کربلا 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے اس واقعے کو کہا جاتا ہے جس میں یزیدی فوج کے ہاتھوں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب شہید ہوگئے۔ واقعہ کربلا مسلمانوں کے نزدیک تاریخ اسلام کا دلخراش ترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے۔ شیعہ مسلمان اس دن وسیع پیمانے پر عزاداری کا اہتمام کرتے ہیں۔عزاداری ہر علاقے کی روایات کے مطابق منانا ضروری ہے۔عزاداری شہید کربلا، واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی یاد میں ماتم اور سوگواری کرنے کا نام ہے۔ حضرت زینب، امام سجادؑ، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ پر عزاداری منعقد کی۔ یہ رسم محرم کے مہینے میں خاص طور پر ادا کی جاتی ہے، جس میں شہداء کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کے غم میں مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔محرم کی عزاداری سے مراد واقعہ کربلا کی یاد میں منعقد ہونے والے عزاداری کے خاص رسومات ہیں۔ مسلمان ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں سنہ 61 ہجری کو کربلا میں پیش آنے والے واقعے کو یاد کر کے عزاداری مناتے ہیں جس میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کو یزیدی فوج نے بے دردی کے ساتھ شہید کیا تھا۔
عشرہ محرم در حقیقت ماہ محرم کی پہلی تاریخ سے دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے اور محرم الحرام ہجری قمری سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ان دنوں میں مسلمان واقعہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی یاد میں عزاداری کرتے ہیں۔
شروع میں عزاداری کی ان مجالس میں امام حسینؑ کے غم کو اشعار میں بیان کرنے کے ذریعے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان مجالس میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگے۔
واقعہ عاشورا کے شہداء کا غم منانا اور ان پر عزاداری کرنا، سنہ 61 ہجری کے اس واقعے کےفورا بعد آغاز ہوا جو ابھی تک جاری و ساری ہے۔ لیکن اس میں عزاداری کے طور طریقوں میں مختلف تبدیلیاں آتی گئیں اس طرح بہت ساری رسومات عزاداری میں شامل ہوئی ہیں۔ واقعۂ عاشورا کے بعد امامؑ پر گریہ و زاری کرنے والی ہستیوں میں سب سے پہلے آپؑ کے فرزند امام زین العابدینؑ، آپؑ کی بہن زینب بنت علیؑ اور ام کلثوم تھیں۔ مقاتل کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ حضرت زینبؑ جب اسیری کے وقت اپنے بھائی کی لاش کے قریب سے گزری تو بھائی کی لاش پر ان الفاظ میں نوحہ کیا جس نے دوست اور دشمن سب کو رلا کر رکھ دیا: اے میرے نانا محمدؐ! تجھ پر آسمان کے فرشتے سلام بھیجتے ہیں یہ صحرا کی گرم ریت پر پڑا ہوا لاشہ تیرے حسینؑ کا ہے۔ اے نانا تیری بیٹیاں اسیر ہو کر شام جارہی ہیں اور ان کے چہروں پر مصیبت کے گرد و غبار آن پڑا ہے۔ان کے علاوہ آپؑ کی بیٹیاں اور زوجۂ مکرمہ رباب بنت امرؤ القیس وغیرہ نے کربلا میں شہداء کے لاشوں پر اور بعدازاں کوفہ اور پھر شام میں عزاداری اور مرثیہ سرائی کا اہتمام کیا۔ یہاں تک کہ جب اسیران کربلا کا قافلہ شام میں وارد ہوا اور امام سجادؑ اور حضرت زینب(س) کے خطبوں سے جب لوگوں پر حقیقت عیاں ہوئی اور یزید اور اس کے کارندوں کے ظلم و ستم کا پتہ چلا تو سوگ منایا گیا۔جب اسیران کربلا کا قافلہ شام سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو امام سجادؑ کے حکم پر بشیر بن جذلم نے اشعار کے ذریعے اہل مدینہ کو اہل بیتؑ کی آمد کی خبر دی تو اہل مدینہ نے اہل بیت کی مصیبت میں گریہ و زاری کئے, اسی طرح مدینے میں موجود اہل بیت کی خواتین نے عزاداری برپا کر کے مدینے میں سوگ منائیں جن میں زینب بنت عقیل، ام البنین اور رباب‌ شامل ہیں۔امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے دور امامت میں کمیت اسدی اور امام رضاؑ کے دور امامت میں دعبل خزاعی نامور شیعہ مرثیہ گو شعراء میں سے تھے جنہوں نے امام حسینؑ کی شان میں مرثیہ خوانی کی ہیں۔ اس دور میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار کی صورت میں حکایت کرنے والوں کو “مُنشِد” کہا جاتا تھا۔آل‌بویہ کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت وقت کی جانب سے پابندیوں کا خاتمہ ہوااور سنہ352 ق میں تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کی جانب سے روز عاشورا کو سرکاری طور پر چھٹی اور سوگ کا اعلان کیا گیا اور اس دن خرید و فروخت پر پابندی لگا دی گئی، قصائیوں کو حکم دیا گیا کہ اس دن کے احترام میں کسی جانور کو ذبح نہ کیا جائے اور کھانے پینے کے مراکز میں کھانا وغیره تیار نہ کیا جائے اور بازاروں میں عزاداری کے خیمے نصب کئے گئے۔ تیموریوں کے دور میں ذاکرین کھلے عام ائمہؑ کی شان میں منقبت پڑھا کرتے تھے سلسلہ صفویہ میں امام حسینؑ اور آپ کے اصحاب کی یاد میں عزاداری اپنے عروج پر پہنچ گئی اس دور میں باقاعدہ بادشاہوں کی موجودگی میں نوحہ خوانی، سینہ زنی اور عزاداری کے مراسم برگزار ہونے لگے۔ اس کے بعد سے باقاعدہ طور پر امام بارگاہوں اور عزاداری سے مربوط موقوفات تشکیل پائے۔ افشاریہ دور میں نادرشاہ نے عزاداری پر کچھ پابندیاں عاید کی۔ سلسلہ زندیہ میں پہلی بار تعزیہ اور شبیہ خوانی کے مجالس کا انعقاد ہوا۔ اجاریہ دور میں عزاداری خاص کر تعزیہ کے مراسم اپنے عروج پر پہنچ گئے تھے۔ ناصرالدین‌شاہ عزاداری کے مجالس میں تجملات اور اشرافیت کا موجب بنا قمہ زنی ، زنجیرزنی وغیرہ ناصرالدین‌شاه کے دور میں رواج پانے ہونے والے مراسمات میں سے ہیں , شام غریبان کے مراسم کا رواج مظفرالدین شاہ کے دور میں ہوا۔ اس دور میں امام حسینؑ کی عزاداری محرم کے علاوہ صفر میں بھی برگزار ہونے لگی , سنہ 1320 ہجری شمسی کو رضاخان کے بعد عزاداری کی مجالس پر عاید پابندیاں بھی رفتہ رفتہ اپنے اختتام کو پہنچیں,عزاداری عام طور پر محرم الحرام کے پہلے دس ایام کے دوران بروئے کار لائی جاتی ہیں، سب سے زیادہ مراسمات عاشورا کے دن منعقد کئے جاتے ہیں۔عاشورا کی عزاداری کے سیّار یا متحرک مراسمات میں عوام اور شرکاء کے عزادار دستوں میں سینہ زن، زنجیر زن وغیرہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ عزاداروں کے دستے گروہی انداز سے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں کے گوشہ و کنار سے روانہ ہوکر ایک دوسرے سے جاملتے ہیں اور مراسمات ایک خاص مقام امام زادگان کے مزارات، ائمہؑ کے مشاہد شریفہ، امام بارگاہوں اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ پاک و ہندمیں عاشورا کے مراسمات اور آداب میں ـ کچھ اضافات اور استثنائی آداب کے ساتھ ـ ایرانی روشوں کی پیروی کی جاتی ہے۔ تاہم دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو بھی عاشورا کے آداب و رسوم میں فعال کردار ادا کرتے ہیں اور ایام عزاداری میں سنی کے جداگانہ آداب و رسوم بھی ہیں۔ بر صغیر پاک و ہند میں عاشورا کے نمایاں آداب و رسوم کی خصوصیات میں سے حرم امام حسینؑ کے عظیم نمونے تعزیہ عزاداروں کے جلوس میں اٹھائے جاتے ہیں بیان شہادت امام حسینؑ ـ کو ایران میں روضہ خوانی اور ہندوستان , پاکستان میں مجلس کہا جاتا ہے ـ یا تو کھلی فضا میں انجام پاتا ہے یا خاص قسم کی عمارتوں میں، جنہیں امام باڑہ، امام بارگاہ کہا جاتا ہے۔عاشورا کے بہت سے آداب و رسوم کو انیسویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے غرب الہند کے علاقے متعارف کرائے۔ آج ٹرینیڈاڈ میں کارناوال کے بعد دوسرے بڑے مراسمات عاشورا سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں عاشورا کے مراسمات کو حُسَی کہا جاتا ہے اور تین شب اور تین روز تک جاری رہتے ہیں۔ عراق میں، ماتمی جلوس اور مجالس عزاداری جیسے مراسمات ماہ محرم کے پہلے عشرے کے معمول کی خصوصیات میں شامل ہیں اور یہ مراسمات عاشورا کے دن عروج کو پہنچتے ہیں۔ محرم کی عزاداری یا ماتم حسین یا عزاداری مسلمان ہر سال کرتے ہیں۔ جس میں دنیا بھر میں ماتمی جلوسوں، مجلسوں، وعظ، سوگواری، خیرات اور سینہ کوبی کے ذریعے واقعہ کربلا میں شہید ہونے والے افراد کو یاد کر کے ان کا غم منایا جاتا ہے۔
دنیا کے کافی علاقوں میں اہل سنت حضرات نیز عیسائی بلکہ ہندو لوگ بھی شہدائے کربلا کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے عزائے مظلومین میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔واقعہ کربلا اپنے مرکزی کردار کی وجہ سے تمام دنیامیں انتہائی الم ناک اور اپنی نوعیت کا اہم ترین واقعہ ہے۔اس واقعہ نے پورے عالم انسانیت کو متاثر کیا ہے۔پیغام کربلا کسی ایک خطہ، مذہب یافرقہ تک محدود نہیں یہ ابدی وآفاقی اور عالمی ہے۔دنیا بھر میں عزاداری اس کا زندہ ثبوت ہے۔اس کی یاد کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں، انداز جدا ہو سکتے ہیں، خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے زبان و بیان کا وسیلہ الگ ہوسکتاہے مگر شہدائے کربلا کی عظمت کا اعتراف ہر صاحب دل کرتا ہے۔ایمان کے لیے قربان ہونے والوں کا ذکر اپنی تمام آب و تاب کے ساتھ صفحہ تاریخ پر حرف روشن کی طرح عیاں، زندہ و پائندہ ہے اور انسانیت کو پیغام زندگی دے رہاہے۔یہ نبی نوع انسان سے متعلق رزمیہ ہے یہ ظلم و ستم سے رہائی کا منشور ہے۔عصر عاشور کو حسین مظلوم نے جو عظیم قربانی دی وہی بشریت کی عدیم المثال قربانی بن گئی ہے۔ضروری ہے کہ مراسم عزاداری سے روشناس ہونے سے پہلے عزا، عزادار اور عزاداری کے تصورات کو سمجھ لیا جائے۔
اظہار غم ایک فطری عمل ہے اسی طرح اظہار مسرت بھی عین فطرت ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے قرآن قریم میں متعددجگہ گریہ کے متعلق ذکر ہے اور اس کا درجہ بلند باتایا گیا ہے۔اسی طرح رسول اکرم ﷺ انسان کامل تھے ان کی سیرت ہمارے لیے شمع ہدایت ہے اور طریق زندگی سنت۔آنحضرت نے بھی گریہ فرمایا ہے صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے انبیا ء علیہم السلام جسیے حضرت آدم علیہ السلام ہابیل کی شہادت پر بہت روتے تھے اور اپنی اولاد کو وصیت فرماگئے تھے یہی معلول جاری رکھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اس لیے روتے تھے کہ آپ نے اپنی قوم کے لیے بددعا کی تھی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہو گئی تھی، زیادہ نوحہ کرنے کے سبب آپ کا لقب نوح ہو گیا۔یعنی زیادہ نوحہ کرنے والا، حضرت ابراہیم کے لیے قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ وہ بہت حلیم اور آہ کرنے والے تھے۔اس سلسلے میں بہت سی احادیث ہیں۔ جن میں عزاداری اور خاص طور پر حسین ابن علی کی عزاداری کا کہا گیا ہے۔ اہل تشیع میں تمام بارہ امام کا حکم نبی کا فرمان ہی ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ اپنے اماموں سے احادیث نقل کرتے ہیں اس معاملے میں سب سے مضبوط حدیث ریان بن شبیب کی حدیث ہے۔ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے پیروکاروں کو یاد و ماتم حسین پابندی سے بار بار کرنے کی تاکید کی ہے۔عزاداری کے لیے یہ اصرار صرف گریہ کرنے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کے کئی پہلو ہیں ۔قرآن حکیم میں خدائے برحق نے اپنے پیغمبر سے ارشاد فرمایا ہے کہ ’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اجر طلب نہیں کرتا بجز اس کے کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو ,
آل رسول کی عزاداری اجر رسالت کی ادائیگی کا ایک ذریعہ ہے۔عزاداری ہمارے اور شہدائے کربلا کے درمیان ایک رابطہ پیدا کرتاہے۔صدق دلی سے جب انھیں یاد کرتے ہیں،گریہ کرتے ہیں تو عزادار اور امام حسین (ع) کے درمیان ایک تعلق پیدا کرتا ہے جو جذباتی اور دلی ہوتا ہے ہم یاد کیے جانے والے کی پسند ناپسند کو اختیار کرلیتے ہیں۔عزاداری میں گریہ کرنے سے ظلم اور ظالم کے خلاف بیزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان لوگوں اور طاقتوں کے خلاف نفرت پیدا ہوتی ہے جنھوں نے امام حسین کو شہید کیا۔گریہ اور مجالس میں مصائب بیان کرنے کے سبب ہی یزید سفاکی اور بربریت کی علامت بن گیا ابن زیاد ،شمر یزید وغیرہ سے لوگ نفرت کرتے ہیں ,آج سے چودہ سو سال قبل کربلا کا بے آب و گیاہ میدان ایک غیر معروف علاقہ تھا لیکن شہادت حسین اور عظیم سانحہ ہے جس نے کربلا کے میدان کو وقار بخشا۔محبان و عاشقان شہدائے کربلا سال بھر خصوصاماہ محرم و صفر میں امام حسین علیہ السلام ،ان کے اقرباء و رفقا کو یاد کرتے ہیں۔انھوں نے اس یاد کو جزوایمان بنا لیا ہے۔ایک ایسا دور بھی آیاجب محبان و عاشقان حسین پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے ان پر بندشیں لگائی گئیں۔انھیں دارورسن کی منزلوں سے گذرنا پڑا لیکن وقت کے اتار چڑھاو کے ساتھ اس واقعہ کی یاد اور زیادہ بڑھتی گئی ،جذبہ ایمان نکھر تاگیا اور عزاداری پروان چڑھتی گئی۔دنیا میں ہر چیز مرجاتی ہے کہ فانی ہے۔مگر خون شہادت کے ان قطروں کے لیے جو اپنے اندر حیات الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں کبھی فنا نہیں حضرت زینب، امام سجاد، ام البنین اور رباب وغیرہ وہ ہستیاں ہیں جنھوں نے سب سے پہلے امام حسینؑ پر عزاداری منعقد کی۔ اسی طرح کمیت اسدی اور دعبل خزاعی نے امام باقرؑ، امام صادقؑ اور امام رضاؑ کے زمانے میں امام حسینؑ کے غم میں بلند پایہ اشعار کہے ہیں۔ شروع میں عزاداری کی ان محفلوں میں امام حسینؑ کی مصیبت کو اشعار میں بیان کرنے کے ذریعے آپؑ پر گریہ و زاری کی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ ان محافل میں مرثیہ سرائی، نوحہ خوانی اور سینہ زنی وغیرہ بھی انجام پانے لگے۔ کربلا سے دور واقع ممالک میں عاشورا کے مراسمات کی رعایت زیادہ دقیق ہےکچھ علاقوں میں عشرہ محرم کے ہر دن کو کربلا کے کسی ایک شہید سے منسوب کر رکھا ہے اور اس دن اسی شہید کی عزاداری کرتے ہیں اور اسی شہید سے متعلق مصائب کو پڑھا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں میں ہر دن کے لئے مختلف مناسبتیں رکھی گئی ہیں
پہلی شب اور پہلی تاریخ: جناب مسلم بن عقیل کے مصائب۔
دوسری شب اور دوسری تاریخ: کربلا میں وارد ہونے کے مصائب۔
تیسری شب اور تیسری تاریخ: جناب سکینہ بنت امام حسینؑ کے مصائب۔
چوتھی شب اور چوتھی تاریخ: جناب زینب سلام اللہ علیہا کے بیٹوں کے مصائب یا جناب حر بن یزید ریاحی یا طفلان مسلم کے مصائب۔ یا مشہور صحابی جیسے جناب حبیب بن مظاہر اور زہیر بن قین بجلی وغیرہ کے مصائب۔
پانچویں شب اور پانچویں تاریخ: جناب علی اصغر یا اصحاب امام حسین کے مصائب۔
چھٹی شب اور چھٹی تاریخ: جناب قاسم بن حسن علیہ السلام کے مصائب۔
ساتویں شب اور ساتویں تاریخ: جناب علی اصغر علیہ السلام یا کچھ علاقوں میں حضرت عباس علیہ السلام , قاسم بن حسن علیہ السلام کے مصائب۔
آٹھویں شب اور آٹھویں تاریخ: حضرت علی اکبر علیہ السلام کے مصائب۔
نویں شب اور نویں تاریخ: حضرت عباس علیہ السلام کے مصائب پڑھے جاتے ہیں۔
دسویں شب اور دسویں تاریخ: دسویں تاریخ روز عاشورا ہے اور اس میں خود امام حسین علیہ السّلام سے متعلق مصائب پڑھے جاتے ہیں۔
دسویں کی شام: شام غریباں میں جناب زینب کے مصائب پڑھے جاتے ہیں۔ شام غریباں کے مراسم میں بہت ہلکی روشنی جیسے شمع کی روشنی میں عزاداری کی جاتی ہے۔شام غریبان، فارسی زبان و ادب میں عاشورا کی شام اور اس رات کی سوگواری کو کہتے ہیں۔ اس مجلس میں جو نوحے پڑھے جاتے ہیں وہ امام حسینؑ کے اہل بیت کی مصیبت اور واقعہ کربلا کے بعد بچوں اور اسیروں پر جو گزری اس کے بارے میں ہیں کہ اہل بیتؑ نے اندھیری رات کربلاکے بیابان میں کیسے گزاری۔دشمن کی فوج نے عاشورا کا سورج غروب ہوتے ہی عورتوں کو خیموں سے باہر نکال دیا اور خیموں کو آگ لگا دی۔اور اس وقت مستورات فریاد کرتی رہیں اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو دیکھ کر اپنے منہ پر پیٹتی رہیں۔عمر بن سعد نے شام عاشورا کو امام حسینؑ اورکربلا کے دوسرے شہداء کے سروں کوشمر، قیس بن اشعث اور عمروبن حجاج اور عزرۃ بن قیس کے ہاتھوں ابن زیاد کے پاس بھیج دیا۔ عمر سعد اپنے لشکر کے ہمراہ اس رات کربلا میں ہی رکا اور دوسرے دن ظہر کے قریب اپنے سپاہیوں کے لاشوں کو دفن کرنے کے بعد اہل بیتؑ اور دوسرے بچے ہوئے افراد کو لے کر کوفہ کی جانب حرکت کی۔ محرم کی گیارہویں رات جسے شام غریباں کہتے ہیں حضرت زینبؑ نے نماز شب ترک نہ کی لیکن اس مصیبت اور صدمے کے باعث اس رات نماز شب بیٹھ کر ادا کی۔قرائن اشارہ کرتے ہیں کہ عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ ملتان میں شروع ہوا جب وہاں تیسری صدی ہجری کے اوائل میں قرامطہ اسماعیلیوں کی حکومت قائم ہوئی اور یہاں مصر کے فاطمی خلفاء کا خطبہ پڑھا جانے لگا۔ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری/978ء عیسوی میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی ۔ محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں پر عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی رہی ہے۔ جنوبی ہندوستان میں یہ روایت دکن کی شیعہ مسلمان ریاستوں میں زیادہ منظم رہی اور برصغیر کا پہلا عاشور خانہ ,آج کل کی اصطلاح میں امام بارگاہ بھی وہیں قائم ہوا – مغلیہ دور کے سیکولر طرز حکومت میں محرم کی عزاداری کا بہت سے سیاحوں نے اپنے سفرناموں میں ذکر کیا ہے۔ محمد بلخی، جو یکم محرم 1035 ھجری/3 اکتوبر 1625ء کو لاہور پہنچا،لکھتا ہے:۔ “سارا شہر محرم منارہا تھا اور دسویں محرم کو تعزیے نکالے گئے،تمام دکانیں بند تھیں۔ اتنا رش تھا کہ بھگڈر مچنے سے تقریبا 50 شیعہ مسلمان اور 25 ہندؤ اپنی جان گنوابیٹھے”کچھ ایسا ہی منظر1620ء کے عشرے میں ڈچ تاجر پیلے سارٹ نے آگرہ میں دیکھا:۔”محرم کے دوران لوگ ماتم کرتے ہیں۔ ماتم کے لیے تعزیے بنائے جاتے ہیں کہ جنھیں خوب سجا کر شہر کی سڑکوں پر گھمایا جاتا ہے۔ جلوس کے وقت کافی شور و غوغا ہوتا ہے۔ آخری تقریبات شام غریباں کو ہوتی ہیں۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خدا نے پورے ملک کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا ہے”امام حسین نے ہندوستان میں متعدد گروہوں کے جذبات اور حسیات کو متحرک کیا۔نانپارا کے سنی مسلمان راجا نے اپنی صوبائی نشست پہ شیعہ علما کو رکھا ہوا تھا تاکہ وہ اس کو مصائب کربلا سنائیں۔ الہ آباد میں، سنّی مسلمان تعزیے اٹھایا کرتے تھے۔ دیہی مسلمان محرم کی رسومات میں اتنی بڑی تعداد میں شرکت کرتے تھے اور یہ رسومات بغیر فرقے کی تمیز کے ہوا کرتی تھیں شہری اور دیہی علاقوں میں، اکثر ہندؤ امام حسین کو بہت عزت و احترام دیتے تھے اور انھوں نے ان سے جڑی رسوم اور ایام کو اپنی رسومات میں خاص تقدیس کے ساتھ شامل کر لیا ۔ ڈبلیو ایچ سلیمن نے وسطی اور جنوبی ہندوستان کے ہندؤ شہزادوں اور یہاں تک کہ برہمن جات کے پنڈتوں کو محرم مناتے پایا۔ گوالیار ایک ہندؤ ریاست میں محرم عظیم الشان نمائش کے ساتھ منایا جاتا تھا سیاحوں نے ہندوؤں کو ریاست اودھ میں سبز لباس میں حسین کے فقیر بنے دیکھا۔ ایک ہندی اخبار نے جولائی 1895ء میں خبر دی۔’ محرم بنارس میں مکمل طور پہ امن و امان سے گذرا۔ ہندوؤں میں ایک گروہ حسینی براہمن بھی کہلاتا ہے جن کے مطابق ان کے آبا و اجداد میدان کربلا میں امام حسین ابن علی کے شانہ بشانہ لشکر یزید سے لڑے اور جاں بحق ہوئے۔ یہ گروہ باقاعدگی سے کربلا کی یاد مناتا ہے۔ ہندوستان کے سابق رجواڑوں میں بھی ہندو حضرات کے یہاں امام حسین علیہ السلام سے عقیدت اور عزاداری کی تاریخی روایات ملتی ہیں جس میں راجستھان، گوالیار، مدھیہ پردیش، اندھرا پردیشقابل ذکر ہیں۔ محرم میں اور اکثر مذہبی عبادتوں کے ایام میں لکھنؤ کے گلی کوچوں میں تمام گھروں سے پر سوز و گداز تانوں صدائیں بلند ہوتی تھیں تعزیہ داری چونکہ نوحہ خوانی کا بہانہ ہے اس لیے سنی اور شیعہ دونوں گروہوں کے گھروں میں نوحہ خوانی کے شوق میں تعزیہ داری ہونے لگی اور سنی مسلمان ہی نہیں، ہزارہا ہندو بھی تعزیہ داری اختیار کر کے نوحہ خوانی کرنے لگے” “مجلس کی نشست کی شان یہ تھی کہ لکڑی کا ایک ممبر جس میں سات آٹھ زینے ہوتے، دالان یا کمرے کے ایک جانب رکھا ہوتا اور لوگ چاروں طرف دیوار کے برابر پر تکلف فرش پر بیٹھتے۔ ذاکر صاحب ممبر پر رونق افروز ہو کر پہلے ہاتھ اٹھا کر کہتے، “فاتحہ”۔ ساتھ ہی تمام حاضرین ہاتھ اٹھا کر سورہ فاتحہ پڑھ لیتے۔ اس کے بعد اگر وہ حدیث خوان یا واقعہ خوان ہوتے تو کتاب کھول کر بیان کرنا شروع کرتے اکثر مجلسوں میں مختلف ذاکر ی کے بعد دیگرے پڑھتے اور عموما حدیث خوانی کے بعد مرثیہ خوانی اور اس کے بعد سوز خوانی ہوتی تھی۔ سوز خوانی چونکہ دراصل گانا ہے اس لیے اس کا رواج اگرچہ لکھنؤ ہی نہیں، سارے ہندوستان میں کثرت سے ہو گیا ہے۔