لاہور اگست22(ٹی این ایس) سن 2011 میں جب پنجاب میں ڈینگی کی وبا ءپھیلی تو اس نے حکومت اور عوام دونوں کو سراسیمگی میں مبتلا کر دیا تھا۔عوام بلکہ نوے فیصد خواص کے لیے بھی یہ نام بلکل نیا تھا ۔کئی روز تک حکومت پنجاب کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا کہ اس وبا ءسے نمٹا کیسے جائےتاہم ہمت مرداں مدد خدا کے مصداق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے اس معاملے کو اولین ترجیح پر رکھا اور اس کے تدارک کے لیے دن رات کام کیا۔حکومت کے لیے چیلینج نہ صرف یہ تھا کہ اس وباء کو روکا کیسے جائے بلکہ یہ بھی کہ متاثرین کو کیسے جلد از جلد صحت یاب کرایا جائے۔
اس موقع پر وزارت صحت اور دیگر اداروں کو ہنگامی بنیادوں پر متحرک کیا گیا جو اس ضمن میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔وبا ءکی وجوہات کے تعین کے بعد اسکے انسداد کی مہم بھرپور طریقے سے شروع کی گئی۔جس میں مریضوں کا صحیح سمت میں علاج و معالجہ کے علاوہ وباء کو پھیلانے سے روکنے کے لیے ان تمام معاملات کا سپرے بھی شامل تھا جہاں اس وباء کے محرک مچھر کےپیدا ہونے اور پنپنے کا احتمال ہوتا ہے۔
اس بھر پور مہم کی نگرانی کے لیے وزیرا علی پنجاب نے ٹیکنالوجی کے ذریعے مدد طلب کی ۔پنجاب انفارمیشن بورڈ(پی آئی ٹی بی ) کے چیئرمین ڈاکٹر عمر آصف کہتے ہیں کہ وزیر اعلی اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کی انسداد ڈینگی ہم بھرپور طریقہ سے جاری ہے،ہر روز علی الصبح بلائے جانے والے اجلاسوں میں متعلقین اور ذمہ داروں اپڈیٹ لیتے تھے اس ضمن میں انھیں وہ تمام تصاویر اور ویڈیوز کلپس دکھائی جاتی تھیں جو مہم سے متعلق تھیں ۔مہم کا ہدف ناصرف وہ مقامات تھےجہاں پانی کھڑا ہوتا بلکہ وہ گھر بھی جن کے افراد ڈینگی سے متائثر ہوئے تھے ۔
ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ وزیراعلی کا اس ضمن میں عزم و دلچسپی اس قدر تھی کہ انہوں نے مہم کی تصاویر پر ٹائم سٹمپ لگانے کی ہدایت کی تاکہ یہ یقینی ہو کہ تصویر میں دکھائی جا رہی کاروائی تازہ ہے۔ڈاکٹرآصف کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں وزیراعلی کی ہدایت پر پی آئی ٹی بی نے ایک موبائیل فون ایپلیکیشن بنائی جس کے ذریعے انسداد ڈینگی کی پوری مہم براہ راست رابطے میں آگئی ۔مہم میں مصروف سرکاری اہلکار جی پی ایس کے ذریعے ایپلیکیشن کے ساتھ منسلک ہو جاتے اس طرح اس آپریشن سے وابستہ تمام ٹیمیوں کی نگرانی ہوتی رہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وباء کی زد میں 21ہزار لوگ آئے تھے جن میں 350 سے زائد کی اموات واقع ہوئیں۔اگر حکومت پنجاب کی طرف سے منظم اور انتھک کوششیں کارفرما نہ ہوتیں تو یہ وبا ء تین ماہ سے تجاوز کر کے شاہد ہزاروں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل لیتی۔