اسلام آباد(ٹی این ایس) پاکستان ;ڈیجیٹل دہشت گردی روکنے کے لیے ڈیجیٹل ’فائر وال , پیکا ایکٹ نوٹی فکیشن جاری…؟

 
0
419

پاکستان میں ڈیجیٹل فائر وال سے ڈیجیٹل دہشت گردی روکنے کے لیے ایک کوشش قرار دی جا سکتی ہے ,سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اور شخصیات کیخلاف پروپیگنڈا کرنے والے ڈیجیٹل دہشت گرد تصور ہوں گے۔ وزارت قانون و انصاف نے پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات کے ٹرائل کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ۔ ضلعی عدالتوں کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی مشاورت سے اختیارات تفویض کردیے ۔ اسلام آباد کی سیشن کورٹس، ایسٹ اور ویسٹ کے ایڈیشنل سیشن ججز اور سول ججز کو مقدمات کے ٹرائل کا اختیار ہوگا۔


وفاقی حکومت کی نفرت پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کی تیاری جاری ہیں۔ سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں اورشخصیات کےخلاف پروپیگنڈہ کرنے والے ڈیجیٹل دہشتگرد تصورہوں گے ، وزارت قانون وانصاف نے پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات کے ٹرائل سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔ وفاقی کابینہ سےپیکا ایکٹ کے تحت ٹرائل کیلئے کورٹس کے قیام کی سرکولیشن کے ذریعے منظوری کا فیصلہ کیا گیا ۔ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ مذکورہ عناصر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کیلئے ضلعی عدالتوں کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی مشاورت سے اختیارات تفویض کردیے گئے۔ اسلام آباد سیشن کورٹس ایس اور ویسٹ کے ایڈیشنل سیشن ججز اور سول ججز کو مقدمات کے ٹرائل کا اختیار ہو گا۔اس سے پہلے یاد رکھیں کہ پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پریس کانفرنس میں فوج کے ادارے اور اس کی قیادت پر مبینہ فیک نیوز کی مدد سے تنقید کرنے والوں کو ’ڈیجیٹل دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان افراد کو قانون اور سزائیں ہی روک سکتی ہیں۔اس بیان کی اہم بات یہ تھی کہ پاکستان فوج کے شعبہ ابلاغ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل احمد شریف چودھری نے شدت پسندوں اور ’ڈیجیٹل دہشت گردوں‘ کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’دونوں کا ہدف فوج ہے۔’انھوں نے کہا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گرد فوج، فوج کی قیادت، فوج اور عوام کے رشتے کو کمزور کرنے کے لیے فیک نیوز کی بنیاد پر حملے کر رہے ہیں۔‘ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے یہ بھی کہا تھا کہ ’جس طرح ایک دہشت گرد ہتھیار پکڑ کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دہشت گرد موبائل، کمپیوٹر، جھوٹ، فیک نیوز اور پراپیگنڈے کے ذریعے اضطراب پھیلا کر اپنی بات منوانے کی کوشش کرتا ہے۔‘واضح رہے کہ پاکستان فوج کی جانب سے ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ کی اصطلاح اس سے قبل رواں برس مئی میں کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی استعمال کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا ’واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانا اور قومی اداروں کے درمیان اختلافات‘ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔دنیا بھر میں ’سائبر ٹیرارزم‘ (سائبر دہشت گردی) کی اصطلاح کا استعمال اکثر کیا جاتا ہے۔ ڈوروتھی ڈیننگ ایک مشہور امریکی محقق ہیں جو سائبر سیکیورٹی کے امور پر مہارت رکھتی ہیں۔ وہ ’سائبر ٹیررازم‘ کی تعریف کچھ یوں پیش کرتی ہیں: سیاسی یا معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے کمپیوٹرز یا ان سے منسلک نیٹ ورک پر کسی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لیے کیے گئے حملے سائبر ٹیرارزم کہلاتے ہیں۔۔کمپیوٹنگ میں، فائر وال ایک نیٹ ورک سیکیورٹی سسٹم ہے جو پہلے سے طے شدہ سیکیورٹی قوانین کی بنیاد پر آنے والے اور جانے والے نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی اور کنٹرول کرتا ہے۔اس ٹیکنالوجی سے متنازع مواد بنانے والے کا آئی پی ایڈریس بھی ٹریک کیا جاسکے گا,
یہ چین کی ’گریٹ فائر وال‘ کی طرز پر ایک نظام ہے جوپاکستان میں تمام آن لائن ٹریفک کی نگرانی کرے گا۔ڈیجیٹل فائر وال آن لائن معلومات کی فراہمی میں رکاوٹو ں کے حوالے سے تفصیلات کو ایک راز رکھا گیا ہے ,
اس معاملے پر حکام اپنا مؤقف دینے سے انکاری ہیں اور عوام کو محدود ڈیٹا فراہم کیا جا رہا ہے اس نظام کے طرزِ فعالیت کے حوالے سے معلومات انتہائی کم ہیں ,
ڈیجیٹل سیکیورٹی کے ماہر یں کہتے ہیں کہ رازداری کی وجہ سےمبہم خیالات اور قیاس آرائیاں گردش کررہی ہیں۔ یہ بالکل چینی فائروال جیسا نہیں بلکہ اس سے کچھ مختلف ہے ,
رپورٹ کے مطابق یہ فائروال ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی) کو استعمال کرے گا اور آئی پی لیول کی بلاکنگ کرے گا۔ڈیپ پیکٹ انسپیکشن , ڈی پی آئی آن لائن ڈیٹا پیکٹ کے ذریعے متنازع مواد کی نگرانی کرسکتا ہے اور جیسے ہی ایسا کوئی مواد ملے گا وہ اس متنازع مواد کو بھیجنے والے کا آئی پی ایڈریس بھی ٹریک کرلے گا۔ اس سے حکام کو اس مقام کو تعین کرنے میں مدد ملے گی کہ جہاں یہ متنازع مواد بنایا اور پھیلایا گیا۔
لیکن مختلف ممالک کے اعتبار سے مواد کی نوعیت میں بھی تبدیلی آئے گی کہ جسے متنازع سمجھا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر ترقی یافتہ معاشروں میں ایسی ٹیکنالوجی کو استعمال سنگین جرائم جیسے چائلڈ پورنوگرافی کی روک تھام کے لیے ہوتا ہے۔
پاکستان میں ممکنہ طور پر اس ٹیکنالوجی کا استعمال ڈیجیٹل دہشت گردی روکنے ,ریاست مخالف جذبات کو دبانے کے لیے ہوگا۔ یہ بات یقینی ہے، اس اقدام سے عام پاکستانی پر مزید سینسر شپ کا اطلاق ہوگا۔ڈیجیٹل دنیا کے حوالے سے ہماری پالیسی سازوں کی کم علمی حیران کُن ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر حالیہ پابندی بہترین مثال ہے۔ملک میں ایکس کی رسائی محدود کیے جانے کے باوجود بہت سے عام شہری اور تقریباً تمام حکومتی عہدیدران ورچول پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے ذریعے اس تک رسائی حاصل کررہے ہیں۔ اس سے واضح طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی لگانے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔
پابندی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر وی پی این کی خدمات فراہم کرنے والوں کے کاروبار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پابندی کے بعد سے پاکستان میں وی پی این سروسز کے استعمال میں 100 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں وی پی این کے نئے صارفین کی تعداد میں 400 فیصد اضافہ دیکھا گیاہے، گمشدگیوں جیسے انسانی حقوق کے مظالم کے خلاف وکالت کرنے والے اس فائروال کی زد میں آئیں گے‘۔ تاہم وی پی این صارفین تمام تر پابندیوں کے باوجود ممنوعہ مواد تک رسائی حاصل کرلیں گے اس طرح کی فائر والز کی تاثیر متضاد ہوتی ہے اگر کوئی فائروال بنا لی جاتی ہے تو اپنی سروسز کو اسی کے مطابق مزید بہتر بنائیں گے۔ ایکسپریس وی پی این نے تصدیق کی کہ سروسز چین میں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ اس سے فائروال کے مؤثر ہونے اور ایسی ٹیکنالوجی کی خریداری پر بھی سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔فائر وال ایک نیٹ ورک سیکیورٹی سسٹم ہے جو پہلے سے طے شدہ سیکیورٹی قوانین کی بنیاد پر آنے والے اور جانے والے نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی اور کنٹرول کرتا ہے۔جیسا کہ سوشل میڈیا کی آزادیوں اور “ڈیجیٹل دہشت گردی” کے ابھرتے ہوئے تصور کے گرد بحثیں گردش کر رہی ہیں، وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ایک جدید ترین قومی فائر وال کے اپنے منصوبوں کے ساتھ کوششیں کر رہی ہے۔یہ نئی کوششیں فیس بک، ایکس (ٹویٹر) اور یوٹیوب جیسے بڑے پلیٹ فارمز کو متاثر کرنے والے آن لائن سرگرمیوں پر حکومتی نگرانی اور کنٹرول کو بڑھا کر پاکستان کے ڈیجیٹل منظر نامے کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہیں۔ اگرچہ اس اقدام کو ‘ریاست مخالف پروپیگنڈے’ کے خلاف ایک کوشش کے طور پر تیار کیا گیا ہے، اس نے ڈیجیٹل آزادی، رازداری، اور پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے لیے مضمرات کے بارے میں ایک اہم بحث کو جنم دیا ہے۔فائر وال پہلے سے طے شدہ حفاظتی اصولوں کی بنیاد پر آنے والے اور جانے والے نیٹ ورک ٹریفک کی نگرانی اور کنٹرول کے ذریعے کام کرتا ہے۔ انٹرنیٹ گیٹ ویز پر نصب، فائر وال انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کرتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ صرف مجاز ڈیٹا ہی گزرتا ہے۔
انٹرنیٹ گیٹ ویز: فائر والز انٹرنیٹ گیٹ ویز پر رکھے جاتے ہیں جہاں اپ لنک اور ڈاؤن لنک ٹریفک کا انتظام کیا جاتا ہے، سیکورٹی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ ٹریفک کو فلٹر کیا جاتا ہے۔
اوپن سسٹمز انٹر کنکشن OSI ماڈل: اوپن سسٹمز انٹر کنکشن (OSI) ماڈل ایک 7 لیئر کمیونیکیشن فریم ورک ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ انٹرنیٹ پر پیغامات کیسے پہنچائے جاتے ہیں، فائر والز ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (DPI): فائر والز انٹرنیٹ ٹریفک کی تفصیلات کا معائنہ کرنے کے لیے DPI کا استعمال کرتی ہیں، بشمول کون سی ایپلی کیشنز استعمال کی جاتی ہیں اور اس میں شامل مخصوص پتے، پیغام بھیجنے والوں کی درست شناخت کی اجازت دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا ڈیٹا فلٹرنگ: ڈی پی آئی فائر والز کو سوشل میڈیا ڈیٹا کو فلٹر کرنے کے قابل بناتا ہے، صرف ایپلیکیشن لیول کے بجائے آئی پی لیول پر ڈیٹا کا انتظام کرتا ہے۔ مواد کا کنٹرول: فائر وال غیر مطلوبہ ویب سائٹس، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور مخصوص مواد کو بلاک کر سکتے ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ صرف مناسب ڈیٹا ہی گزرتا ہے۔
ماخذ کی شناخت: نظام مواد کی اصلیت کی نشاندہی کرنے میں فوری مدد فراہم کرتا ہے، IP ایڈریس کے ظاہر ہونے کے بعد مواد کے تخلیق کار کے خلاف کارروائی کی اجازت دیتا ہے۔

ڈیپ پیکٹ معائنہ کیا ہے؟ اور یہ واقعی کیسے کام کرتا ہے۔
پاکستان کے نئے فائر وال کے ممکنہ اثرات کو سمجھنے کے لیے، چین کے عظیم فائر وال کو دیکھنا مفید ہے، جو کہ ایک جامع ڈیجیٹل سنسرشپ نظام کی ایک نمایاں مثال ہے۔ گولڈن شیلڈ پروجیکٹ کے تحت 1996 میں شروع کیا گیا، گریٹ فائر وال ایک جدید ترین نظام ہے جسے انٹرنیٹ تک رسائی کو کنٹرول کرنے اور اختلافی خیالات کو دبانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
– انٹرنیٹ ٹریفک کا معائنہ: ممنوعہ مواد تک رسائی کو روکنے کے لیے چین میں داخل ہونے اور جانے والے تمام انٹرنیٹ ٹریفک کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
– ڈومین اور آئی پی بلاکنگ: مخصوص ڈومینز اور آئی پی ایڈریسز کو بلیک لسٹ کر دیا جاتا ہے تاکہ مخصوص ویب سائٹس تک رسائی کو روکا جا سکے۔
– مطلوبہ الفاظ کی فلٹرنگ: صارفین کو حساس معلومات تک رسائی سے روکنے کے لیے مخصوص مسدود اصطلاحات کی تلاش کو یا تو مسدود یا ری ڈائریکٹ کیا جاتا ہے۔
گریٹ فائر وال کے چین کے لیے کئی فوائد ہیں، جن میں بہتر سیاسی استحکام، سماجی کنٹرول، اور قومی سلامتی کا تحفظ شامل ہے۔ اس نے غیر ملکی مسابقت کو محدود کرکے اور چینی ثقافتی اقدار کے تحفظ کے ذریعے مقامی صنعتوں کی بھی حمایت کی ہے۔ تاہم، اسے آزادی اظہار کو دبانے اور عالمی معلومات تک رسائی کو محدود کرنے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان کی فائر وال: موجودہ منصوبے اور اخراجات,
پاکستان کا مجوزہ فائر وال سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں استعمال ہونے والے سسٹمز سے متاثر ہوگا۔ اس منصوبے کی مالی امداد جزوی طور پر حکومت اور جزوی طور پر انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز (ISPs) کے ذریعے کی جائے گی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ذرائع کے مطابق، ISPs پہلے ہی اپنے لائسنسنگ معاہدوں کے تحت غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کے پابند ہیں۔
حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود، فائر وال کے بارے میں تفصیلات نایاب ہیں۔ ماہرین اور ڈیجیٹل حقوق کے حامیوں نے شفافیت کی کمی اور اظہار رائے کی آزادی پر ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس منصوبے کے نفاذ کے بارے میں رازداری نے اس کے دائرہ کار اور تاثیر کے بارے میں قیاس آرائیوں اور غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے۔ آن لائن مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کی کوششیں پاکستان میں VPN کے استعمال میں نمایاں اضافے کے درمیان سامنے آئیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر حالیہ پابندی، مثال کے طور پر، VPN سبسکرپشنز میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ فوربس نے پابندی کے بعد سے VPN کے استعمال میں 100 فیصد سے زیادہ اضافے کی اطلاع دی ہے، کچھ ذرائع نے نئے VPN صارفین میں 400 فیصد اضافے کا حوالہ دیا ہے۔
VPNs صارفین کو پابندیوں کو نظرانداز کرنے اور مسدود مواد تک رسائی کا ایک طریقہ پیش کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بعض پلیٹ فارمز تک رسائی کو کم کرنے کی کوششوں کے باوجود، VPNs کا وسیع پیمانے پر استعمال سنسرشپ کے خلاف سخت مزاحمت کی نشاندہی کرتا ہے۔2024 کے لیے 7 بہترین اور سب سے زیادہ بھروسہ مند VPN سروسز – انٹرنیٹ ہے۔
مجوزہ فائر وال پاکستان میں ڈیجیٹل کنٹرول میں اضافے کے وسیع تر رجحان کی عکاسی کرتا ہے، ایک ایسا ملک جس میں آزادی اظہار سے متعلق انسانی حقوق کے خدشات کی تاریخ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات اصولوں کو کمزور کرتے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان فوج کی جانب سے ’ڈیجیٹل دہشتگردی‘ کی اصطلاح اس سے قبل رواں برس مئی میں کور کمانڈر کانفرنس کے اعلامیے میں بھی استعمال کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ڈیجیٹل دہشت گردی کا ’واضح مقصد پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلانا اور قومی اداروں کے درمیان اختلافات‘ پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے۔