طاقت اور عدالت کے گٹھ جوڑ نے ملک کو آمریت کے پنچوں میں جکڑ ا ہوا ہے، آئین و قانون سے ہٹ کرغلط اندازمیں کیاجانے والافیصلہ واپس لیاجائے، محمد نوازشریف

 
0
329

لاہور اگست 25(ٹی این ایس) مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم محمد نوازشریف نے مطالبہ کیاہے کہ آئین و قانون سے ہٹ کرغلط اندازمیں کیاجانے والافیصلہ واپس لیاجائے،میں نے فیصلے پر عملدرآمد کیالیکن تسلیم نہیں کیاجاسکتا، فیصلہ تاریخ بن گیا،سوال اٹھتے رہیں گے، ایوان اقبال میں وکلا برداری سے ملاقات کے بعد خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا  کہ ایک جماعت کی جانب سے اسلام آبادکے گھیراﺅ کے اعلان پر سپریم کورٹ نے سماعت شروع کردی ،اور پھر جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے ۔ انہوں نے کہا یہ فیصلہ بے تو قیر ہو چکا ہے ،فیصلے کے اثرات کا دکھ نہیں ماضی میں بھی اس طرح کے فیصلوں کا نشانہ بنا رہا ہوں ،صدیوں کا اصول ہے انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے۔سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے فیصلے سے عدلیہ کی ساکھ پر بھی منفی اثرات ڈلتے ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف نہیں بنتی ،ممکن ہے مجھ میں کمزوری ہو لیکن لیاقت علی خان سے لے کر آج تک کسی ایک کی تو بنتی ،کیا 18کے 18وزیراعظم نواز شریف تھے ؟۔نواز شریف نے کہا کہ ایک طرف منتخب وزیر اعظموں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا ،دوسری جانب آئین کو پامال کرنے والے کئی دہائیاں حکومتیں کرتے رہے ،افسوسناک پہلویہ ہے ہماری عدالتیں ڈکٹیٹر وں کے اقدامات کو شرف قبولیت بخشتی رہیں ،بلکہ آئین میں من پسند ترمیم کرنے حلیہ بگاڑنے کی کھلی چھٹی دیتی رہیں۔ایسے جج دیکھنے کو ملے جو آئینی حلف سے انحراف کرکے حلف اٹھایا کرتے ،طاقت اور عدالت کے گٹھ جوڑ نے ملک کو آمریت کے پنچوں میں جکڑ کر رکھا ۔اب یہ صورتحال بدلنا ہو گی اور ان سوراخوں کو بند کرنا ہوگا ،جہاں سے ڈسا جاتا ہے ۔

تفصیلات کے مطابق ایوان اقبال میں وکلا برداری سے ملاقات کے بعد خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے سوال کیے کہ کیا آج تک ایسا ہوا ہے کہ وٹس ایپ کالز پر پراثرار طریقے سے تفتیش کرنے والوں کا انتخاب کیا گیا ہو؟،کیا آج تک اس قسم کے الزامات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ نے اس طرح کی جے آئی ٹی تشکیل دی ؟،کیا اس سے پہلے قومی سلامتی اور دہشت گردی سے ہٹ کر کسی معاملے کی تحقیقکے لیے خفیہ ایجنسیوں کے ارکان کو ذمہ داری سونپی گئی ؟،کیا آ تک سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایسی جے آئی ٹی کی ہمہ وقت نگرانی کی ہے ؟کیا کسی درخواست میں دبئی کی کمپنی اور تنخواہ لینے کی بنیاد پر نا اہلی کی استدعا کی گئی ؟کیا کوئی بھی عدالت واضح ملکی قانون کو نظر انداز کر کے مطلب کے معنی تلاش کرنے کے لیے ڈکشنری کا سہارا لے سکتی ہے ؟کیا ہماری 70سالہ تاریخ میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک مقدمے میں 4فیصلے سامنے آئے ہوں ؟،کیا کبھی وہ جج صاحبان بھی پھر سے حتمی فیصلے والے بینچ میں شامل ہوئے جو پہلے ہی اپنا فیصلہ دے چکے ہوں ؟،کیا ان جج صاحبان کو بھی رپورٹ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دینے کا حق تھا جنہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ دیکھی تک نہیں اور نہ اس پر بحث سنی ،نہ سماعت کے مرحلے میں شریک ہوئے ؟کیا پوری عدالت تاریخ میں کبھی ایسا ہوا کہ نہ صرف نیب کی کارروائی بلکہ ٹرائل کورٹ کی مانیٹرنگ کے لیے بھی سپریم کورٹ کے ایسے جج کا تقرر کردیا جائے جو پہلے ہی خلاف فیصلہ دے چکا ہو ؟کیا سپریم کورٹ کے جج کی مانیٹرنگ کے نیچے ٹرائل کورٹ آزادانہ کام کر سکتا ہے ؟کیا نیب کو اپنے قواعد سے ہٹ کر کام کرنے کے لیے کوئی عدالتی ہدایت دی جا سکتی ہے ؟۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سوالات ہم نے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست میں بھی اٹھائے ہیںتا کہ غلط انداز میں کیا گیا یہ فیصلہ واپس لیاجائے ۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا معاملہ سامنے آتے ہیں سپریم کورٹ کے کسی عزت ماب جج کا کمیشن بٹھا کر تحقیقات کرانے کی پیشکش کی لیکن کئی ہفتے عدالت سے جواب نہ ملا ،پھر معاملہ ٹی او آر پر پھنس گیا ،اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی قائم کردی گئی لیکن اس پر بھی کوئی لچک نہ دکھائی گئی ،اصل مسئلہ یہ تھا کہ معاملے کو گلیوں اور سڑکوں پر لا کر کرائسز کی فضا پیدا کی جائے ۔ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل جب سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی درخواست دائر کی گئی تو عدالت اعظمیٰ نے اسے بے معنی قرار دے دیا ،پھر دھرنے اور اسلام آباد کو لاک ڈان کرنے کا اعلان ہوا تو فضول پٹیشن پر سماعت شروع ہو گئی ،بعد میں جو کچھ ہوا وہ سب جانتے ہیں ۔نواز شریف نے کہا کہ ہم نے پاناما کیس فیصلے پر عملد ر آمد پر ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی ،میں فوری طور پر اپنے منصب سے فارغ ہو گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک غلط مثال بنانے والے اس فیصلے کو قبول بھی کر لیا جائے ،ایسے فیصلے پر عملد ر آمد کے باوجود قبول نہیں کیا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ بے تو قیر ہو چکا ہے ،فیصلے کے اثرات کا دکھ نہیں ماضی میں بھی اس طرح کے فیصلوں کا نشانہ بنا رہا ہوں ،صدیوں کا اصول ہے انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا دکھائی دینا چاہیے ،بد قسمتی سے یہ ایسے فیصلے کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس میں سرے سے انصاف ہوا ہی نہیں ،قدم قدم پر دکھائی دیتا رہا کہ انصاف نہیں ہو رہا ۔سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے فیصلے سے عدلیہ کی ساکھ پر بھی منفی اثرات ڈلتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کہنے کو ہم جمہوری نظام میں رہتے ہیں لیکن یہاں ہر وزیر اعظم کو اوسطً دو سال سے زیادہ چلنے نہیں دیا گیا ،73کے آئین کے بعد آئین شکنی کو آرٹیکل 6کے تحت جرم قرار دیا گیا ،44سالوں میں 20سال ڈکٹیٹر وں نے حکمرانی کی باقی 24سال میں 12وزیراعظم آئے ۔انتخابی عمل کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو آیا ،پہلے ان کا تختہ الٹا دیا گیا پھر پھانسی چڑھا دیا گیا ،پھر بے نظیر آئی لیکن دونوں بار ان کی حکومت کو فارغ دیا گیا بلآخر قتل کردی گئیں ۔عوام نے تین بار نواز شریف کو محبت سے نوازا لیکن پہلے 58ٹو بی کی تلوار چلائی گئی ،دوسری بار ڈکٹیٹر نے وزیراعظم ہاوس سے اٹک قلعے میں ڈال دیا ،تیسری بار عدالت نے مجرم قرار دے کر نکال دیا ۔اس تاریخ کا حاصل یہ ہے کہ ستر سالوں میں ایک بھی وزیر اعظم آئینی مدت پوری نہیں کر سکا ۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اس صورتحال کی اصلاح ہونی چاہیے ،چاہے اسے تبدیلی کا نام دیں یا انقلاب کہیں ،اس مرض کا علاج ضروری ہو گیا ہے ،اس کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ میں ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ،سیاستدانوں ،وکلا ،دانشوروں ،مزدوروں ،سول سوسائٹی کے نمائندو ،اساتذہ اور صحافیوں سمیت مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کیا جائے گا ،اور اس مسئلے کے حل کے لیے کام کیا جائے گا ۔