(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس)آرمی چیف فتنہ الخوارج کے خاتمے کے لیے پر عزم,سانحہ اے پی ایس سے خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا پاکستان میں دہشت گردی کے دوبارہ بڑھتے ہوئے حملے، گھاتیں اور عسکری سرگرمیاں، جو کہ زیادہ تر فتنہ الخوارج اورذیلی انتہا پسند تنظیموںسے منسوب ہیں، ملک کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ کبھی تحلیل کے قریب سمجھی جانے والی انتہا پسند تنظیم نام بدل کر نئے روپ میں منظرعام پر آ جاتی ہے اور اس کی دوبارہ طاقت پکڑنے کی وجوہ ان پیچیدہ علاقائی حقائق پر دوبارہ جاننے کا اشارہ کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے ان عسکری گروپ کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا۔ ہر حملہ ان گنت خاندانوں کو پہنچنے والے دکھوں کو دوبارہ تازہ کرتا ہے اور ان کمیونٹیوں کو دوبارہ وہی زخم محسوس ہونے لگتے ہیں جنہوں نے ایک دہائی پہلے دہشت گردی کا سامنا کیا تھا۔اس خطرے کے وقت میں پاکستان کی سیاسی قیادت، سول سوسائٹی اور عوام کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ عزم کے ساتھ اکٹھا ہونا ہوگا۔ بے پروائی اور تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اتحاد اور عزم ہی ضروری ہیں تاکہ فتنہ الخوارج کا مقابلہ کیا جا سکے۔بنیاد پرستی کی وجوہ کو جڑ سے اکھاڑنے، ایک برداشت و رواداری پر مبنی ثقافت کو فروغ دینے اور مؤثر انسداد دہشت گردی کی حکمت عملیوں کو عملی جامہ پہنانے کے ذریعے پاکستان امن کی جانب گامزن ہو سکتا ہے۔

حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مؤثر عمل درآمد یقینی بنائے، انتہاپسندی کے بنیادی اسباب کو تعلیم، معاشی مواقع، سماجی ہم آہنگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے فتنہ الخوارج کے خاتمے کے لیے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا ہے آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ریاست کے خلاف مذموم سرگرمیوں، سہولت کاری اور مالی معاونت کرنے والوں کے خاتمے تک ان کا پیچھا کیا جائے گا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا کا دورہ کیا جہاں انہیں موجودہ سکیورٹی صورتحال اور انسداد دہشت گردی کی جاری کارروائیوں پر بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے افسران اور فوجی جوانوں کے ساتھ بات چیت کی اور دہشت گردی کا مقابلے کرنے والے جوانوں کی ثابت قدمی کو سراہا۔ اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھاکہ شہدا پاکستان کا فخر ہیں اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا، پاک فوج قوم کی حمایت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مل کر ملک میں امن و استحکام کی بحالی یقینی بنائے گی۔پاک فوج دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تمام شکلوں کو ختم کرنے کیلئے ثابت قدم رہے گی۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف افسران اور جوانوں کے عزم کو سراہا، انہوں نے مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کو قوم کے حقیقی ہیرو قرار دیا اور کہاکہ مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں کی بہادری پورے ملک کو متاثر کرتی ہے۔ جنرل عاصم منیر نے فتنہ الخوارج کے تعاقب کیلئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کیا اور کہاکہ ریاست کے خلاف مذموم سرگرمیوں، سہولتکاری اور مالی معاونت کرنے والوں کے خاتمے تک ان کا پیچھا کیا جائے گا۔آرمی چیف نے اہلکاروں اور افسروں کے عزم اور جذبہ کو سراہا۔واضح رہے کہ آرمی چیف کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ گزشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں چیک پوسٹ پر حملے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 8 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا تھا، تاہم فائرنگ کے تبادلے میں 16 جوان شہید ہو گئے تھے۔اس حملے کے حوالے سے آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ 20 اور 21 دسمبر کی درمیانی شب خوارج کے ایک گروپ نے جنوبی وزیرستان کے ضلع مکین کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملہ کرنے کی کوشش کی، سیکیورٹی فورسز نے حملے کو مؤثر طریقے سے ناکام بنا دیا اور فائرنگ کے تبادلے میں 8 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، تاہم شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران 16 بہادر جوانوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیا۔اس سے قبل آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے خیبر کے علاقے راجگال میں پاک۔افغان بارڈر پر فتنہ الخوارج کی در اندازی کی کوشش ناکام بنا دی تھی، فورسز کی کارروائی میں 4 خارجی مارے گئے تھے۔یاد رہے کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشتگردوں ,خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب اور قوم کومتحد کیا ہے۔آرمی پبلک اسکول پشاور میں 10 سال قبل سفاک دہشتگردوں نے علم کی پیاس بجھانے والے معصوم بچوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا، حملے میں معصوم طلباء سمیت 147 افراد شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 16 دسمبر 2014 کو 6 دہشتگرد دیوار پھلانگ کر آرمی پبلک اسکول میں داخل ہوئے، جدید اسلحہ سے لیس اور سرکاری اہلکاروں کی وردیوں میں ملبوث دہشتگردوں نے علم کی پیاس بجھانے والے طلباء پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کردی تھی جس سے معصوم طلباء اور بے گناہ اساتذہ خون میں لت پت ہوگئے اور پھولوں کی خوشبو سے مہکتا اسکول چند ہی لمحوں میں بارود کی بو سے آلودہ ہوگیا۔سکیورٹی فورسز نے فوری طور پر پہنچ کر اے پی ایس کا گھیراؤ کیا اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 خودکش حملہ آوروں کو طویل آپریشن کے بعد مار ڈالا، درندہ صفت دہشتگردوں کے حملے میں 122 معصوم طلباء سمیت 147 افراد شہید ہوئے، دہشتگردوں سے مقابلے میں دو افسروں سمیت 9 سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث 6 دہشتگردوں کو سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا جنہیں ملٹری کورٹس نے موت کی سزائیں سنائیں۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا اور قبائلی علاقوں سے دہشتگردی کا خاتمہ کیا گیا۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے نتیجے میں جہاں ملک سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوا وہیں علم دشمن عناصر کے ناپاک ارادے بھی خاک میں مل گئے۔سانحہ کے 10 سال ہونے پر خصوصی پیغام جاری کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نےشہدائے اے پی ایس کو خراج عقیدت پیش کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشتگردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں۔ اے پی ایس نے ہمیں دہشتگردی کے خلاف بحیثیت قوم متحد کیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عام شہریوں کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نےاپنے پیغام میں کہا کہ دہشتگرد 144 معصوم جانوں کو ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا کرگئے، وقت اس سانحے اور ان معصوم بچوں کی جدائی کا صدمہ مٹا نہیں سکتا۔ بیرونی ملک دشمن عناصر کی ایما پر دہشتگرد معصوم پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ سکیورٹی فورسز ملک دشمن عناصر سے ہمت اور جواں مردی سے نبرد آزما ہیں۔سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاورکے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قوم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ثابت قدم رہے گی، آنے والی نسلوں کومحفوظ بنائے گی۔ اے پی ایس سانحے نے ہمیں دہشتگردی کے ناسور کے خلاف متحد کردیا۔واضح رہے کہ 5 اگست 2024سے پاکستان کی حکومت نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے ’فتنہ الخوارج‘ جیسے الفاظ کا استعمال کریں۔ پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاتھا کہ حکومت نے حال ہی میں ایک اہم مراسلے کے ذریعے ٹی ٹی پی کو ’فتنہ الخوارج‘ کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے جس کے بعد اس دہشتگرد تنظیم کو اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے گا کیونکہ ’یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘حکومت کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری محکموں کو یہ بھی احکامات دیے کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے ’مفتی‘ یا ’حافظ‘ جیسے القابات نہیں استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے لفظ ’خارج‘ کا استعمال کیا جائے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق ’اس تبدیلی کا مقصد اس تنظیم (ٹی ٹی پی) کی اصل فطرت اور نظریات کی عکاسی کرنا ہے۔‘سوال یہ ہے کہ خوارج کی اصطلاح کب اور کیسے وجود میں آئی؟ اور خوارج کون تھے؟خوارج اسلام کے پہلے فرقے کے پیروکار ہیں جن کا اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں کردار یہ تھا کہ انھوں نے متواتر بغاوتیں کیں۔بعض روایات ہیں کہ خوارج کی ابتدا دورِ نبوی ہی میں ہو گئی تھی۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق خوارج کا جد امجد ذوالخویصرہ تمیمی تھا، جو پیغمبر اسلام کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا۔ اس پر انھوں نے اسے سخت وعید فرمائی تھی۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک موقع پر پیغمبر اسلام نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ ’یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘

چھید کر پار ہو جانے والے تیر کو عربی زبان میں المارق کہتے ہیں چونکہ پیغمبر اسلام نے ان کے دین سے نکل جانے کو اسی سے مشابہت دی ہے اس لیے انھیں مارقہ کہا جاتا ہے لیکن خوارج اپنے لیے اس لقب کو پسند نہیں کرتے۔ بعد ازاں مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے دور میں ان کی فکر پروان چڑھی اور پھر چوتھے خیلفہ کے دورِ میں ان کا عملی ظہور منظم صورت میں سامنے آیا۔ دائرہ معارف اسلامیہ کی آٹھویں جلد میں لکھا ہے کہ ’یہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے اختلاف کیا الحروریہ یا المُحکمہ (لا حُکم الااللہ، یعنی اللہ کے سوا کوئی حُکم نہیں دے سکتا) کہنے والے کہلائے۔ پھر اس نام کے وسیع مفہوم میں بعد کے تمام خوارج شمار ہو نے لگے۔‘ دائرہ کے مطابق یہ چھوٹا سا گروہ بعد کے انحرافات کی وجہ سے رفتہ رفتہ بڑھتا رہا خاص طور پر جب محاکمے کا فیصلہ ان کی توقعات کے برعکس ہوا ( یہ واقعہ غالباً فروری مارچ 658 کا ہے)۔جب اموی عہد کے اواخر میں مرکزی حکومت میں انحطاط آیا تو خوارج نے دوبارہ غارت گری شروع کر دی۔ غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ ڈیلَس امریکا سے منسلک محقق نعیم احمد بلوچ کہتے ہیں کہ خوارج کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ عباسی دور میں بظاہر ان کا خاتمہ ہو گیا مگر اصل میں وہ زیرِ زمین چلے گئے۔
دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق خوارج میں شاعری اور خطابت کا ذوق بھی پایا جاتا تھا لیکن وہ اپنی اخلاقی تشدد پسندی میں بہت مبالغہ کرتے ہیں۔ ’اگر کسی شخص سے کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہو جائے تو اس کے مومن ہونے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اسے مرتد تصور کرتے ہیں۔‘

’ان کی جماعت کا انتہا پسندانہ حصہ، جس کی نمائندگی ازارقہ کرتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ جو کوئی اس طرح کافر ہو جائے وہ اسلام کے دائرے میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا اور اس کے ارتداد کے جرم میں اس کی بیویوں اور بچوں سمیت قتل کر دینا چاہیے۔ وہ ان مسلمانوں کو جو خارجی نہیں مرتد سمجھتے ہیں۔‘ خوارج سے اتفاق کرنے والے اور ان کی نسل کے افراد اب بھی مراکش، یمن اور مصر میں پائے جاتے ہیں ۔ ’حال ہی میں القاعدہ، داعش اور طالبان کے بعض گروہ بھی خارجی اصولوں پر اور ان کے عمل کو درست سمجھتے ہوئے ان ہی کی طرح اپنی گوریلا وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خوارج ہی کے اصول پر تمام مسلمان دنیا کی حکومتوں کو کافر اور ان کے خلاف کارروائی کو درست سمجھتے ہیں۔‘خطے میں شدت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور ’جنگ نامہ‘ کے مصنف فخر کاکا خیل نے بتایا کہ تنازعات کے دوران زبان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ماضی میں اس زبان کے اثرات بھی دیکھے گئے ہیں۔ وہ روس اور افغانستان کی جنگ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روس کے خلاف لڑنے والوں کو ’جہادی‘ کہا جاتا تھا اور یہ لفظ ایک احترام کا لفظ تھا جسے مقدم جانا جاتا تھا۔’لیکن جیسے جیسے اہداف بدلتے ہیں، تنازع کے دوران استعمال ہونے والی زبان میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔‘ ان ہی ’جہادیوں‘ کے لیے مغربی میڈیا ’دہشتگرد‘ کا لفظ استعمال کیا کرتا تھا لیکن اب پھر طالبان کے لیے عسکریت پسند یا مسلح گروہ جیسے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔ تنازعات کے دوران استعمال ہونے والی زبان کے اثرات عوامی سطح پر بھی ہوتے ہیں۔ ’جب ایک لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے تو وہ زبان زدِ عام ہوجاتا ہے، اس سے تکلیف تو ہوتی ہے جیسا کہ ٹی ٹی پی کو ہوتی ہے ہ پاکستانی حکومت کے ان احکامات کا مقصد بیانیے کے محاذ پر ٹی ٹی پی سے مقابلہ کرنا ہے۔ امریکہ میں واقعہ تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی کے سینیئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے بتایا کہ ’پاکستانی ریاست اس گیم میں انتہائی تاخیر سے آئی ہے لیکن دیگر لوگ یہ سب دہائیوں سے کر رہے ہیں۔‘ ’فتنہ الخوارج‘ اور ’خارجی‘ جیسے الفاظ کے اسلام کی آمد کے ابتدائی زمانے میں انتہا پسندوں کے خلاف استعمال ہوتی تھیں۔













