اسلام آباد (ٹی این ایس) قائد اعظم کے پاکستان میں اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے اقدامات

 
0
25

(اصغر علی مبارک)

اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان میں اقلیتوں کو آئینِ پاکستان میں ضمانت کردہ تمام سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق حاصل ہیں۔ پاکستان نے اقلیتوں کو سیاسی،) سماجی اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کیلئے متعدد اقدامات کیے ہیںپاكستان كے 1973 كے آئین كی رو سے سیاسی اور مذہبی اقلیتوں كو ہر قسم كا تحفظ حاصل ہے- تمام شہری قانون كی نظر میں برابر ہیں – ریاست اقلیتوں كے جائز حقوق اور مفادات كی حفاظت كرے گی- انہیں وفاقی اور صوبائی ملازمتوں میں مناسب نمائندگی دی جائے گی- آئین میں وه تمام ضمانتیں موجود ہیں جو ایك جمہوری ملك میں اقلیتوں كے حقوق اور مفادات كے تحفظ میں دی جا سكتی ہیں،۔ حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی اقلیتیں آبادی کا تقریباً 3.7 فیصد ہیں، جن میں عیسائی، ہندو، احمدی، سکھ، پارسی، بدھ مت اور دیگر شامل ہیں۔ بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے 11 اگست 1947 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں ایک تاریخی تقریر میں اقلیتوں کے لئے مکمل مذہبی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ قائد اعظم کے ویژن کی پیروی کرتے ہوئے اقلیتوں کی خدمات اور ان کی شناخت کے اعتراف میں 11 اگست کو اقلیتوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔23 اکتوبر 2008 کو حکومت پاکستان نے 11 اگست کو پاکستان کا قومی ’یوم اقلیت‘ قرار دیا۔بانیِ پاکستان کی اس تاریخی تقریر کے 60 برس بعد 29 مارچ 2008 کو پاکستان کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کے نام اپنے پہلے خطاب میں اقلیتوں کے سیاسی، سماجی، قانونی، مذہبی اور دیگر حقوق کے تحفظ کا اعلان کیا اور کہا کہ ملک میں ہر سال اقلیتوں کا ہفتہ منایا جایا کرے گا۔ اس تاریخ کا انتخاب بانی پاکستان کی مذکورہ بالا تاریخی تقریر کے حوالے سے کیا گیا جو انھوں نے 11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں کی تھی۔اس حوالے سےحکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق نہ صرف 11 اگست 2009 کو پاکستان میں پہلی مرتبہ قومی یوم اقلیت منایا گیا بلکہ پانچ سے 11 اگست 2009 کا پورا ہفتہ ہی اقلیتوں کے ہفتے کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔ اس حوالے سے ملک بھر میں خصوصی تقریبات بھی منعقد کی گئیں اور 11 اگست 2009 کو پاکستان کے محکمہ ڈاک نے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا جس پر سینٹ پیٹرک کیتھڈرل کراچی، گوردوارہ ڈیرہ صاحب لاہور اور ہندو ٹیمپل ٹیکسلا کی تصاویر شائع کی گئی تھیں۔ اس ڈاک ٹکٹ پرہم سب کا خیال رکھتے ہیں کے الفاظ بھی تحریر تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 کی تقریر اقلیتوں کے حقوق کی آئینہ دار ہے بانی پاکستان نے اپنی تاریخی تقریر میں عقیدہ ذات اور مذہب سے قطع نظر اقلیتوں کے تحفظ اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق پر زور دیا بانی پاکستان نے کہا ہم سب آزاد شہری ہیں اور برابر کے شہری ہیں ان کی یہی تقریر آئین پاکستان کے آرٹیکل 20 سے 27 تک کی بنیاد بنی آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست تمام شہریوں بشمول اقلیتوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کےلئے موثر اقدامات کرئے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جوگندرناتھ منڈل کو پاکستان کا پہلا وزیر قانون بنا کر مذہبی رواداری کا ثبوت دیا مسیحی جج اے آر کارکارئیلنس اور ہندوجج رانا بھگوان داس چیف جسٹس آف پاکستان بنے اور اپنے منصفانہ اقدامات سے پاکستانیوں کے دل میں گر گئے آج اقلیتی طبقات سے تعلق رکھنے والی شخصیات پاک فوج اور بیوروکریسی میں اعلی عہدوں پرخدمات انجام دے رہی ہیں۔ پاکستان کا قیام اکثریت کی جانب سے اقلیت کے حقوق غصب کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا اس لئے یہ ممکن نہیں کہ کہ پاکستان میں موجود اقلیتوں کو ماضی یا کسی بنیاد پر تفریق کا نشانہ بنایا جائے۔

بانیِ پاکستان محمد علی جناح کو 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں کی گئی تقریر سےجو شہرت ملی، وہ کسی دوسری تقریر کے حصے میں نہیں آ سکی۔ بانیِ پاکستان کی یہ تقریر اُن کی خطابت کا شاہکارتھی محمد علی جناح نے اپنی اس تقریر میں دیگر باتوں کے علاوہ نوزائیدہ ملک میں بسنے والے اقلیتی عوام کو تحفظ دینے کا وعدہ کیا تھاقیام پاکستان کے اعلان کے بعد بانی پاکستان سات اگست 1947 کو کراچی تشریف لائے تھے، کراچی وہ شہر تھا جسے نئے ملک کا دارالحکومت بھی بننا تھا۔ 10 اگست 1947 کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس میں لیاقت علی خان کی تجویز اور خواجہ ناظم الدین کی تائید پر اسمبلی کے غیر مسلم رکن جوگندر ناتھ منڈل کو عارضی صدر منتخب کر لیا گیا اور ان کی تقریر کے بعد اراکین اسمبلی نے اپنی اسناد رکنیت پیش کر کے اسمبلی کے رجسٹر پر دستخط کیے۔ قائدِ ایوان کے انتخاب کے لیے سات ارکان نے محمد علی جناح کو نامزد کیا اور اتنے ہی ارکان نے نامزدگی کی تائید کی , کاغذات نامزدگی درست قرار دیئے گئے اور چونکہ کوئی اور امیدوار نہیں تھا اس لیے محمد علی جناح متفقہ طور پر دستور ساز اسمبلی کے صدر منتخب قراردیئے گئے محمد علی جناح کے قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد لیاقت علی خان، کرن شنکر رائے، ایوب کھوڑو، جوگندر ناتھ منڈل اور ابوالقاسم نے تقاریر کیں۔ اس کے ساتھ ہی ریاست ہائے متحدہ امریکا اور آسٹریلیا سے آئے ہوئے تہنیتی پیغامات پڑھ کر سُنائے گئے۔ بانیِ پاکستان کے سوانح نگار ہیکٹر بولائتھو نے اپنی کتاب جناح: پاکستان کا خالق’ میں لکھا ہے کہ ’قائد اعظم کا وہ خطبہ جو انھوں نے 11 اگست 1947 کو مجلس آئین ساز کے صدر کی حیثیت سے پڑھا، اس کے ذریعے انھوں نے یہ اعلان کیا تھاکہ پاکستان کے سب شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور اس معاملے میں مذہب و ملت کا کوئی امتیاز روانہ رکھا جائے گا۔’قائداعظم نے یہ تقریر انگریزی زبان میں کی تھی،بانی پاکستان کی یہ تقریر ان کی تقاریر کے سبھی مجموعوں میں موجود ہے جن میں سرکاری طور پر شائع کردہ مجموعہ قائد اعظم محمد علی جناح: تقاریر اور بیانات (1947-48) اور ’جناح پیپرز‘ کے نام سرفہرست ہیں۔اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔اسلام ایک ایسی فلاحی ریاست کے قیام پر یقین رکھتا ہے ،جس میں بسنے والے کسی بھی شہری کی جان ،مال اورعزت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو ۔اسلامی معاشرے میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اپنی مذہبی تعلیمات اور رسومات پر عمل پیرا ہونے کی مکمل اجازت ہوتی ہے اور اُن کو مذہبی اختلافات کے باوجود تمام بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کے پیروکار کو دینِ اسلام کی تبلیغ تو کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہیے مگر البقرہ کی آیت 256کے مطابق ان کو قبولیتِ اسلام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھنے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرمایا:”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں ،گرجے ،عبادت خانے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ڈھا دی جائیں ‘‘مذکورہ آیت اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور اہل ِ اسلام کو اقلیتوں کے ساتھ رواداری کے ساتھ رہنا چاہیے۔

غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات کی بنیاد انصاف اور عدل پرہے اور مسلمانوں کو اپنی اکثریت ،سماجی اور سیاسی حیثیت اور طاقت کا فائدہ اُٹھا کر غیر مسلموں کی حق تلفی نہیں کر نی چاہیے۔اگرکبھی مسلمان اور غیر مسلم کا کاروباری اور سماجی معاملات میں تنازع ہوجائے تو مسلمانوں کوصرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔اگر غیر مسلم اہلِ کتاب ہوں تو مسلمانوں کے معاملات ان کے ساتھ مزید بہتر ہونے چاہئیں۔سورہ مائدہ کی آیت 5میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنے کی بھی اجازت دی ہے ۔اہلِ کتاب کے دسترخوان سے پاک اور حلال کھانا کھانابھی مسلمانوں کے لئے درست اور جائزہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 46میں مسلمانوں کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اہل کتا ب سے مذہبی اختلاف کرنے کا حکم دیا ہے اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے جہا ں پر یہ حقوق اللہ کادرس دیتا ہے وہیں یہ حقوق العباد پر بھی زور دیتا ہے۔ حقوق العباد کے معا ملے میں یہ اتنا حساس ہے کہ حقوق اللہ تو اللہ تعالیٰ چاہیں تو معاف فر مادیں گے لیکن حقوق العباد اس وقت معاف نہیں ہو سکتے جب تک وہ بند ہ خود معاف نہ کر دے جس کے حقوق تلف کئے گئے ۔ سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 64میں ان کو کلمہ توحید کی بنیاد پرمسلمانوں کے ساتھ اکٹھے ہونے کی دعوت دی ہے ۔ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس حقیقت سے بھی باخبر کردیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب مسلمانوں سے اُس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک مسلمان ان کی ملت کو اختیار نہیں کرلیتے ۔اہلِ کتاب کی اس کجروی کے باوجوداہلِ اسلام کوان سے نرمی کا برتاؤ جاری رکھنا چاہیے اور ان کو متواتر دین حق کی دعوت دیتے رہنا چاہیے۔اس تبلیغ ِ دین کے نتیجے میں مختلف ادوار میں بہت سے باشعور مسیحی اوریہودی افراد نے اسلام کی دعوت کو قبول کیا اور تاحال کر رہے ہیں ۔اسلام حقوق العباد میں نہ صرف اپنے ماننے والوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لو گوں کو بھی امن وسلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ نبی رحمت حضورؐ کا خطبہ حجتہ الوداع جو انسانی حقوق کے لیے عالمی منشور ہے اور ایک ایسا منشور ہے کہ اس سے پہلے نہ ایسا منشور کسی نے دیا ہے اور نہ اس کے بعد کوئی دے سکتا ہے۔ یہ منشور اسلامی ریاست کی بنیادی کڑی ہے جس میں رہنے والے باشندے دو حصوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک وہ جو اسلام کے ماننے والے ہیں یہ مسلمان کہلاتے ہیں دوسرے وہ جو اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کو مانتے ہیں جیسے مسیحی ،یہود،ہنود،سکھ وغیر ہ ان کو ذمی کہا جاتا ہے یا ان کو اقلیت سے بھی تعبیر کیا جا تا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام کے ما ننے والوں نے ہمیشہ اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور ان حقوق کا خیال بھی رکھا فاتح بن کر جب مسلمان کسی ملک میں داخل ہو ئے تو انہوں نے نہ صرف ان لو گو ں کی عبادت گا ہوں کا خیال رکھا بلکہ ان کے گھروں اور ان کے جان ومال ،عزت وآبرو اور ان کی زرعی زمینوں کے تحفظ کو بھی مقدم جا نا۔ دین اسلا م نے اپنے ماننے والوں پر ابتدا ء ہی سے یہ واضح کر دیا جو بھی غیر مذہب تمھارے مقابلے پر نہ آئے اور تمھارے خلاف سازشیں نہ کرے اور تمھارے دشمنوں کا ساتھ نہ دے اور تمھیں نقصان پہنچانے میں ملوث نہ ہو اور تمھارے ساتھ معاہدے کے مطابق پا سداری کرتے ہوئے امن وآشتی سے رہے تو اس کی عزت وآبرو ،جان ومال اور املاک کاتحفظ تم پر ایسے ہی فر ض ہے جیسے ایک ادنی مسلمان کی جان ومال ،عزت وآبرو کا تحفظ ہے۔ اگر تم ذرہ برابر بھی فر ق کرو گے تو کل تمھیں اللہ تعا لی کی عدالت میں جواب دینا ہو گا حضور پا ک ؐ نے تو یہاں تک اپنے ماننے والوں کو فر ما یا کہ کسی بوڑھے پر ،عورتوں پر،بچوں پر حتیٰ کہ وہ شخص جس کے قبیل کے لوگ تم سے مقابل ہوں اور وہ تمہارے خلاف میدا ن میں نہ آئیں تو ان پر تمھیں ہاتھ اٹھا نے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اپنی عبادت گاہ میں عبادت میں مصروف ہو تو اس پر بھی تم ہتھیا ر نہیں اٹھا سکتے ۔اگر تم فاتح بن جا ئو تو پھربھی ان لو گوںکی عبادت گاہوں اور املاک کو نقصان پہنچانے ، کھیتیوں اور پھل دار سر سبز وشاداب درختوں کے کاٹنے سے بھی میں(خدا کا پیغمبر) تمھیں منع کر کے جا رہا ہوں۔ حا لت جنگ میں ہر حریف کی کوشش ہو تی ہے کہ دو سرے حریف کو زیا دہ سے زیاد ہ نقصان پہنچائے لیکن نبی دوعالم ،مجسمہ رحمتؐ ، حا لت جنگ میں بھی صحابہ کرام ؓ کو جو ہدایات دے رہے ہیں وہ انسان تو انسان چرندوں پرندوں کو بھی تحفظ فراہم کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔کوئی جر نیل بھی اپنی فو ج کو ایسی ہدایات نہیں دیتا جو سر کار دو عالمؐ نے صحابہ کرام ؓاور اپنے ماننے والوں کو دی ہیں۔ یہ تعلیمات سب کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں,