(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کے لیےسمندری تجارت کا سب سے موزوں راستہ فراہم کرتا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں نے تجارت کے لیے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال میں دلچسپی کا اظہار کیا، بندرگاہوں میں جدید نظام اور رسائی میں بہتری سے پاکستان اربوں ڈالر زرمبادلہ حاصل کرسکتا ہے پاکستان کی معیشت مستحکم اور ترقی کی جانب گامزن ہے، برآمدی صنعت کی ترقی کے لیے برآمدکنندگان کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں وفاقی وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ حکومت میری ٹائم چیلنجزسے نمٹنے کیلئے جدیدخطوط پر کام کررہی ہے۔اسلام آباد میں کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیرنے کہا کہ میری ٹائم سیکٹرمعاشی ترقی میں منافع بخش کرداراداکررہاہے،اس شعبے سے ہم بہترمعاشی ترقی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ان کاکہنا تھا کہ ہماری بندرگاہیں وسط ایشیائی ریاستوں تک آسان رسائی کیلئے اہم ہیں،گوادرپورٹ سے پائیدار معاشی ترقی کیلئے بحری تجارت کا فروغ اہمیت کاحامل ہے،
عالمی معاشی نظام کامیری ٹائم پر انحصار اور بحری تجارت کا معیشت میں بنیادی کردار ہے، اس لئے بحری تجارت کا تحفظ ہمارا مشترکہ فرض ہے، دنیا بڑی معاشی تبدیلیوں سے گزررہی ہے، آج تجارتی ٹیرف بڑاچیلنج بن کر سامنے آیاہے، سمندری تجارت کے تحفظ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنا ہم سب کا اجتماعی فرض ہے۔ عالمی معاشی نظام میری ٹائم پر انحصار کرتا ہے، پاکستان کی معیشت میں بحری تجارت کو ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت حاصل ہے۔ ہماری95 فی صد سے زائد عالمی تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے ۔ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی فعالیت سے میری ٹائم سیکٹر میں آنے والی تیزی سے پاکستان کی بحری تجارت میں کئی گنا اضافہ ہو گا کیونکہ ہماری بحری راہداریوں کو علاقائی ربط کی منفرد اہمیت حاصل ہے۔کُل بحری تجارت کی صرف 16فی صد ترسیل پاکستان کے تجارتی جہازوں کا بیڑہ کرتا ہے جبکہ بقیہ ترسیل بین الاقوامی جہازوں کے ذریعے ہوتی ہے۔
پاک بحریہ، مستقبل میں پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر میں ہونے والی ترقی کی ضروریات کا مکمل ادراک رکھتی ہے ۔ آج کی عالمگیر دنیا میں بحری تجارت اہم کر دار اداکر رہی ہے کیونکہ یہ دنیا بھر میں معاشرتی تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور اُن کو آپس میں جوڑتی ہے۔بحری تجارت کا پیمانہ اور اس کی حد ، جو حجم کے لحاظ سے دنیا کی تجارت کا 80فی صد اور مقدارکے لحاظ سے 70فی صد ہے، اس کے اہم کردار کی دلیل ہے۔ بحرہند عالمی تیل اور گیس کے 50فیصد ذخائر رکھتا ہے، بحری تجارت کا معیشت میں بنیادی کردار ہے، بحری شعبے میں درپیش غیر روایتی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اجتماعی اقدامات ناگزیر ہیں، انہی سے ملکی معیشت جڑا ہوا ہے۔ پاک بحریہ علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اہم کردارادا کر رہی ہے، مصنوعی ذہانت اورٹیکنالوجی کے انقلاب نے عالمی منظر نامہ بدل دیا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان میری ٹائم اینڈ سی پورٹ اتھارٹی کے قیام سمیت میری ٹائم سیکٹر پر ٹاسک فورس کی اہم سفارشات کی منظوری دے دی۔ منظور ہونے والی سفارشات کے مطابق وزارت بحری امور اور کے پی ٹی تجاویز پیش کرکے قوانین میں ترمیم کے لیےکابینہ سے منظوری لیں گے۔ وزیراعظم نے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور گوادر پورٹ اتھارٹی میں پروفیشنل چیف ایگزیکٹو آفیسرزکی تقرری اور نیشنل لاجسٹکس سیل کو پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کے کاروباری ماڈل تیار کرنے کی ہدایت کی۔ پی این ایس سی کے حصص کی آف لوڈنگ یا مکمل نجکاری پر تجاویز شامل ہیں، یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی خریداروں کے بجائے پاکستان کے نجی شعبے کو پی ین ایس سی میں حصص کی پیشکش کی جائے گی۔ ٹاسک فورس کی سفارشات میں پی این ایس سی کو فوری طور پر اپنے بیڑے کو جدید جہازوں سے تبدیل کرنے اور بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔پاکستان نیوی نے ایک دہائی قبل جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن اینڈ کوآرڈینیشن سنٹر (JMICC) قائم کیا تھا جس کے اب بہت اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں کیونکہ اس سے باون کے قریب قومی اسٹیک ہولڈرز اور گیارہ بین الاقوامی سٹیک ہولڈرز منسلک ہیں۔ گزشتہ سال ہونے والی اس سلسلے کی پہلی مشق کے نتیجے میں تمام اداروں کا آپس میں اعتماد مضبوط ہوا ہے۔ اس میکانزم کی بدولت پچھلے ایک سال میں ساٹھ سے زائد قیمتی جانوں کو اب تک بچایا جا چکا ہے جو اس کوآرڈینیشن کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس کے علاوہ اینٹی نارکوٹکس اور غیر قانونی سمندری سفر کے علاوہ دیگر کئی سانحات کو روکنے میں بھی اس پلیٹ فارم نے بہت مدد کی ہے۔ یہ مشق چوبیس سے اٹھائیس فروری تک جاری رہے گی جس میں نئی سمندری راہوں اور منزلوں کا تعین کیا جائے گا اور انھیں محفوظ اور سود مند بنانے کے لئے درست اقدامات کیے جائیں گے۔پاکستان کی سمندری حدود بلوچستان اور سندھ سے متصل ہیں جس کی وجہ سے پنجاب اور دیگر صوبوں کے لوگوں کو سمندری زندگی اور اس سے جڑے مسائل سے بہت کم واقفیت حاصل ہے جبکہ ہمارا میڈیا بھی اس حوالے سے بہت کم رپورٹنگ کرتا ہے جس کی وجہ سے عوامی معلومات اور شعور اس سلسلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنے نہری نظام کو میری ٹائم سے منسلک نہیں کیا ہے ورنہ اس شعبے کو فروغ دے کر نئے اور کار آمد مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں اور سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولے جا سکتے ہیں جس سے میری ٹائم کے شعبے میں عوامی شعور بھی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ دریائے سندھ اور دیگر بڑے دریاؤں اور نہروں کو صرف آبپاشی کے لئے ہی نہیں بلکہ دیگر کئی صنعتی، تجارتی، سپورٹس اور تفریحی مقاصد کے لئے بھی استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ میری ٹائم سے وابستہ تمام سیکیورٹی اور سول اداروں کو مل کر ایک حکمت عملی طے کرنے کی ضرورت بڑی دیر سے محسوس ہو رہی تھی اور امید ہے کہ پاک بحریہ کے تحت منعقد ہونے مشق سی گارڈ اس سلسلے میں ایک مثبت پیش رفت ثابت ہوں گی کیونکہ سمندر میں کسی ایک ادارے کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ متعدد قومی سٹیک ہولڈرز ہوتے ہیں اور ہر ایک کی اپنی اہمیت اور اپنا کردار ہے۔ معلومات اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کسی بھی طرح کے سمندری چیلنجز سے نمٹنے میں بہت اہم کردار کا حامل ہوتا ہے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے اسے مزید فعال اور فول پروف بنایا جا سکتا ہے۔ اپنی نوعیت کی اس منفرد مشق کا یہ سیکنڈ ایڈیشن ہے جس میں میری ٹائم کے شعبے سے منسلک تمام سول و سیکیورٹی ادارے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں گے اور کسی بھی واقعے یا حادثے کی صورت میں بلا رکاوٹ معلومات کی فراہمی اور موثر اقدامات کو یقینی بنانے کے لئے مل کر کام کریں گے۔یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ پاکستان بحریہ نے سرکاری و غیر سرکاری میری ٹائم اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے ایک جامع حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت ہر سال تمام اداروں کی ایک مشترکہ ایکسرسائز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 2024 سے شروع ہونے والی اس مشق کا بنیادی مقصد ان اداروں کی صلاحیتوں کو مزید تقویت دینا اور باہمی ہم آہنگی اور رابطوں کو مزید مضبوط بنانا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی دوسری ایکسرسائز ہے جو امسال 24 سے 28 فروری منعقد ہو رہی ہے جس میں سمندری سیکیورٹی، سمندری چیلنجز، ماحولیاتی مسائل اور خاص طور پر سمندری آلودگی سے نمٹنے کے لئے حکمت عملیوں پر غور کیا جائے گا۔جدید دور میں میری ٹائم سیکیورٹی کی سائنسی بنیادوں پر تنظیم ایک مستقل ڈسپلن بن چکا ہے۔
دنیا کا ہر ملک اپنی سمندری سرحدوں کی حفاظت اور اس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے کوشاں ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں سمندر سے وابستہ درجنوں ادارے کام کرتے ہیں اس طرح پاکستان میں بھی متعدد ادارے ہماری بحری سرحدوں کی حفاظت اور دیگر تجارتی امور کو فروغ دینے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ یہ تمام اسٹیک ہولڈرز مل کر ملک کی سمندری حدود کا نہ صرف دفاع کر رہے ہیں بلکہ سمندری وسائل کو بہتر طریقے سے بروئے کار لانے کے لئے شبانہ روز کاوشیں کر رہے ہیں۔ پاکستان میں میری ٹائم کے حوالے سے ایک وفاقی وزارت تک قائم ہے جس سے اس شعبے کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بحری اور ساحلی دفاع کے ذمہ دارا داروں پاک بحریہ، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی اور پاکستان کوسٹ گارڈز کے علاوہ میری ٹائم سے متعلقہ درجنوں ادارے جن میں گورنمنٹ شپنگ آفس، کراچی پورٹ ٹرسٹ، کورنگی فش ہاربر، میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ، پاکستان میرین اکیڈمی، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، گوادر پورٹ اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان کسٹم جیسے ادارے ملک کے بحری شعبے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔.بندرگاہوں کو ان کی مکمل استعداد کے مطابق استعمال نہ کرنے، ٹیکس چوری، بدعنوانی، جعلی بلنگ، افغان تجارتی راہداری کے غلط استعمال اور ویلیو ایڈیشن کے فقدان کے باعث پاکستان کو میری ٹائم سیکٹر میں سالانہ پانچ ہزار ارب روپے (18 ارب ڈالرز) کا نقصان ہو رہا ہے۔ اعلیٰ سطح کی ٹاسک فورس کی مرتب کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایک باخبر سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ پورٹس کو مکمل استعداد کیساتھ استعمال نہ کرنے سے سرکاری خزانے کو 3190 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ میری ٹائم شعبے میں ٹیکس چوری سے 1120ارب، جعلی بلنگ اور بدعنوانی کی وجہ سے 313 ارب، ٹرانس شپمنٹ (ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ یا پھر وسطی ایشیا یا چائنا جیسے مقامات پر سامان کی منتقلی کا عمل) سے متعلق پابندیوں کی وجہ سے 70 ارب، گوداموں کی کمی اور ویلیو ایڈیشن کی قلت سے 196 ارب، جبکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سسٹم کے غلط استعمال سے سالانہ 60 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جا چکی ہے۔ اس میں افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ زبردست صلاحیتوں اور جیو اسٹریٹجک فوائد کے باوجود پاکستان اصل صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر سکا۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بھی بندرگاہ دنیا کی بہترین 60 بندرگاہوں میں شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق، عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے کراچی پورٹ ٹرسٹ 61 ویں جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 146ویں نمبر پر ہے۔ گزشتہ 10برسوں میں پاکستان میں پورٹ سروسز کی طلب میں سالانہ 3.3؍ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ ملک کی مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی کل صلاحیت (125 ملین ٹن) کا صرف 47؍ فیصد استعمال کر رہی ہے۔ یہ ملک کی درآمدات اور برآمدات کا 60 فیصد سے زائد حصہ ہے جبکہ گزشتہ پانچ برسوں میں ٹیکس کی وصولی 660؍ سے 1470؍ ارب روپے تک کے درمیان رہی ہے۔ پورٹ قاسم اتھارٹی ملکی کارگو کا 35؍ فیصد سنبھالنے والی دوسری مصروف ترین بندرگاہ ہونے کے باوجود اپنی صلاحیت کا کل 50؍ فیصد ہی استعمال کر رہی ہے جو 89؍ ملین ٹن ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں بندرگاہ سے جمع کیا جانے والا ٹیکس 690؍ ارب سے 1140؍ ارب روپے تک کے درمیان رہا ہے۔ پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد گوادر پورٹ اتھارٹی (جی پی اے) کی موجودہ صلاحیت 25؍ لاکھ ٹن ہے جو بندرگاہ کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کے بعد یعنی 2045ء تک بڑھ کر 40؍ کروڑ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پاکستان کی ساحلی پٹی اقتصادی لحاظ سے اس کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دیگر وجوہات کے علاوہ بحیرہ احمر کا بحران بھی پاکستان کے میری ٹائم سیکٹر کیلئے جیو اسٹریٹجک فائدہ سے فائدہ اٹھانے کا نادر موقع ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بات عالمی کمپنیاں مثلاً مرسک، ڈی پی ورلڈ اور ہچیسن پورٹس نے تسلیم کی ہے او ریہ کمپنیاں پاکستان کے ذریعے تجارت کرتے ہوئے اپنے مالی مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر سمندری اور متعلقہ شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 19؍ لاکھ تربیت یافتہ سیلرز (Seafarers) عالمی جہاز رانی کی صنعت میں کام کر رہے ہیں۔ پاکستان ماضی میں تربیت یافتہ سمندری سیلرز کی موزوں تعداد فراہم کرتا رہا ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یہ تعداد کم ہوئی ہے۔ مکران اور سندھ کے ساحلوں کے ساتھ متنوع علاقہ جات میں بے پناہ صلاحیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ٹاسک فورس نے یہ بھی تجویز دی کہ شاندار ساحلی مقامات، تاریخی مقامات، آثار قدیمہ کے مقامات، قدیم مذہبی مقامات وغیرہ اگر درست انداز سے ترقی یافتہ ہوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ یوں تو سیاحت کے نقطہ نظر سے بھی بہت زیادہ آمدنی حاصل کر سکتے ہیں۔ رپورٹ میں پاکستان کے دو لاکھ 40؍ ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ کے خصوصی اقتصادی زون کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے جسے اقوام متحدہ نے باضابطہ طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ یہ زون سمندر کی تہہ میں موجود وسائل سے مالا مال ہے جن میں تیل، گیس، اور دیگر معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ان وسائل کی تلاش اور قومی معیشت میں انضمام کیلئے اہم انسانی وسائل، بنیادی ڈھانچے اور پالیسیوں کے تسلسل کے ساتھ ایک سوچے سمجھے اور طویل مدتی منصوبے کی ضرورت ہے۔













