اسلام آباد (ٹی این ایس) حکومت کا ایک سال ,لیڈر شپ با کمال …کارکردگی بے مثال

 
0
252

اصغر علی مبارک

اسلام آباد (ٹی این ایس) شہباز شریف حکومت کی کامیابی کا ایک سال …لیڈر شپ با کمال, کارکردگی بے مثال رہی ,وفاقی حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے خصوصی اجلاس ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے خصوصی اجلاس کی صدارت کی ، وزیراعظم نے کابینہ ارکان عوام کے سامنے کارکردگی پیش کی ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے 2029 تک ملکی برآمدات 60 ارب ڈالر تک بڑھانے ، 2035 کے وژن کے تحت ملک کو ایک ٹریلین کی معیشت بنانے اور قرضوں سے جان چھڑانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی ختم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں ، ہم 9 مئی والے نہیں 28 مئی والے ہیں، ملک سے ضد، نفرت، گالم گلوچ اور احتجاج کی سیاست کو دفن کرنا ہو گا، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ملکی ترقی کیلئے کام کرنا ہو گا،آئی ایم ایف معاہدے کیلئے ملکر کام کیا میں اور آرمی چیف دوست ممالک کے پاس گئے ،ملک سے دہشتگردی ختم ہوگی تو سرمایہ کاری آئیگی،ہماری حکومت کو سال مکمل ہوگیا ہے لیکن اپوزیشن ہمارے خلاف کوئی جھوٹا سکینڈل بھی سامنے نہیں لا سکی ، ایک سالہ مدت میں برآمدات، ترسیلات زر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوا ، مہنگائی کی شرح 28 فیصد سے 1.6 فیصد پر آ گئی ،پاکستان کو اقوام عالم میں کھویا ہوا مقام دلائیں گے انہوں نے حکومت کاسال مکمل ہونے پر وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ایک سالہ کارکردگی عوام کے سامنے پیش کی ۔

اجلاس میں وزرا نے اپنی اپنی وزارت اور دیگر شعبوں کی کارکردگی پر رپورٹ پیش کی۔ اجلاس میں زندگی کے مختلف شعبوں بشمول کاروباری حضرات، چیمبرز کے نمائندگان، صحافیوں، خواتین، طلبہ اور دیگر شعبوں سے شہریوں کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ خود مشاہدہ کریں اور ایک سال کے حکومتی اقدامات اور آئندہ لائحہ عمل سے آگاہ ہوں۔وزیراعظم نے کہاامید ہے نئے وزراکی شمولیت سے مجھے ، حکومت اور عوام کو انکی محنت، لگن اور جذبے سے فائدہ پہنچے گا۔ ہم رمضان المبارک کی برکات سے فیض یاب ہو رہے ہیں، یہ مہینہ ہمیں انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کرنے کا درس دیتا ہے ، اسی جذبہ کے تحت گذشتہ سال رمضان میں سات ارب کا پیکیج دیا گیا تھا جسے بڑھا کر رواں سال 20 ارب کر دیا گیا، چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے 40 لاکھ خاندانوں میں ڈیجیٹل والٹ سے پانچ، پانچ ہزار روپے شفاف طریقہ سے تقسیم کئے جائیں گے ، اس ڈیجیٹل نظام سے نہ تو لائنیں لگیں گی اور نہ یوٹیلیٹی سٹورز ارے غلط خبریں آئیں گی۔وزیراعظم نے کہا یہ ماہ مقدس اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ فلسطین اور کشمیر کے عوام کے ساتھ بھرپور اظہار یکجہتی کیا جائے ، غزہ میں 50 ہزار سے زائد افراد شہید کئے جا چکے ہیں، کشمیر کی وادی کشمیریوں کے خون سے سرخ ہو چکی ہے ، غزہ میں جنگ بندی کے باوجود ماہ رمضان میں امداد اور خوراک کو بند کرنے سے بڑا کوئی ظلم ہو نہیں سکتا، اس پر بھرپور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ، انشا اﷲرمضان المبارک کی برکات سے کشمیری اور فلسطینی عوام کو ان کا حق جلد ملے گا۔ انہوں نے کہا ایک سال پہلے ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی تھی اور ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکی تھی ہم نے بروقت اقدامات سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، جب آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو اسے خطوط لکھے جا رہے تھے کہ پاکستان کیلئے پروگرام منظور نہ کیا جائے ، اس سے بڑی ملک دشمنی کوئی نہیں ہو سکتی، آج ہم نا صرف ڈیفالٹ سے نکل آئے ہیں بلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور تمام عالمی ادارے کہہ رہے ہیں پاکستان کے میکرو اقتصادی اشاریے استحکام کی سمت میں گامزن ہیں اور معیشت کی ترقی کا سفر جاری ہے ، ہم نے یکسوئی کے ساتھ محنت کرنی ہے ۔حکومت ملک و قوم کیلئے بہتری کیلئے کوشاں ہے ، اپنے قائد نواز شریف اور پی ڈی ایم دور کے اپنے اتحادیوں کے بھی شکرگزار ہیں اسکے علاوہ موجودہ اتحادیوں صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو ز، چودھری شجاعت ، سالک حسین، ایم کیو ایم، باپ پارٹی، ڈاکٹر عبدالمالک کی جماعت اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ عبدالعلیم خان کی ہمیں بھرپور حمایت حاصل ہے ، انکے تعاون سے ہم نے مشکل ترین مراحل عبور کئے ہیں، ہر مشکل میں ساتھ دینے پر اتحادیوں کے مشکور ہیں۔ ہماری کامیابی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے ، ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ مکمل یکسوئی کے ساتھ کسی ذاتی ایجنڈا سے بالاتر ہو کر تمام ادارے متحد ہو کر ملکی ترقی کیلئے کام کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کو مکمل کرنے کیلئے وفاقی وزرا اور سرکاری افسروں نے دن رات محنت کی، آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پانچ ارب ڈالر کے انتظام کیلئے دوست ممالک نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے ، آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی معاشی بہتری کیلئے بھرپور کردار ادا کیا اور ہم نے اس سلسلہ میں دوست ممالک کے دورے بھی کئے ۔کچھ دن پہلے ہی سعودی عرب نے ہماری 1.2 ارب ڈالر کی تیل کی سہولت میں توسیع کی ، یو اے ای کے صدر محمد بن زید النہیان نے بھی 2 ارب ڈالر رول اوور کر دیئے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ 2018 میں اسحاق ڈار جب وزیر خزانہ تھے تو اس وقت افراط زر کی شرح 3.1 فیصد تھی اب وہ نائب وزیراعظم ہیں اور افراط زر کی شرح 1.6 فیصد پر آ گئی ہے ۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ملکی ترقی کیلئے ملکر کام کرنا ہو گا، غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر جو ایک سال پہلے چار ارب ڈالر تھے اب 12 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں،برآمدات میں اضافہ ، مہنگائی کم ہو رہی ہے ، آئی ٹی برآمدات اور ترسیلات زر میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔وزیراعظم نے کہا ایک سال میں اپوزیشن کوئی جھوٹا سکینڈل بھی حکومت کے خلاف سامنے نہیں لا سکی، اس سے بڑی ہماری اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے ،ترقی اور خوشحالی کے سفر میں اب مزید تیزی آئے گی، تبھی اڑان پاکستان بنے گا جب ملک سے خوارج کا مکمل خاتمہ ہو گا۔ ماضی میں دہشتگردی کا خاتمہ ختم ہو گیا تھاسب جانتے ہیں دہشت گردی نے دوبارہ کیسے سر اٹھایا، کس نے دہشتگردوں کو واپس آنے کی اجازت دی، وہ کون تھا جو دہشت گردوں کو واپس لے کر آیا، سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر اور جوان جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دہشتگردوں کا صفایا کر رہے ہیں، یہ قربانیوں کی لازوال داستان ہے ، دہشتگردی کا خاتمہ کئے بغیر ترقی و خوشحالی کا سفر جاری نہیں رہ سکتا،خصوصی اجلاس میں متعلقہ وزراء، خزانہ، توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں کی ایک سالہ کارکردگی پر رپورٹ پیش کی۔ خصوصی اجلاس میں زندگی کے مختلف شعبوں بشمول کاروباری حضرات، چیمبرز کے نمائندگان، خواتین، طالبعلموں اور دیگر شعبوں سے شہریوں کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ اجلاس کا مشاہدہ کریں اور پچھلے ایک سال میں حکومتی اقدامات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے آگاہ ہوں۔حکومت کی ایک سالہ کارکردگی میں سب سے نمایاں یہ ہے کہ ملک سے ڈیفالٹ کا خطرہ ٹل گیا حکومت کے قیام کے بعد سب سے اہم چیلنج ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا اور حکومت اس میں کامیاب ہوئی ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام میں کامیابی ملی اور دوست ممالک نے قرضوں کی ادائیگی میں رعایت دی،حکومت کی گزشتہ ایک سال کی معاشی کارکردگی بہت بہتر رہی ہے، موجودہ حکومت نے فروری سے جون تک آئی ایم ایف کا ایک اسٹینڈ بائی قرض پروگرام کامیابی سے مکمل کیا، اور جولائی 2024 میں آئی ایم ایف سے نیا 7 ارب ڈالر کا قرض پروگرام حاصل کرلیا۔ آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی وجہ سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے، روپے کی قدر مستحکم ہوئی اور غیر ملکی امدادی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بحال ہوا، اسی اعتماد کی وجہ سے عالمی بینک نے بھی پاکستان کے ساتھ 10 سال کا کنٹری پارٹنرشپ معاہدہ کیا، جس کی صورت میں پاکستان کو آئندہ 10 سال میں 20 ارب ڈالر کی فنڈنگ دستیاب ہوگی آئی ایم ایف کے قرض پروگرام کی وجہ سے حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی، اور رائٹ سائزنگ کے اہداف پر بروقت عمل درآمد کیا گیا۔گزشتہ ایک سال میں حکومت نے مہنگائی کو بھی کنٹرول کیا، شرح سود میں بھی کمی کی، اور اسٹاک ایکسچینج میں بھی مثبت رجحان رہا تاہم جس اکنامک گروتھ کے بڑھنے کی ضرورت ہے وہ اس معیار کی نہ ہو سکی۔ حکومت کے ایک سال میں پاکستانی عوام نے معاشی بہتری کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دی، عوام بجلی کے مہنگے معاہدوں کے کیپیسٹی چارجز ادا کرتے رہے، تنخواہ دار طبقہ اضافی ٹیکس کے بوجھ میں دبا رہا،حکومت نے مہنگائی تو کم کرلی لیکن معاشی ترقی ایک فیصد سے بھی زیادہ نہ ہوسکی اس سال بھی حکومت کو یہ چیلنج رہے گا کہ کسی بھی طرح گروتھ کو بڑھایا جا سکے، اگر ملک میں سیاسی استحکام رہتا ہے اور پالیسیوں میں تسلسل برقرار رہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ رواں سال حکومت کی کارکردگی میں اکنامک گروتھ بھی نظر آئے گی پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کارپوریٹ سیکٹر کی شرح سے عائد کیا گیا، چاروں صوبائی اسمبلیوں نے زرعی آمدن پر انکم ٹیکس کے لیے ضروری قانون سازی کی، موجودہ حکومت کے دور میں گزشتہ ایک سال کے دوران شرح سود میں مسلسل کمی ہوئی، جس کی وجہ سے پیداواری لاگت کم ہوئی اور چھوٹے پیمانے پر صنعتوں کو فروغ ملا۔ یاد رکھیں کہ وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے، اس موقع پر وزیراعظم نے ایک تقریب کا انعقاد کیا جس میں وفاقی کابینہ اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی پیش کی گئی۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد پر آگئی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 48 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ایک سال میں برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، کراچی اسٹاک مارکیٹ نے 22 سال میں بہترین منافع کیا اور 100 انڈیکس میں 84 فیصد کا اضافہ ہوا اور شرح سود میں 900 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں اور ترسیلات زر 17 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں,اعداد و شمار کے مطابق ملک کی تعریف میں پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب 21 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 10 مارچ کو بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، صدر کے خطاب کے ساتھ ہی دوسرے پارلیمانی سال کا آغاز ہو جائے گا۔
ایوان صدر نے حکومت سے صدر آصف زرداری کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل ایک سالہ کارکردگی کی رپورٹ مانگ لی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت کریں گے، عسکری قیادت، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ سمیت صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کو بھی مشترکہ اجلاس دیکھنے کی دعوت دی جائے گی۔صدر اپنے خطاب میں حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے اہم نکات کا ذکر کریں گے، صدر نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں حکومت کی طرف سے اہم اعلانات کریں گے، صدارتی تقریر کی تیاری حکومت نے شروع کردی ہے۔نئے پارلیمانی سال کے آغاز میں حکومت تنخواہ دار اورمحدود آمدنی کے طبقات کے لئے فراخدلانہ مراعات کا اعلان کرے گی جن کی یقین دہانی حکومت کے دوسرے سالانہ بجٹ میں کرادی جائے گی جن میں تمام رعایات کی تفصیل شامل ہوگی۔ حکومت کے ان اقدامات کا اعلان صدر آصف علی زرداری کے اس خطاب کاحصہ ہوگا جوآئینی تقاضے کی تکمیل کے لیے وہ نئے پارلیمانی سال کی شروعات کے لیے 10مارچ کو دونوں پارلیمانی ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے کریں گےصدر کی تقریر میں حکومت کے اہم معاشی اقدامات کے نتائج کا بھی ذکر ہو گا۔ صدر اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین سمیت اہم علاقائی و عالمی امور پر بھی اظہار خیال کریں گے۔ اپوزیشن کے متوقع احتجاج کے پیش نظر صدر کے خطاب کا دورانیہ 20 سے 25 منٹ ہو گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے حکومت کا ایک سال مکمل ہونے پر کابینہ کے خصوصی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ ایک سال پہلے ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی تھی لیکن آج ہم نہ صرف ڈیفالٹ سے نکل آئے ہیں بلکہ آئی ایم ایف سمیت تمام عالمی ادارے ہمارے میکرو اکنامک اشاریے مثبت ہونے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اگر ایک سالہ حکومتی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ درست ہے کہ اس دوران حکومت کی معاشی میدان سمیت کئی شعبوں میں کارکردگی بہتر رہی ہے۔ زمامِ اقتدار سنبھالتے ہی حکومت کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا تھا ان میں معیشت سرفہرست تھی۔ آئی ایم ایف کے عبوری ریلیف پیکیج کے بعد نومنتخب حکومت کو سب سے پہلے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنا تھے۔ حکومتی کاوشوں سے جولائی 2024ء میں سٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا اور ستمبر میں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کیلئے سات ارب ڈالر کے نئے پیکیج کی منظوری دیدی گئی۔ اس ایک سال میں سٹاک مارکیٹ نے نئے تاریخی سنگ میل عبور کیے۔ افراطِ زر‘ جو مئی 2023ء میں 38 فیصد کی سطح پر پہنچ چکا تھا‘ دسمبر 2024ء میں کم ہو کر 4.1 فیصد تک آ گیا اور اب 1.5 فیصد کی شرح پر ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بیشتر عرصے میں سرپلس رہا‘ اگرچہ درآمدات میں اضافہ ہوا مگر ترسیلاتِ زر میں اضافے سے کرنٹ اکائونٹ کو سہارا ملا۔ اس دوران سب سے اہم کام ادارہ جاتی اصلاحات کا شروع ہونا ہے‘ جس سے ڈیڑھ لاکھ وفاقی ملازمتوں میں کمی کر کے حکومتی اخراجات کم کیے گئے۔ اگرچہ رائٹ سائزنگ اور اخراجات کٹوتی کا زور حکومتی سطح پر کم ہی دیکھنے کو ملا مگر یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سلسلے کا آغاز تو ہوا۔ اگر خارجہ تعلقات کی بات کی جائے تو وہاں بھی حکومت نے کامیابی سمیٹی۔ گزشتہ برس اکتوبر میں چینی وزیراعظم کا دورہ‘ گزشتہ ماہ ترک صدر کا دورۂ پاکستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کا کامیاب انعقاد حکومت کی بڑی سفارتی کامیابیاں ہیں۔ البتہ اس دوران ہونے والے معاشی معاہدوں کے حوالے سے ابھی نمایاں پیشرفت سامنے نہیں آ سکی۔ دوسری جانب امن عامہ کی صورتحال دیکھی جائے تو ملک کے مغربی صوبوں میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھی گئی۔ گزشتہ ایک سال میں اس میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ 2024ء میں گزشتہ سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں لگ بھگ 50 فیصد جبکہ سکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی شہادتوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ وزیراعظم نے دہشت گردی میں اضافے کی وجہ طالبان کے ساتھ مبینہ معاہدے کو قرار دیا‘ جس کے تحت انہیں دوبارہ ملک میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی مگر یہ موقف زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا گزشتہ برس جولائی میں حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے آپریشن عزمِ استحکام پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے اے پی سی بلانے کا عندیہ دیا تھا مگر تاحال اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اور اس کی وجہ ہے سیاسی عدم استحکام۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ریاستی کارپرداز کے بجائے عملاً دو متحارب دھڑے بن چکے ہیں۔ اسی وجہ سے ملک کے دونوں ایوان نامکمل ہیں۔ ۔ قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا معاملہ اور سینیٹ میں کے پی کی سیٹوں کا انتخاب تعطل کا شکار ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کے مذاکرات بھی بے نتیجہ رہے اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی نہیں آ سکی۔ مختصراً یہ کہ اپنے پہلے پارلیمانی سال میں حکومت نے کئی اہم اہداف حاصل کیے ہیں مگر ایک جمہوری و پارلیمانی نظام کی کامیابی تب ہوتی ہے جب درپیش مسائل کا حل منتخب ایوان میں باہمی مکالمے سے اور مل بیٹھ کر نکالا جائے