اسلام آباد (ٹی این ایس) دہشت گردی اور پارلیمان کی ذمہ داری

 
0
6

(اصغر علی مبارک)
اسلام آباد (ٹی این ایس) حکومت نے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے ملک میں بڑھتی دہشت گردی پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیاہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں کو پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی میں تبدیل کرکے بند کمرہ مشترکہ اجلاس بلانے پر مشاورت شروع کردی ہے اجلاس میں اعلیٰ عسکری قیادت اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہ کو مدعو کیا جائے گا، وفاقی وزراء سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کے سربراہان بھی شریک ہوں گے۔ عسکری قیادت خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وجوہات پر بریفنگ دے گی، ان کیمرا اجلاس میں اراکین پارلیمنٹ کے سوالات کے جواب بھی دیئے جائیں گے۔ اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز میں تیزی لانے سے متعلق فیصلے متوقع ہے۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی نیشنل ایکشن پلان ٹو کی تجویز کا جائزہ لیا جائے گا۔ سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ عیدالفطر کے بعد تحریک چلانے کا فیصلہ کریں گے ، ریاست خطرے میں ہے، موجودہ سیاسی صورتحال میں نواز شریف اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔یہ یاد رکھیں کہ پلڈاٹ نے سال 2024-25ء کے لیے قومی سلامتی کمیٹی کی کارکردگی کی سالانہ جائزہ رپورٹ جاری کی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ)کی طرف سے جاری کی جانے والی قومی سلامتی کمیٹی کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ جو 5 مارچ 2024ء سے لیکر 4 مارچ 2025ء تک کے دورانیے کے کے دوران پاکستان کے حکومتی ڈھانچے میں ایک پریشان کن رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
قومی سلامتی کونسل جو 2013ء میں قومی سلامتی کے فیصلہ سازی کے لیے بنیادی فورم کے طور پر قائم کیا گیا تھا، اس نے پورے سال کے دوران ایک بھی اجلاس نہیں بلایا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے قیام کے بعد 25-2024 ء ایسا پہلا سال بن گیا جب کمیٹی کا اجلاس ایک بار بھی نہیں بلایا گیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے 17-2013کے دوران اپنے دور حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے صرف آٹھ اجلاس بلائے جبکہ شاہد خاقان عباسی (اگست2017 ء سے مئی ء2018 کے دوران) نے اس تعداد میں نمایاں اضافہ کیا اور اوسطا قومی سلامتی کمیٹی کے ہر سال تقریبا 10 اجلاس منعقد ہوئے، سابق وزیر اعظم عمران خان 2018-22ء نے سالانہ اوسطا قومی سلامتی کمیٹی کے تین اجلاس بلائے جب کہ شہباز شریف نے 2022ء سے 2023ء کے اپنے سابقہ دور حکومت میں اوسطا سالانہ پانچ اجلاس بلائے تاہم گزشتہ سال 2024ء میں موجودہ مسلم لیگ (ن)کی زیرقیادت مخلوط حکومت جس نے مارچ 2024ء میں اقتدار سنبھالا خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور بلوچستان دونوں میں بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات خاص طور پر دہشت گردی سے متعلق متعدد واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے باوجود بھی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں ہوا۔
پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ پارلیمانی قومی سلامتی کمیٹی کا بند کمرہ اجلاس جمعرات کو طلب کیے جانے کا امکان ہے جس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کریں گے۔ اجلاس کے لیے پورے ہاؤس کو سلامتی کمیٹی میں تبدیل کیا جائے گا، اعلیٰ عسکری قیادت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑھتی وجوہات پر بریفنگ دے گی جبکہ اراکین کے سوالات کے جواب بھی دیے جائیں گے۔یاد رہے کہ 6 دسمبر 2021 حکومت نے ملکی تاریخ کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ تیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پہلی مرتبہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا سکیورٹی پالیسی میں ملک کی معیشت کی سکیورٹی، فوڈ سکیورٹی، ملٹری سکیورٹی، پانی کی سکیورٹی، معیشت کی سکیورٹی، خارجہ پالیسی، آبادی میں اضافہ اور دہشت گردی شامل ہے
یہ یاد رکھیں کہ24 دسمبر 2021 کوسابق سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھا کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور کہا گیا تھاسیز فائر ہو گیاتھا, ریاست کو بتانا ہوگا کہ کن شرائط پر ٹی ٹی پی کے ساتھ سیز فائر ہواتھا۔ سینیٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر رضا ربانی نے کہا تھاکہ پاکستان کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہونا ہوگا، ریاست مزید خفیہ معاہدوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ,ریاست کی پالیسی افغانستان کی طرف درست ہے یا نہیں اس پر بات نہیں کرتا لیکن کالعدم ٹی ٹی پی کے گروپ افغانستان میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں جو دہشتگردی پھیلائیں گے, رضا ربانی نے نینشل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’نیشنل ایکشن پلان پر دوبارہ بحث ہونی چاہیے، اس پر عملدرآمد ہونا چاہیے, یہ یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور اربوں کا نقصان بھی ہوا۔این ڈی ایس نے را کی مدد کی اور افغانستان میں بھارت کا کردار بہت منفی رہا۔ بھارت نے افغانستان میں بہت انوسٹمنٹ کی لیکن اس کی نیت افغانوں کی مدد نہیں بلکہ پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا۔بھارت نے افغانستان میں فوج کا کردار منفی رہا اور اس نے وہاں کی حکومت، فوج اور عوام کے ذہنوں میں زہر بھرا۔ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کا جس طرح خاتمہ ہوا اس کی کسی کو توقع نہیں تھی افغانستان میں 15 اگست2021 کے بعد صورت حال میں غیرمتوقع تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں اشرف غنی حکومت کا گر جانا بھی شامل تھا 15 اگست2021 سے قبل افغانستان کی فوج کے اہلکار محفوظ راستے کی تلاش میں دو سے زائد بار پاکستان میں داخل ہوئے تھے، افغانستان کی فوج کے اہلکار طالبان سے خوفزدہ تھے پاکستان نے فوجی اصولوں و ضوابط کے مطابق واپس بھجوایاتھا۔ وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ کوئی شک نہیں پاکستان میں دہشتگردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کا ہاتھ ہے، را دہشت گردوں کی ماں کاکردار ادا کررہی ہے، سفاکانہ کارروائیوں کیلئے فنڈز اور اسلحہ فراہم کررہی ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشتگرد گروہوں کی سوچ اور خیالات آپس میں نہیں ملتے، ان سب کو را نے اکٹھا کیا ہے، را دہشت گردوں کی ماں کاکردار ادا کررہی ہے، سفاکانہ کارروائیوں کیلئے فنڈز اور اسلحہ فراہم کررہی ہے ۔ وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ہمسایہ افغانستان جس کی پناہ گزینوں کی شکل میں ہم نے سالہاسال مدد کی ہے، افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں، مگر افغان حکومت پروکسی کا کردار ادا کررہی ہے، دہشتگردوں کو جس قسم کی سہولت فراہم کی ہوئی ہیں، ان کی مدد سے وہ دہشتگردی کی کارروائیاں کرتے ہیں جوکہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ کارروائی ہوتی ہی انڈیا نے پروپیگنڈا شروع کردیا اور ساتھ ہی ہمارے ملک کی ایک سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا بھی بھارتی میڈیا کے ساتھ شروع ہوگیا اور انہوں نے اس چیز کو اس طرح ابھارا جیسے یہ کوئی بہت بڑا واقعہ ہوگیا اور خدانخواستہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے مگر ہماری فورسز نے جیسے ہی آپریشن شروع کیا، تمام دہشتگردوں کو چند گھنٹوں میں جہنم واصل کردیا ، اب جائے وقوعہ پر سب کی رسائی ہے، آزاد میڈیا بھی وہاں گیا ہے، سب نے دیکھا ہے کہ ٹرین کے تمام مسافر بازیاب ہوچکے ہیں جبکہ 26 لوگ شہید ہوئے ہیں جن میں 18 جوان پاک فوج سے ہیں۔ گرینڈ آپریشن کی صرف بات بنی ہوئی ہے، کسی گرینڈ آپریشن کی نہ کوئی ضرورت نہیں اس سے بڑا گرینڈ آپریشن کیا ہوگا کہ روزانہ کی بنیاد پر بیسیوں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہورہے ہیں اور دہشتگرد مارے جارہے ہیں، اسی آپریشن سے دہشتگردی کنٹرول ہوگی اور دہشت گرد نیست و نابود ہوں گے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 1 اکتوبر 2021 کوسابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھاکہ حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔عالمی نشریاتی ادارے کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ’اصل میں پاکستانی طالبان کے کچھ گروپس امن اور مفاہمت کے لیے پاکستان کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی کچھ گروپوں کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا تھاکہ کیا افغان طالبان ان مذاکرات میں مدد کر رہے ہیں توسابق وزیر اعظم پاکستان کا کہنا تھا کہ چونکہ مذاکرات افغانستان میں ہورہے ہیں اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان کی مدد سے ہورہے ہیں۔ خیال رہے اس و قت کے پاکستان کے صدر اور وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دیں تو حکومت اس کے ارکان کو عام معافی دینے کے لیے تیار ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی ایک منظم تحریک ہے جو گروپ بندی کا شکار نہیں تحریک کی صرف ایک اجتماعی پالیسی ہے اس پالیسی سے کوئی بھی انحراف نہیں کر سکتا۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی کا کہنا تھا کہ ‘تحریک طالبان پاکستان نے کہیں پر بھی فائربندی کا اعلان نہیں کیا۔‘ ’بامعنی مذاکرات کے متعلق ہماری پالیسی واضح ہے۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ ’معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔واضح رہے جب 2007 میں کئی مسلح تنظیموں کے مجموعے کے طور پر ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی اضلاع میں سامنے آئی تھی اور پاکستانی فوجیوں اور سویلین افراد کو قتل کرنا شروع کیا تھاتو حکومت پاکستان نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ ٹی ٹی پی نے راولپنڈی میں پاکستان آرمی کے ہیڈ کوارٹرز پر حملہ کیا تھا اور پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سو سے زائد بچوں کو قتل کیا تھا۔ اسی گروپ ہی نے ملالہ یوسفزئی پر حملے کی ذمہ داری بھی قبل کی تھی۔سابق وزیر اعظم کے بیان پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل دیا تھا۔ پی پی پی نے ان مذاکرات کے حوالے سے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو بے خبر رکھنے پر حکومت پر کڑی تنقید کی تھی,ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل طور پر فعال ہیں اوراپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔کوئٹہ میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا تھااور جعفر ایکسپریس پر دہشت گردوں کے حملے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیاتھا ترجمان پاک فوج نے پریس کانفرنس کے دوران بتایاتھا کہ جعفر ایکسپریس ٹرین حملے میں 354 مسافروں کو بازیاب کرایا گیا جب کہ 26 افراد شہید 37 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ انھوں نے واضح کیا تھا کہ دہشت گردوں کے پاس کوئی یرغمالی مسافر نہیں ہے اور نہ ہی آپریشن کے دوران کوئی مسافر مارا گیا جو لوگ شہید ہوئے، انھیں دہشت گردوں نے آپریشن سے پہلے شہید کیا ہے۔انھوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملہ انتہائی دشوار گزار علاقے اور راستے میں ہوا۔ دہشت گردوں نے 11 مارچ کو ایک بجے کے قریب دھماکے سے پٹڑی تباہ کرکے ٹرین کو روکا تھا۔ دہشت گرد ٹولیوں کی شکل میں مسافروں کو لے کر باہر موجود تھے۔ دہشت گردوں پر ہماری فائرنگ کے نتیجے میں مغوی مسافروں کو فرارکا موقع ملا تھا۔ پاک فوج کے ترجمان نے بھی واضح کیا تھاکہ یہ آپریشن احتیاط سے کیا گیا تھا، ضرار گروپ نے مغویوں کو خودکش بمباروں سے نجات دلائی جو ٹولیوں کی شکل میں تھے۔دہشت گردوں نے یہ سب بڑی منصوبہ بندی سے کیا تھا، انھیں اپنے سرپرستوں کی پوری مدد حاصل تھی اور وہ افغانستان میں موجود اپنے سرغنوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ پاک فوج کی بروقت کارروائی سے دہشت گرد اور ان کے ماسٹر مائنڈ جو چاہتے تھے، وہ اس میں ناکام رہےڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا اس واقعے کا سرا افغانستان سے ملتا ہے، وہاں سے خودکش بمبار آتے ہیں۔ انھوں نے تین دہشت گردوں کی تصاویر دکھاتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کا ایک دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کے دوران مارا گیا تھا ، اس کا نام بدر الدین تھا اور وہ افغانستان کے صوبے باغدیس کے نائب گورنر کا بیٹا تھا۔اسی طرح ایک اور خارجی مجیب الرحمان افغان آرمی میں بٹالین کمانڈر تھا ۔ بنوں واقعے میں بھی افغان دہشت گرد مارے گئے تھے۔ یوں پتہ چلتا ہے کہ افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی حکومت کی ناک کے نیچے یہ سرگرمیاں ہو رہی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل درآمد کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہم رواں سال اب تک 11 ہزار 654 آپریشن کر چکے، اوسط نکالیں تو یہ 180 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن یومیہ بنتے ہیں۔ 2024 اور 2025کے دوران 1250 دہشت گرد مارے جاچکے ہیں، ہمارے563 جوان شہید ہوئے۔ دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی ادارے مکمل فعال ہیں، اپنی جانیں دے رہے ہیں مگر ان 14 نکات پر عمل نہیں ہو رہا۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں جعفر ایکسپریس سانحے، دہشت گردی، بلوچستان کے مسائل اور حکومت کی معاشی پالیسیوں پر گرما گرم بحث ہوئی۔ ارکان اسمبلی نے بلوچستان میں بدامنی، بیروزگاری اور بنیادی حقوق کی عدم فراہمی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھاجب کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت پر زور دیا تھا