اسلام آباد (ٹی این ایس) حضرت زینب کربلا میں ہمت اور استقامت کی علامت

 
0
50

اسلام آباد (ٹی این ایس) حضرت زینب کربلا میں ہمت اور استقامت کی علامت رہیں دنیا کی ہر مسلمان عورت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تعلیمات پر عمل کرکے اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہے، حضرت زینبؑ کا شمار اسلام کی عظیم اور اہم شخصیات میں ہوتا ہے کربلا میں شب عاشورا حضرت زینبؑ امام حسینؑ کے پاس بیٹھی تھیں, امام حسینؑ اپنے خیمے میں گئے اور دنیا کی بے وفائی کے بارے میں اشعار پڑھے۔ امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ وہ اشعار سن کر میری پھوپھی بے صبری سے میرے والد کے پاس گئیں۔ میرے والد نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا: “میری بہن، شیطان آپ کے صبر کو آپ سے نہ چھین لے۔” پھر ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور فرمایا: کہ اگر قطا پرندے (پتھر کھانے والا پرندہ) کو اپنے حال پر چھوڑا جائے تو وہ سو جائے گا۔ زینبؑ نے کہا: ہائے افسوس! “کیا وہ زبردستی تمہاری جان لے رہے ہیں؟…” پھر آپ نے اپنے منہ پر طمانچہ مارا، گریباں چاک کر دیا اور بے ہوش ہوگئیں۔ امام حسینؑ نے آپ کے چہرے پر پانی ڈالا اور انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: “… جان لو کہ زمین اور آسمان کے رہنے والے مر جائیں گے اور اللہ کے سوا سب کچھ فنا ہو جائے گا،… میرے والد، میری والدہ اور میرا بھائی مجھ سے بہتر تھے اور وہ سب دنیا سے جا چکے ہیں.. ” امام حسینؑ نے ان الفاظ کے ساتھ ان کو تسلی دی اور ان سے وعدہ لیا کہ بھائی کی شہادت کے بعد بے صبری نہ کرے۔ عصر عاشورا جب شمر کے حکم پر امام حسینؑ کے بدن پر تیر برسائے گئے تو حضرت زینبؑ خیمے سے باہر آئیں اور عمر بن سعد دشمن کی فوج کے سپہ سالار سے یوں مخاطب ہوئیں: “سعد کے بیٹے، کیا تم دیکھ رہے ہو اور امام حسینؑ کو قتل کر رہے ہیں؟” ابن سعد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر حضرت زینبؑ نے آواز دی کہ کیا تمہارے درمیان کوئی مسلمان نہیں ہے؟ کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا۔ امام حسینؑ کی شہادت کے بعد، زینبؑ اپنے بھائی کی نعش پر گئیں اور کہا: “اے اللہ، ہماری طرف سے اس قربانی کو قبول فرما۔” یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ آپ نے مدینہ کی طرف رخ کیا اور پیغمبر اکرمؐ سے مخاطب ہو کر بھائی کی شہادت اور اہل بیت کی اسیری کی شکایت کی روز عاشورا حضرت زینب کے دو بیٹے شہید ہوئے۔عصر عاشور امام حسین علیہ السلام اور انکے اصحاب با وفا کو شہید کردیا گیا شام کو یزید کی فوج خیام حسینی کی طرف بڑھتی ہے اور لوٹ مار مچانا شروع کرتی ہے اس دوران حضرت زینب سلام اللہ علیہا حسینی قافلے کی سالاری سنبھالتی ہیں. 11محرم کی رات کو شام غریباں کہا جاتا ہے، تاریخ عالم نے ایسی شام نہیں دیکھی ہوگی جب وجہ تخلیق کائنات کے فرزند کو اسی کی امت نے ذبح کر دیا اور اس پر اکتفا نہ کیا بلکہ حرم کی خواتین پر حملہ کیا اور انہیں لوٹنے آگئے، خیام حسینی کو آگ لگائی، یتیم بچوں کے گوشوارے اتارے خواتین کے سر سے چادریں تک چھین لیں.قیام حسینی کی ابتدا سے ہی امام حسین علیہ السلام کی ہمشیرہ گرامی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کے ساتھ رہیں اور واقعہ کربلا کے دردناک مراحل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا، اس تحریک کے دوران سب سے مشکل وقت شام غریباں کا تھا اور اسکے بعد کے حالات جب آپ نے عملی طور پر اس کاروان اسرا کی رہبری سنبھالی، شام غریباں کے بعد حضرت زینب سلام اللہ علیہا خیام حسینی میں موجود تمام اصحاب کی خواتین اور انکے بچوں کو سنبھالتی ہیں اور انکی سرپرستی کرتی ہیں.حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے بھائی اور انکے اصحاب کی شہادت کے بعد جس صبر و استقامت و تدبیر، فصاحت و بلاغت اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اسکی مثال نہیں ملتی، ایک ایسی خاتون جس کی آنکھوں کے سامنے اسکے عزیز ترین افراد شہید کردیئے گئے مکمل استقامت کے ساتھ اپنے بھائی کے ہدف و مقصد کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرتی ہے، اس بی بی نے غم سے نڈھال ہو کر ایک کونے میں بیٹھنے کی بجائے اپنے بھائی کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کیا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے انہیں ظریف اقدامات میں سے ایک قدم یزید سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری و ماتم کی اجازت لینا تھا. یزید نے بھی اجازت دے دی اس نے سمجھا کہ اس سے کیا ہوگا بھلا؟ چند خواتین ہیں جو اپنے مرے ہوؤں پر رونا پیٹنا چاہتی ہیں کیا حرج ہے؟ لیکن یہی وہ کام تھا جو قیام و انقلاب زینبی کا باعث بنا، بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے قاتلان امام حسین علیہ السلام کو رسوا کرنا شروع کیا اور احداف امام عالی مقام بیان کرنا شروع کئے، یہاں تک کہ لوگ قاتلان امام پر نفرین و لعن کرنے لگے،شام غریباں کے سب سے بڑے مصائب آل رسول کے خیموں میں یزیدی فوج کا آگ لگانا اور آل رسول کو لوٹنا تھا ایسے حال میں کہ جب بییبوں کے سامنے انکے عزیزوں کے لاشے بکھرے پڑے تھے اور انکی لاشوں کو بغیر کفن و دفن کے صحرا کی ریت کے حوالے کردیا گیا تھا، لوٹنے والے بڑھ بڑھ کر آگ لگا رہے تھے، عورتوں اور بچوں کو ڈرا رہے تھے، ایک ملعون نے فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی کے گوشوارے چھینے حتی خواتین کی چادریں چھین لیں. . ایک کہہ رہا تھا ” ” ظالموں کے سر چھپانے کی جگہ کو جلادو. . ایسے میں جب خیام میں آگ لگی تھی بچے جان بچانے کی غرض سے صحرا کی جانب بھاگ رہے تھے حضرت زینب سلام اللہ علیہا یزیدی افواج کی نامردی اور وحشی حرکت کو دیکھ کر امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور پوچھتی ہیں کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ کیا خیام کی آگ میں جل جائیں؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: “علیکن بالفرار” علامہ مجلسی نقل کرتے ہیں کہ فاطمہ صغری سلام اللہ علیہا سے منقول ہے: میں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار میری طرف بڑھ رہا ہے فورا وہاں سے بھاگی لیکن وہ سوار تھا میرا پیچھا کرکے پہنچ گیا اس کے بعد اس نے ایک ضرب لگائی اور میں زمین پر گر گئی امام سجاد علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ میری نظر میری پھوپھی اور بہنوں پر پڑے اور میرے آنسو نہ ٹپکے ہوں اور مجھے یاد آتی ہے ان لحظوں کی کہ جب بی بیاں ایک خیمے سے دوسرے خیمے کی طرف جاتیں اور دوسری طرف سے سپاہ کوفہ کہتی کہ خیموں کو آگ لگا دو” . حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایسے حالات میں یتیم بچوں، بیواؤں اور امام زین العابدین علیہ السلام کو سنبھالتی ہیں، اور دوسری جانب گمشدہ بچوں کو تلاش کرتی ہیں، دشمن کے حملوں اور تازیانوں سے بچوں کو بچاتی ہیں لیکن خود زخمی ہوجاتی ہیں، اپنے بھائی حسین علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرماتی ہیں: ” اے پیارے ماں جائے بچوں اور خواتین کا خیال رکھنے اور دشمن سے انکا دفاع کرنے سے ہلکان ہوگئی، میرے بازو و چہرے دشمن کی ضربتوں سے کالے رنگ میں بدل گئے خیام کی غارت کے بعد بی بی نے سب بچوں اور خواتین کو ایک خیمے میں جمع کیا اور تسلی و نوازش کرنے لگیں ایسے میں متوجہ ہوتی ہیں کہ دو بچے خیام میں موجود نہیں پریشان حالت میں بچوں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلتی ہیں اور ان دونوں کو ایک گودال میں لیٹا ہوا دیکھتی ہیں، جب نزدیک ہو کر دیکھتی ہیں تو متوجہ ہوتی ہیں کہ دونوں بچے خیام میں آگ لگنے، اور اشکیا کے ڈر کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے ہیں. صاحب معالی السبطین نقل کرتے ہیں کہ شام غریباں کو دو بچے دھشت و تشنگی سے مجبور ہو کر خیام سے فرار کرتے ہیں اور بی بی انکو ایسی حالت میں پاتی ہیں کہ دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہوا ہے اور اس دوران انکی روح پرواز کرجاتی ہے. رات ڈھل جاتی ہے دن اور رات کی تھکی ہاری زینب س نماز شب کے لیے تیاری کرتی ہیں، اندرونی و بیرونی زخموں سے چور بی بی کھڑے ہو کر نماز شب نہیں پڑھ پاتیں اور بیٹھ کر اپنے خدا سے راز و نیاز کرتی ہیں. امام حسینؑ کی شہادت کے بعد حضرت زینبؑ اور باقی اسیروں کو کوفہ لے جایا گیا۔11 محرم بعد از ظہر ملعون ابن سعد اپنے یزیدی ساتھیوں کو دفنانے، اور امام حسین علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کے اجساد کو صحرا میں بنا دفن کئے اہلبیت علیہم السلام کو اسیر کر کے کوفہ کی طرف بڑھتا ہےعمر سعد کے حکم سے اسیران کو جان بوجھ کر مقتل گاہ شہداء کربلا سے گزارا گیا، جب بی بی زینب سلام اللہ علیہا اپنے بھائی کے مقتل کے قریب سے گزرتی ہیں تو بین کرتی ہیں: یا محمداہ! یا محمداہ! ھذا الحسین بالعراء مرمل بالدماء مقطع الاعضاء. یا محمداہ! و بناتک سبایا و ذریتک مقتله تسقی علیہا الصبا، یا محمداہ! یا محمداہ! یہ وہی حسین ہے جو آسمان کے نیچے پڑا ہے خاک و خون میں غلطان ہے جس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے گئے، یا محمداہ! تیری بیٹیوں کو اسیر بنایا گیا، تیرے بیٹوں کو مار دیا گیا، یہ سن کر بی بیاں ماتم کرنے لگیں. امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب مقتل گاہ سے قافلہ گزرا اور میں نے اپنے بھائیوں، اور بابا کا لاشہ جو بے سر و پا ٹکڑوں میں بٹا، گھوڑوں تلے مسلا ہوا بے گور و کفن دیکھا تو میری حالت غیر ہوگئی اور نزدیک تھا کہ میری جان چلی جاۓ، اس دوران پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا متوجہ ہوئیں اور فرمایا: کہ اے میرے جد و بابا اور بھائی کی نشانی! کیوں اپنی جان لینا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی جان دینا چاہتے ہیں؟ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا کہ کیسے نہ اپنی جان دوں جبکہ اپنے مولا، اپنے بھائی، چچا اور چچازاد اور سارے گھر والوں کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں. اس بیابان میں خاک و خون میں لت پت ہیں انکے بدنوں پر کفن بھی موجود نہیں اور کوئی انکو کفن پہنانے والا بھی نہیں اور دفن کرنے والا بھی نہیں. اسیر کارواں کی قیادت حضرت زینبؑ کے ذمہ تھی۔ کوفہ میں داخل ہو کر حضرت زینبؑ نے حاضرین کو خطبہ دیا جس سے سب حیران اور متاثر ہوئے۔امام سجادؑ کے صحابی حِذْیَم بن شَریک اَسَدی حضرت زینبؑ کے خطبہ کے بارے میں فرماتے ہیں: “خدا کی قسم میں نے زینبؑ کی طرح کوئی توانا خطیب نہیں دیکھا؛ گویا وہ امیر المومنین علیؑ کی زبان بول رہی تھیں۔ انہوں نے لوگوں کو چیخ کر کہا کہ چپ ہو جاؤ! ’’اس آواز پر نہ صرف مجمع خاموش ہوگیا بلکہ اونٹوں کی گھنٹیوں کی آواز بھی خاموش ہوگئی۔‘‘ خطبہ کے اختتام پر جب شہر میں ہنگامہ برپا تھا اور حکومت کے خلاف بغاوت محسوس ہورہی تھی تو فوجی دستوں کے سپہ سالاروں نے بغاوت کو روکنے کے لیے کربلا کے قیدیوں کو کوفہ کے حاکم عبید اللہ ابن زیاد کی حکومت کے مرکز دار الامارہ بھیج دیا کربلا کے شہداء کے سروں اور قیدیوں کے کوفہ پہنچنے کے بعد عبید اللہ نے دار الامارہ کے محل میں ایک اجلاس عام منعقد کیا جہاں امام حسینؑ کا کٹا ہوا سر اس کے سامنے رکھا گیا تھا اور وہ چھڑی سے امام کے دانتوں کو مار رہا تھا۔ حضرت زینبؑ سمیت کربلا کے قیدیوں کو گمنامی میں دارالامارہ لایا گیا۔ وہاں حضرت زینبؑ نے عبید اللہ ابن زیاد سے مناظرہ کیا اور عبید اللہ کے امام سجادؑ کو قتل کرنے کے فیصلے سے روک دیا اور ابن زیاد سے کہا کہ اگر وہ امام سجادؑ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو انہیں بھی امام کے ساتھ قتل کر دے۔ واقعہ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ نے عبید اللہ بن زیاد کو قیدیوں کا قافلہ شہداء کے سروں کے ساتھ شام بھیجنے کا حکم دیا۔ اسی لئے امام حسینؑ کے کنبے کو شام بھیج دیا گیا۔ شام میں امام علیؑ کے خاندان کے خلاف امویوں کے منفی پروپیگنڈے اور یزید کی حکومت کے مضبوط ہونے کی وجہ سے جب اسرائے کربلا، شام پہنچے تو لوگوں نے نئے کپڑے پہن کر شہر کو سجایا اور خوشیاں منائیں۔ البتہ شام میں حضرت زینبؑ اور امام سجادؑ کے خطبوں نے ایک طرف اہل بیتؑ سے شامیوں کی دشمنی کو محبت میں بدل دیا اور دوسری طرف عوامی غصے کو یزید کے خلاف ابھارا۔یزید نے ایک اجلاس کا اہتمام کیا تھا جس میں شام کے امراء اور بزرگوں نے شرکت کی۔اس نے امام حسینؑ کے اسیر اہل خانہ کی موجودگی میں توہین آمیز اور کفر آمیز اشعار پڑھے، قرآنی آیات کو اپنی حق میں تأویل کیا۔اس نے امام حسینؑ کے کٹے ہوئے سر کو اس چھڑی سے مارنے کی جسارت کی جو اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس کے بعد حضرت زینبؑ نے یزید کی باتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مجلس کے کونے سے اٹھ کر بلند آواز میں امام حسینؑ کی حقانیت اور یزید کے باطل ہونے پر خطبہ دیا۔اس خطبہ میں آپ نے شام کے رہنماؤں اور شخصیات کے سامنے یزید کے جرائم کی مذمت کی اور لوگوں کی بیداری اور یزید کی حکومت کو کمزور کرنے کی راہ ہموار کی۔دربار میں حضرت زینبؑ کی وضاحت اور شفاف سازی کو ابن زیاد، یزید اور امویوں کی فتح کی خوشی ختم ہونے کا باعث سمجھا گیا ہے۔[96] کہا جاتا ہے کہ حضرت زینبؑ کی شفاف اور دوٹوک گفتگو سے یزید کے اوسان خطا ہونے لگے اور مجبور ہو کر اس نے امام حسینؑ کے قتل کو ابن زیاد کی گردن پر ڈالتے ہوئے ندامت کا اظہار کیا اس کے بعد زینبؑ اور اسیران کربلا نے یزید سے درخواست کی کہ وہ شام میں امام حسینؑ کے لئے عزاداری کریں اور یزید نے مان لیا۔ان خواتین نے خواہ وہ دشمن کا دربار ہو یا شام و کوفہ کا بازار کہیں پر بھی دشمن کو یہ محسوس ہونے نہیں دیا کہ یہ مظلوم اور اسیر ہیں اور حالات سے خوفزدہ ہیں بلکہ ہر جگہ اپنے قول اور فعل سے یہ بتاتے چلیں کہ اصل میں اس معرکہ کا فاتح حسین ابن علی علیہ السلام ہیں۔ حضرت زینب بنت علی علیہما السلام کی کردار ان تمام خواتین کے کردارمیں سے یکساں ہے ۔آپ نے شام وکوفہ کے درباروں میں ان تمام قیدیوں کی رہنمائی اور سر پرستی کے ساتھ دشمن کے سامنے بھی اپنے موقف کو واضح اندازمیں بیان کیا پروردگارا ہماری خواتین کو بھی ان عظیم خواتین سے درس لیکر تعلیمات محمد وآل محمد علیہم السلام کی دفاع کے لئے کردار زینبی ادا کرنے اور ہمیں حسین ابن علی علیہما السلام کی سیرت مبارکہ پرچلنے اور قیامت کے دن انہی ہستیوں کی شفاعت نصیب فرما۔آمین