اسلام آباد (ٹی این ایس) واقعہ کربلا 10 محرم الحرام 61ھ کو پیش آیا، شہداء کی یاد میں 20 صفر کو یہ دن شہدائے کربلا کی یاد میں عاشورہ کے 40 دن بعد منایا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت نے چہلم امام حسین کے موقع پر فول پروف سیکیورٹی انتظامات کرتے ہوئے ملک بھر میں پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کو تعینات کر دیا ہے ،پاک فوج کی تعیناتی آئین کے آرٹیکل 245 اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت کی گئی ہے وفاقی حکومت کو چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے سیکیورٹی کے لیے درخواست دی تھی۔ چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں اور اسلام آباد کی انتظامیہ نے سیکیورٹی کے لیے درخواست دی تھی۔وفاقی کابینہ کی منظوری کی روشنی میں چہلم کے موقع پر سیکیورٹی کے فرائض انجام دینے کے لیے پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی کے احکام جاری کر دیے گئے اسلام آباد ضلعی انتظامیہ نےبھی چہلم کی سیکیورٹی کے لیے درخواست کی تھی۔پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کی تعیناتی چہلم میں سیکیورٹی ڈیوٹی کے لیے ہیں،یہ مسلمانوں کے اہم دنوں میں سے ایک ہے۔ اس کو اربعین حسینی کہا جاتا ہے جو قمری سال کے مطابق 20 صفر المظفر کا دن ہے اور کربلائے معلی میں واقعہ عاشورہ 61 ھ میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کی شہادت کا چالیسواں دن ہے۔ مشہور ہے کہ کربلائے معلی میں امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اہل خاندان اور اصحاب کی شہادت کے بعد آپ کے باقی ماندہ خاندان کو قید کر کے کوفہ اور شام لے جایا گیا جہاں سے مدینہ واپسی کے وقت اسیران اہل بیت علیہم السلام امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلائے معلی آئے ہیں۔ تاریخی کتب میں مذکور ہے اس روز جابر بن عبداللہ انصاری قبر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے آئے تھے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و وسلم کا سلام بھی وہیں پر امام محمد باقر کو پہنچایا تھا۔چہلم امام حسین علیہ السلام، جسے اربعین بھی کہا جاتا ہے چہلم سید الشہداء علیہ السلام کی مناسبت سے زیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی رسم عراق میں صدیوں سے جاری ہے اس دن مسلمان حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یاد مناتے ہیں جو واقعہ کربلا میں پیش آئی تھی. یہ دن صفر المظفر کے مہینے کی بیسویں تاریخ کو آتا ہے اس دن، عزاداری، جلوس اور مجالس کا اہتمام کیا جاتا ہے، اور بہت سے لوگ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے ہیں, چہلم امام حسین علیہ السلام کی اہمیت شیعہ مسلمان عقیدے میں بہت زیادہ ہے، اور اسے ایک اہم مذہبی فریضہ سمجھا جاتا ہے. اس دن، مومنین اپنے اماموں کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں. العتبة الحسينية المقدسة کے مطابق، اس دن کی زیارت اور اعمال کی خاص فضیلت بیان کی گئی ہے.اس دن کی رسومات میں زیارت اربعین ایک مخصوص زیارت نامہ ہے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے موقع پر پڑھی جاتی ہے ماتمی جلوس نکالے جاتے ہیں جن میں لوگ غم کا اظہار کرتے ہیں , مجالس عزا منعقد کی جاتی ہیں جن میں واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں بتایا جاتا ہے. نذر و نیاز اور خیرات کا اہتمام کیا جاتا ہے. چہلم امام حسین علیہ السلام نے دنیا میں بیداری پیدا کی ہے امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا ایک اہم پہلو بیداری اور احیاء پر مبنی تھا۔ روز عاشور اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے قیام کے نتیجے میں دنیا میں بیداری کی عظیم لہر معرض وجود میں آئی جس نے طاغوتی حکومتوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ واقعہ کربلا کا بیداری کا یہ پہلو آج تک باقی ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کی جانب سے واقعہ کربلا کی یاد زندہ رکھنے پر بے حد تاکید اور ہر سال اس کی یاد منانے پر زور کی وجہ بھی اسلامی معاشروں میں جہاد کا جذبہ اور شوق شہادت زندہ رکھنا تھا۔ حسینی تحریک میں چہلم امام حسین علیہ السلام کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جابر بن عبداللہ انصاری اور عطیہ کا چہلم کے دن امام حسین علیہ السلام کی قبر کی زیارت کیلئے جانا اس بابرکت رسم کا آغاز تھا جو صدیوں سے چلتی ہوئی آج ہر زمانے سے زیادہ عظیم، پررونق، اور مقبول ہو چکی ہے۔ اس عظیم رسم نے دنیا میں روز بروز عاشورا کی یاد زندہ کر دی ہے۔” چہلم اپنی ذات میں عاشورا کی جانب دوبارہ پلٹنے کا نام ہے۔ مشہور ہے کہ اہلبیت اطہار علیہم السلام شام میں یزید کی قید سے رہائی پانے کے بعد چہلم کے دن ہی کربلا میں داخل ہوئے۔ روایات کی روشنی میں زیارت اربعین مومن کی علامات میں سے ایک علامت قرار دی گئی ہے۔ یہ سب کچھ شاید اس نکتے کی یاددہانی ہو کہ مومن کو چاہئے کہ وہ کربلا کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دے اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیاں اسی مرکز کے گرد منظم کرے پوری دنیا سے محبین اہلبیت علیہم السلام چہلم کی زیارت کیلئے کربلا پیدل جانے کی غرض سے اس موقع پر عراق کا سفر کرتے ہیں۔ کربلا کی جانب گامزن اس عظیم انسانی سیلابی ریلے میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چہلم امام حسین علیہ السلام کی مناسبت سے انجام پانے والی یہ عظیم ریلی دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع قرار دیا جا سکتا ہے۔ جن دنوں عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی سرگرمیاں عروج پر تھیں اور انہوں نے زائرین امام حسین علیہ السلام کیلئے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں تب بھی یہ مشی رکی نہیں۔ چہلم امام حسین علیہ السلام پر کربلا پیدل جانے کی روایت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شرکت کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک مکمل عوامی اجتماع ہوتا ہے جس میں شریک افراد روحانی جذبے کے تحت امام حسین علیہ السلام سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔چہلم سید الشہداء علیہ السلام کا پیدل مارچ مستضعفین جہان کی بیداری کی علامت ہے۔ سید الشہداء علیہ السلام کے اربعین (چہلم) کی تکریم و تعظیم اور سوگواری کی دلیل، امام حسن عسکری علیہ السلام سے منقولہ روایت ہے مؤمن کی نشانیان پانچ ہیں اور زیارت اربعین کی تلاوت ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے صفوان بن مہران جمّال کو زیارت اربعین، سکهائی ہے جس میں اربعین کی تکریم و تعظیم پر تأکید فرمائی ہے۔ اس روز فرزندان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ، شام میں آزاد ہوکر مدینہ کی طرف لوٹے تھے۔ اسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے مشہور و معروف صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضوان اللہ تعالی علیہ نے کربلا میں حاضر ہوکر قبر سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی تھی۔امام حسین علیہ السلام کے اہل حرم نے اسی دن شام سے مدینہ کی طرف مراجعت کی، اسی دن جابر بن عبداللہ انصاری حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کیلئے کربلا معلی پہنچے اور یہ بزرگ حضرت امام حسین علیہ السلام کے اولین زائر ہیں، 20 صفر کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب ہے، حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے کہ مومن کی پانچ علامتیں ہیں۔ رات دن میں اکاون رکعت نماز فریضہ و نافلہ ادا کرنا، زیارت اربعین پڑھنا.دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، سجدے میں پیشانی خاک پر رکھنا، اور نماز میں بہ آواز بلند بِسْمِ اﷲِ الرَحْمنِ الرَحیمْ پڑھنا ہے.جس وقت امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک نیزے پر اور اہل بیت علیہم السلام کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا؛ اسی وقت سے کربلا میں حاضری کا شوق اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر کی زیارت کا عشق دسترس سے بالکل باہر سمجھا جاتا تھا؛ کیونکہ اموی ستم کی حاکمیت نے عالم اسلام کے سر پر ایسا دبیز سیاہ پردہ بجھا رکھا تھا کہ کسی کو یقین نہیں آسکتا تھا ک کوئی سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کے لئے کربلا میں حاضری دے سکے گا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی محبت تھی کہ اموی اور عباسی طاغوتوں کی پوری طاقت بھی اسی گل نہ کرسکی۔ یہی محبت تو تھی جو عاشق حسینی جابر بن عبداللہ انصاری کو کربلا کی طرف لے گیا۔جابر جب کربلا پہنچے تو سب سے پہلے دریائے فرات کے کنارے چلے گئے اور غسل کیا اور پاک و مطہر ہوکر ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کی قبر منور کی طرف روانہ ہوئے اور جب پہنچے تو اپنا ہاتھ قبر شریف پر رکھا اور اچانک اپنے وجود کی اتھاہ سے چِلّائے اور بے ہوش ہوگئے اور جب ہوش میں آئے تو تین بار کہا: يا حسين! یاحسین! یا حسین اور اس کے بعد زیارت پڑھنا شروع کی۔
اربعین کے روز زیارت امام حسین علیہ السلام پر تأکید اسلام کی روائی اور حدیثی تعلیمات میں جن اعمال کو مقدس ترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے اور ان کی بجا آوری کی تلقین کی گئی ہے ان میں اولیائے الہی اور ائمۂ معصومیں علیہم السلام کی زیارت بھی شامل ہے۔ معصومیں علیہم السلام کی زیارات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہےایران اور پاکستان سمیت مشرق و مغرب کے دوسرے ممالک سے بھی لاکھوں افراد اس دن کربلا پہنچتے ہیں۔ رواں سال بذریعہ روڈ جانے والے زائرین کو سکیورٹی کیوں نہیں دی جا سکی وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ وزارتِ خارجہ، حکومتِ بلوچستان اور سکیورٹی اداروں سے تفصیلی مشاورت کے بعد عوامی تحفظ اور قومی سلامتی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ زائرین اس مرتبہ صرف فضائی راستے سے ہی عراق و ایران جا سکیں گے اور وزیرِاعظم شہبازشریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ زائرین کی سہولت کے لیے زیادہ سے زیادہ پروازوں کا بندوبست کیا جائے۔ مگر ٹریول ایجنٹس کے بقول فضائی سفر پر زائرین کا دو سے تین لاکھ روپے کا اضافی خرچہ ہوا ہر سال اربعین کے موقع پر پاکستان سے تقریباً دو سے اڑھائی لاکھ افراد (چار سے ساڑھے چار ہزار بسیں) بذریعہ سڑک عراق کا سفر کرتے ہیں













