راولپنڈی (ٹی این ایس) دنیا بھر میں 4 ستمبر کو کو عالمی یوم حجاب منایا جاتا ہے حجاب کا معنی پردہ اوٹ رکاوٹ یا ڈھال ہے حجاب صرف ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ یہ عزت و وقار ازادی اور اور عورت کے تحفظ کی علامت ہے اسلام نے عورت کو حجاب کے ذریعے ایک خاص مقام دیا ہے تاکہ وہ اپنی پہچان محفوظ رکھ سکے اور معاشرے میں عزت و احترام کے ساتھ زندگی گزار سکے قران پاک میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں ٫٫اے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچ گیی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرے یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے یقینا اللہ باخبر ہے اس سے جو کچھ وہ کر رہے ہیں مومن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ٬٬(سورہ النور 30٫31 ) یہاں اللہ تعالی نے سب سے پہلے مردوں کو پردے کا حکم اس صورت میں دیا کہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھیں جب اللہ تعالی نے مرد کو عورت کا قوام بنایا تو قوامیت میں صرف لباس رہائش اور کھانا فراہم کرنا ہی نہیں بلکہ اس کا محافظ بھی ہے مرد پر ذمہ داری ہے کہ اپنی بد نگاہی سے دوسروں کی خواتین کو محفوظ رکھے اور دوسروں کی بدنگاہی سے اپنے گھر کی خواتین کی حفاظت کرے اور یہ صرف ایسے ہی ممکن ہے کہ جب معاشرے میں حیا اور پردے کو فروغ دیں گے مولانا مودودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں٫٫ اسلام کی اصطلاح میں حیا سے مراد وہ شرم ہے جو کسی امر منکر کی جانب مائل ہونے والا انسان خود اپنی فطرت اور خدا کے سامنے محسوس کرتا ہے٬٬ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ٫٫اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنے چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالی غفور الرحیم ہے (سورہ الاحزاب 59) سورۃ الاحزاب ہی میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم:
”اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔”
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ دراصل ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے ضروری ہے، اسی پردے سے ان کے دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہیں گے۔ جب دل باطنی بیماریوں سے محفوظ رہے گا تو معاشرہ بھی فحاشی و عریانی سے بچا رہے گا۔
اس دور افراتفری میں پردہ ہی وہ شے ہے جو عورت کو تحفظ فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن میڈیا حجاب یعنی پردے کو پسماندگی اور کمزور شخصیت سے جوڑ کر دکھاتا ہے حالانکہ میڈیا تربیت کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے جس طرح گھر تعلیمی ادارے اور معاشرہ تربیت کے بنیادی ذرائع ہیں اسی طرح میڈیا بھی تربیت کا ذریعہ ہے ڈراموں اشتہارات میں اکثر ماڈرن عورت کو بے حجاب دکھایا جاتا ہے جبکہ باحجاب کردار کو دقیانوسی یا کمزور بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کامیابی اور اعتماد صرف حجاب چھوڑنے میں ہے میڈیا حجاب کے بارے میں عوامی سوچ بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے اگر میڈیا حجاب کو مثبت انداز میں دکھائے تو یہ معاشرے میں با حجاب خواتین کے لیے اعتماد اور عزت کا باعث بن سکتا ہے حجاب صرف جسمانی پردہ نہیں بلکہ یہ ایمان اور اللہ کی رضا کی علامت ہے جب عورت حجاب کرتی ہے تو اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم پر عمل کر رہی ہے یہ احساس اندرونی سکون اعتماد اور قلبی اطمینان پیدا کرتا ہے جب کہ حجاب کے خلاف پروپیگنڈا ہے کہ یہ عورت کی ترقی اور ازادی کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حجاب کے خلاف پراپیگنڈا دراصل عورت کو اس کی مذہبی اور ثقافتی شناخت سے کاٹنے کی کوشش ہے حجاب امت مسلمہ کا وہ شعار ہے جو اسلامی معاشرے کو پاکیزگی عطا کرنے کا ذریعہ ہے ستمبر 2003 میں فرانس نے حجاب پر پابندی کی قانون سازی کی امت مسلمہ کے علماء نے علامہ یوسف القرضاوی کی قیادت میں پہلی مرتبہ چار ستمبر کو عالمی یوم حجاب منانے کا اعلان کیا پاکستان سے جماعت اسلامی کے محترم قاضی حسین احمد اس تحریک علمبردار بنے اور خوب تگ و دو کر کے اپنے حصے کا چراغ روشن کیا اس دن سے
مسلمان عورت اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ حجاب اسلام کا عطا کردہ معیار عزت اور عظمت ہے خواتین کی ایک بڑی عالمی تنظیم انٹرنیشنل مسلم ویمن یونین نے ستمبر 2004سے سے ہی اسے عالمی سطح پر منانے کی روایت برقرار رکھی جماعت اسلامی حلقہ خواتین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو کارکنوں کے ذریعے عوام الناس میں اتارنے کے لیے حجاب مہم ہر سال چلاتی ہیں اس مرتبہ بھی یکم ستمبر سے 10 ستمبر تک یہ مہم چلائی جائے گی یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل ازادی یہ نہیں ہے کہ معاشرہ ہمیں پتا ئے کہ ہمیں کیا پہننا ہے اصل ازادی یہ ہے کہ عورت خود فیصلہ کرے کہ وہ کیسا لباس چاہتی ہے اگر خوشی خوشی حجاب اپنانا چاہتی ہے تو دنیا کے کسی کونے سے اسے سوالیہ نشان نہ بنایا جائے عالمی یوم حجاب ہمیں سکھاتا ہے کہ حجاب صرف ایک کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ یہ عورت کی عزت ایمان اور مضبوط کردار کا استعارہ ہے اصل سوال یہ ہے کہ ہم عورت کی عزت اور اختیار کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں میں اپنی اس تحریر وساطت سے احکام بالا تک پیغام پہنچانا چاہتی ہوں کہ شریعت اور ائین کے مطابق پردے کی احکام کو نصاب اور قانون میں شامل کیا جائے غیر اسلامی مواد کی حوصلہ شکنی کی جائے حیا اور پردے کو فروخت دینے والے ضابطے بنائے جائیں سوشل میڈیا کے ذریعے باپردہ خواتین کو مثبت کردار کے طور پر دکھایا جائے حجاب کو دقیانوسی یا کمزور تصور کرنے کی بجائے اعلی اقدار اور عزت کی علامت کے طور پر پیش کیا جائے













