اسلام آباد (ٹی این ایس) عشرہ رحمتُ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم محبت، عقیدت اور رحمت کا پیغام ہے اس سال کانفرنس کاموضوع سوشل میڈیا کے مفید استعمال کی تعلیم و تربیت میں ریاستی ذمہ داریاں، سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی روشنی میں ” ہے
قومی اسمبلی میں ربیع الاول کے بابرکت مہینے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے 1500 سال کی آمد کی مناسبت سے ایک روح پرور خطاطی کےفن پاروں کی نمائش کا انعقاد کیا گیا۔ یہ فن پارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ اور اسلامی تاریخ کے درخشاں پہلوؤں کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اس موقع پر کہا کہ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پوری انسانیت کے لیے رحمت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر مبنی تقریبات ایمان کو تازگی بخشتی ہیں اور نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اس نوعیت کی روحانی و فکری سرگرمیاں امت مسلمہ میں اتحاد، یکجہتی اور اخوت کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں اس طرح کی تقریبات کا انعقاد نہ صرف دینی و روحانی اقدار کو اجاگر کرتا ہے بلکہ معاشرے میں امن، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ ہاؤس میں اس نمائش کا افتتاح کیا۔نمائش کے دوران معروف خطاط واصل شاہد نے اسپیکر قومی اسمبلی کو نمائش میں رکھے گئے شاہکار فن پاروں اور خطاطی کے نمونوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ تقریب میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفیٰ شاہ، ممبر قومی اسمبلی اعجاز جاکھرانی، سید حفیظ الدین سمیت مختلف مکاتب فکر کے افراد اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔شرکائے تقریب نے اس نمائش کو حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی بہترین کاوش قرار دیا
اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے جڑے نوجوانوں میں اسلام مقبول ہو رہا ہے۔ یہ رسائی مذہبی افراد کے ذریعے سوشل میڈیا کا غیر معمولی استعمال ہے۔ سب سے زیادہ توجہ فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب پر ہے۔ عام اختلاف یہ ہے کہ سوشل میڈیا لوگوں کی نیکی کو بدلنے کا امکان رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر دلیل دی جاتی ہے کہ رواداری اور خلوص کی خصوصیت والے ماحول کے مقابلے میں لوگوں اور کمیونٹیز کے رویے روایتی اقدار سے متصف ہیں۔ سوشل میڈیا پر اندازے کے مطابق کچھ اسلامی اسکالرز کے ٹوئٹر کے حامیوں کی تعداد 6 ملین سے زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس دنیا میں بہت سے لوگوں کے لیے مذہبی معلومات کی زیادہ سے زیادہ اہم بنیاد ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال نہ صرف مذہبی رہنما کرتے ہیں بلکہ قرآنی آیات اور احادیث کو ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔ مذہبی مادے کا پھیلاؤ عام طور پر رمضان کے دوران اپنے عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ دنیا میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شہرت کچھ اسکالرز کو مذہبی زندگی پر اس کا رابطہ بڑھنے کا قیاس کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ سماجی میڈیا پر قدامت پسندی اور روایتی اقدار کے تحت ماحول میں افراد اور کمیونٹیز کے مذہبی رویے پر استدلال کیا جاتا ہے کہ رواداری اور ایمانداری کے ماحول سے زیادہ گہرا ہوگا اس وقت سوشل میڈیا دعوت کے راستے پر چلنے کے لیے ایک مددگار ذریعہ بن چکا ہے اسلامی تعلیمات سوشل میڈیا پر سچائی، دیانتداری، احترام، رازداری اور اعتدال کی وکالت کرتی ہیں، اس بات پر زور دیتی ہیں کہ صارفین اپنے اثر و رسوخ کو بھلائی کے لیے استعمال کریں اور بہتان، غلط معلومات اور ضرورت سے زیادہ استعمال سے گریز کریں۔ ریاستی نقطہ نظر سے، ذمہ داریوں میں ایک محفوظ آن لائن ماحول کو فروغ دینا، اخلاقی ڈیجیٹل شہریت کو فروغ دینا، نقصان دہ مواد کے پھیلاؤ کو روکنا، اور آزادی اظہار اور رازداری کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا کہ آن لائن گفتگو عوامی مفاد کے مطابق ہو۔سوشل میڈیاایک دو دھاری تلوار ہے جو انسان کو فائدہ پہنچانے کے کام بھی آسکتی ہے اور اسے ہلاکت میں بھی مبتلا کر سکتی ہے اچھائی کیا ہے؟ برائی کیا ہے؟ اچھائی یا برائی کا معیار شریعت ہے جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم اچھا فرمائیں ،وہ اچھا ہے، جسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم برا کہیں، وہ یقیناً برا ہے۔ شریعت کے نزدیک اچھائی اور برائی کی کسوٹی ’’تقویٰ ‘‘ ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ’’ اللہ کے حکم کی اطاعت و فرماں برداری کرنا، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی سے بچنا (پرہیز گاری) اللہ کے حکم کی نگہداشت و حفاظت کرنا اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کے برے نتائج سے ڈرنا۔ ‘‘ اسی کو ’’حدود اللہ‘‘ کہا جاتا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیانے طویل ترین زمینی فاصلوں بلکہ مشرق و مغرب، شمال و جنوب، زمین سے خلاء تک کو سمیٹ کر انسانی ہاتھ کی انگلیوں پر لا کر رکھ دیا ہے۔ گہرے سمندروں اور فلک بوس پہاڑوں، جزیروں اور بر ا عظموں میں پھیلے ہوئے انسانوں کے درمیان جو دیوار کھڑی کر رکھی تھیں، انسانی ذہن کی اس اختراع اور ایجاد نے ان دیوارں کو منہدم کر کے رکھ دیا ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ دور حاضر میں سوشل میڈیانے جہاں تہذیب و ثقافت پر بھی بے پناہ اثرات مرتب کئے ہیں، وہیں ہمارے علمی و ثقافتی ورثے ، ہمارے ادبی لٹریچر پر بھی گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا نے قوم کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو جس طرح متاثر اور شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے، اتنا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ ایک دور تھا کہ جب معاشرے کے ہمارے ہی جیسے لوگ دین سے دوری کی زندگی گزارتے گزارتے ایک دن اپنے ہی ضمیر کی آواز پر اپنی زندگی کا رخ تبدیل کر کے اچھے نیک با عمل مسلمان بن جا یا کرتے تھے ۔ مگر سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے زیر اثر ہمارے معاشرے میں یہ بات اب بالکل مفقود ہو تی جا رہی ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یا تو دین و اخلاق اور اپنے کردار کی پاکیزگی سے بالکل ہی بے نیاز اور بیگانہ ہیں یا اگر دین و اخلاق اور اپنے کردار و عمل سے کوئی نام نہا د قسم کا تعلق رکھتے بھی ہیں تو سوشل میڈیا کا منفی و غلط استعمال ان کے دین و اخلاق سے کسی با معنی اور ٹھوس تعلق کی راہ میں نہایت سخت طور پر حائل ہے۔ اسی وجہ سے معاشرہ تباہی و بربادی کے اس مقام تک جاپہنچا ہے کہ جہاں سے اسے واپس لانا انسانی عقل و بصیرت کی طاقت سے بعید تر نظر آتا ہے۔ ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے اندر سرایت کر جانے والی سوشل میڈیا کی اخلاقی برائیوں کے خلاف صف آراء ہوں اور اپنی نسلوں کی اخلاقی و دینی تباہی کے اس جاری سلسلے کو روکیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ موبائل و سوشل میڈیا کے حوالے سے ’’تقویٰ‘‘ کو مضبوطی سے حرز جاں بنالیں، ورنہ تو ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں‘‘ اگر سوشل میڈیا کے استعمال میں ہماری روش تبدیل اور اصلاح پذیر ہو کر اللہ اور حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے احکامات کے تابع نہیں ہوتی تو پھر جو اخلاقی دینی ، تہذیبی تباہی رونما ہوگی،
قرآن و حدیث میں بے حیائی اور فحاشی کی شدید الفاظ میں مذمت موجود ہے۔ سورۂ نور میں ارشاد فرمایا ’’بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں کے درمیان (مسلم معاشرے میں) بے حیائی و فحاشی کا چلن عام ہو تو ایسے لوگوں کے لئے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے ‘‘۔ایک حدیث میں حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ’’حدود اللہ‘‘ کو پامال کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ’’میں اپنی امت کے ان لوگوں کو پہچانتا ہوں جو حشر کے میدان میں تہامہ پہاڑ کے برابر نیک اعمال لے کر آئیں گے، لیکن اللہ ان کے نیک اعمال کی طرف نظر بھی نہیں فرمائے گا اور ان کے نیک اعمال کو کچرے کوڑے کی طرح ذرات بنا کر اڑا دے گا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہ لوگ کون ہوں گے؟ حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ نیکو کار ہوں گے جو اپنی تنہائیوں میں حدود اللہ کو پامال کیا کرتے تھے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) غور کیجیے، آج ہر شخص بلا تخصیص عمر، جنس ، علم ، حسب و نسب، مقام و منصب سوشل میڈیا کے ذریعے جس طرح حدود اللہ کو پامال کرتا ہے، اسے الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سوشل میڈیا کے غلط، منفی استعمال اور اس کے بد ترین نتائج کا ادراک نہیں رکھتے ، ضرور رکھتے ہیں، سب جاننے اور سمجھتے ہیں سوشل میڈیا نے قوم کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو جس طرح متاثر اور شکست و ریخت سے دوچار کیا ہے، اتنا کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ نئے ڈیجیٹل میڈیا اسلامی طریقوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ سعودی عرب میں مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ، فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرف ایک اہم پوزیشن کو آگے بڑھاتے ہیں اس وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ وہ جھوٹ پھیلاتے ہیں اور حقیقی دنیا میں تسلیم شدہ تعلقات کو تباہ کر سکتے ہیں۔ کچھ اسلامی ممالک میں مذہبی شریعت کے ساتھ نامناسب ہونے کے لیے ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا کے استعمال کے علاوہ فتوے جاری کیے ہیں۔ اگرچہ کچھ اسلامی مذہبی مراعات یافتہ طبقے نے اپنے پیروکاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال نہ کریں، لیکن علماء اور مبلغین کی بڑی اکثریت اس کامیابی کا فائدہ اٹھاتی ہے اور کے معاشرے کے ساتھ مشغول ہونے میں سوشل میڈیا کی وفاداری اضافہ کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی تشکیل کے دوران، اسلام آن لائن جیسی ویب سائٹس موجود تھیں جنہوں نے امت اسلامیہ کے لیے مقدس معلومات اور مکمل خدمات کے لیے ایک اسٹاپ شاپ کا کام کیا۔ انٹرنیٹ کے دوسرے دور کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا بڑھنا مذہبی راسخ العقیدہ کی اجارہ داری کی حوصلہ شکنی کی مشق کا باعث بنتا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: “مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بڑی صفائی کا باعث بنے گا، اور اللہ ان سب چیزوں سے خوب واقف ہے جو وہ انجام دیتے ہیں [سورہ نمبر : 7]
مرد اور عورتیں بھی ایک شریف آدمی کی طرف سے اس نفیس انداز کی خلاف ورزی عام ہے بے لگام میڈیا پر منفی وابستگی “آزادی اظہار ” کے نام پر کی جاتی ہیں،
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو اللہ اور روز جزا پر ایمان رکھتا ہے، وہ بھلائی سے کہے یا خاموش رہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر کسی بھی چیز کو مکمل کرنے کے حق سے دور رہنے کی ترغیب دینا جو کہ صرف لوگوں کے درمیان بات چیت کے آغاز پر ہی ختم ہو جاتی ہے، اس کا یہ طریقہ بھی مسلمانوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔ ہمارے سوشل میڈیا پر غیر قانونی تصویروں کی توسیع کا رجحان ختم نہیں ہوا بلکہ امت مسلمہ کے ذہنوں کو ذلیل کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی خوبیوں اور طریقے کے ساتھ ساتھ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ان خطوط کو سننے میں پرکشش ہے یا ان کے پیروکاروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کا خطرہ ہے۔
ہمیں ان چیزوں کے بارے میں ہوش میں آنا چاہیے جو ہم آن لائن لکھتے ہیں اس لیے اجازت نہیں دینا چاہیے آج مغربی میڈیا نے مسلمانوں کو “دہشت گرد”، “بنیاد پرست”، “سخت اسلام پسند” کہہ کر دہشت گردی کے خلاف تحریک کو ہوا دی ہے۔ یہ سب اسلام کے بارے میں غلط عقیدہ ہے جو میڈیا کے تعصب اور بے خبری کی وجہ سے ہے اللہ تعالیٰ اس شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو غیر اخلاقی زبان یا بد زبانی کرے”۔ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک بہترین دوست وہ ہے جو اپنے دوستوں کے لیے بہترین ہو اور اللہ کے نزدیک سب سے اچھا پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے لیے ان میں سب سے اچھا ہو“، سوشل میڈیا پر جھگڑے عام طور پر اکثر ہوتے رہتے ہیں لیکن اس سے مسلمانوں کی زندگیوں میں کردار ادا کرنے میں بھی فائدہ ہوتا ہے













