اسلام آباد (ٹی این ایس) عاصم کھچی: ایماندار بیوروکریٹ کی کرپشن کے خلاف جنگ پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں ایک خاموش مگر شاندار انقلاب برپا ہوا ہے، جس کے پیچھے ایک ہی نام ہے—محمد عاصم کھچی! ایک ایماندار بیوروکریٹ، جس نے اربوں روپے کی کرپشن کے خلاف جنگ چھیڑ کر نہ صرف ادارے کو بچایا بلکہ احتساب کی وہ مثال قائم کی جو دہائیوں تک یاد رکھی جائے گی۔ دھمکیوں، دباؤ اور سازشوں کے باوجود ڈٹے رہنے والے اس افسر کی کہانی ایک ایسے چراغ کی مانند ہے جو اندھیروں میں روشنی بکھیر رہا ہے۔
پاکستان کی میڈیا انڈسٹری میں اگر حالیہ دنوں میں کسی نام نے نمایاں مقام حاصل کیا ہے تو وہ ہے محمد عاصم کھچی، جو اس وقت ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ ایک کیریئر بیوروکریٹ ہیں اور وزارت اطلاعات و نشریات میں گریڈ 20 کے سینئر افسر رہ چکے ہیں۔ 2023 میں ان کی بطور ایم ڈی اے پی پی تقرری کے بعد ادارے کو نہ صرف مالی اور انتظامی بحرانوں سے نکالا گیا بلکہ اربوں روپے کی کرپشن کو بھی بے نقاب کیا گیا۔ آج کے دور میں جب میڈیا ادارے سیاسی و مالی دباؤ کا شکار ہیں، عاصم کھچی کی جدوجہد اس بات کی روشن مثال ہے کہ ایمانداری اور پیشہ ورانہ مہارت سے تبدیلی ممکن ہے۔ یہ تحریر ان کی زندگی، کارناموں اور چیلنجز پر روشنی ڈالتی ہے تاکہ کہانی زیادہ جامع اور مستند انداز میں سامنے آسکے۔
عاصم کھچی نے وزارت اطلاعات و نشریات میں کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ 2021 میں وہ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے، جہاں انہوں نے ادارے کی کارکردگی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ ان کا یہ جملہ آج بھی یادگار ہے کہ “ریڈیو پاکستان کے ملازمین قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں، اور اس ادارے کو جدید معیار کے مطابق ڈھالا جائے گا۔” ان کی قیادت میں ادارے کی آپریشنل کارکردگی بہتر ہوئی، جو پاکستان کی نشریاتی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل تھا۔ ان کا تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر انہیں مضبوط قائد بناتا ہے۔ وہ نہ صرف انتظامی امور کے ماہر ہیں بلکہ ڈیجیٹل میڈیا کی نزاکتوں کو بھی بخوبی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریڈیو پاکستان میں ٹیکنالوجی کی جدت لانے کے بعد اے پی پی میں بھی یہی روش جاری رکھی۔
جب 2023 میں انہیں اے پی پی کا سربراہ بنایا گیا تو ادارہ شدید مالی و انتظامی مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔ عاصم کھچی نے فوری اصلاحات کا آغاز کیا۔ ادارے کی ویب سائٹ کو مقامی سرور پر منتقل کیا، جس سے سالانہ 9 ہزار ڈالر کی بچت ممکن ہوئی۔ مزید برآں، ویب سائٹ سے سالانہ 24 لاکھ روپے کی آمدنی شروع ہوئی۔ اے پی پی کی سوشل میڈیا رسائی بھی غیر معمولی طور پر بڑھی: فیس بک پر 10.3 ملین، ٹک ٹاک پر 10 ملین، ایکس پر 1.5 ملین، انسٹاگرام پر 3 لاکھ 19 ہزار اور یوٹیوب پر 1 لاکھ 37 ہزار فالورز۔ گوانگژو (چین) میں ایک کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا: “ڈیجیٹل دور میں کنیکٹیویٹی، متنوع مواد اور عالمی سطح پر مکالمہ ناگزیر ہے۔” انہی خطوط پر اے پی پی نے 11 غیر ملکی نیوز ایجنسیوں کے ساتھ نیوز ایکسچینج معاہدوں کا آغاز کیا، جو کابینہ کی منظوری کے منتظر ہیں۔
عاصم کھچی نے اے پی پی کو ایک “اسٹریٹجک میڈیا اینٹیٹی” قرار دیا، جو قومی بیانیے کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کر رہا ہے۔ ان کی بین الاقوامی ملاقاتوں نے بھی ادارے کی شبیہ کو بہتر بنایا۔ 2025 میں انہوں نے قازقستان کے سفیر یرژان کیستافن، ایرانی نیوز ایجنسی (آئی آر این اے) کے حکام اور کرغیز سفیر سے ملاقاتیں کیں، جن میں علاقائی تعاون اور تکنیکی اشتراک پر بات ہوئی۔ یہ اقدامات اس بات کی دلیل ہیں کہ اے پی پی کو عالمی سطح پر مؤثر ادارہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
تاہم، ان کی سب سے بڑی کامیابی 2025 میں اے پی پی کے اندر 1.24 ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف ہے۔ انکوائری میں انکشاف ہوا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے فنڈڈ پروجیکٹس میں اربوں روپے کی ہیرا پھیری ہوئی، جعلی تقرریاں کی گئیں اور پروویڈنٹ فنڈ اکاؤنٹس میں بدعنوانی کی گئی۔ کمرشل آڈٹ رپورٹس 2023-24 اور 2025-26 نے بھی ان نتائج کی تصدیق کی۔ یہ عمل آسان نہ تھا۔ عاصم کھچی کو براہِ راست جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ ملزم چاوز ارشاد نے کھلے عام کہا کہ “انکوائری بند کرو ورنہ خاندان کو دھماکوں سے اڑا دوں گا۔” عدالت میں بھی ملزموں نے اے پی پی کی قانونی ٹیم پر حملے کی کوشش کی۔ اس سب کے باوجود عاصم کھچی پیچھے نہ ہٹے۔ ان کی شکایت پر ایف آئی اے نے بالآخر ایک سال کی تاخیر کے بعد مقدمہ درج کیا۔ اسلام آباد کے ڈی آئی جی سید علی رضا نے فوری کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔ ایف آئی اے نے 16 ملزمان، بشمول سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹرز، مینیجرز اور کلریکل سٹاف کے خلاف کیس دائر کیا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات تک جا پہنچا۔ 29 اگست 2025 کو کمیٹی نے عاصم کھچی کی جرات کو سراہا اور مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ چیئرمین بشیر احمد بلوچ نے کہا: “احتساب میں تاخیر نہ ہو، ملزمان کو سزا دی جائے۔” ایم کیو ایم کے سید امین الحق نے استفسار کیا کہ کیا انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں؟ جس پر کمیٹی نے ان کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ سیکریٹری اطلاعات امبرین جان نے بھی ان کی ایمانداری کو سراہا۔ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بھی فنڈز کی وصولی کے احکامات جاری کیے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے تسلیم کیا کہ سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوششیں ہوئیں لیکن عاصم کھچی نے ہمت نہیں ہاری۔
اس دوران ادارے کو دیگر چیلنجز کا بھی سامنا رہا۔ اے پی پی اور پی ٹی وی کے ملازمین کی تنخواہوں کی تاخیر، وزارت کی طرف سے واجبات کی عدم ادائیگی اور اشتہارات میں قائداعظم کی تصویر شامل نہ ہونے کے معاملات پر قومی اسمبلی کی کمیٹی نے تشویش ظاہر کی۔ عاصم کھچی نے یکم مئی کو لیبر ڈے کے موقع پر صنعتی ہم آہنگی اور سماجی مکالمے پر بات کرتے ہوئے میڈیا کے کردار کو اجاگر کیا۔ مستقبل میں ان کی ترجیح ادارے کی مزید ڈیجیٹلائزیشن، کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ ان کی جدوجہد اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ پاکستان میں ایماندار افسران کی کمی نہیں، بس انہیں موقع دینا ضروری ہے۔ ایف آئی اے کی حالیہ کارروائیوں میں تین ملزمان کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ انصاف کی راہ میں پیش رفت جاری ہے۔
محمد عاصم کھچی کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ کرپشن کے خلاف جدوجہد اگرچہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ ان کی کامیابیوں نے نہ صرف اے پی پی کو مستحکم کیا بلکہ قومی اداروں میں احتساب کی ایک روشن مثال بھی قائم کی۔ آج جب پاکستان میڈیا کی آزادی اور شفافیت کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، عاصم کھچی جیسے بہادر اور ایماندار رہنما ناگزیر ہیں۔ ان کی جدوجہد جاری ہے، اور یہ کہانی صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ قومی مفادات کی حفاظت کی ایک لازوال داستان ہے













