خانیوال (ٹی این ایس) خانیوال کی سرزمین ہمیشہ سے اپنی کہانیوں اور کرداروں کے لیے پہچانی جاتی ہے۔ یہاں کے لوگ محنتی بھی ہیں اور اپنے معاشرے کے اچھے اور برے حالات کو بغور دیکھنے والے بھی۔ لیکن آج جس شخصیت کی بات ہو رہی ہے وہ خانیوال کی گلیوں اور بازاروں میں ایک الگ ہی انداز سے یاد کی جاتی ہے۔ جی ہاں، یہ ہیں خالد جاوید جوئیہ، ڈی ایس پی صدر خانیوال، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ “ڈی ایس پی انتہائی مہذب، بااخلاق اور ایک بہت شاندار فیملی کا فرد ہیں۔” اور یہ محض رسمی تعریفی جملہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جسے عوامی تاثر اور عملی کارکردگی دونوں تقویت دیتے ہیں۔ یہ وہ پولیس افسر ہیں جن کا نام سنتے ہی لوگ انہیں عزت و وقار کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
خالد جاوید جوئیہ کی سب سے نمایاں کامیابی جرائم کی روک تھام کے میدان میں سامنے آئی۔ ان کی قیادت اور نگرانی میں خانیوال کے صدر ڈویژن میں ڈکیتی کے واقعات میں تقریباً 70 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی۔ یہ کمی کسی حادثاتی رجحان کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ایک واضح حکمت عملی اور دن رات کی محنت کا ثمر تھی۔ رات کے گشت کو باقاعدہ بنایا گیا، ناکہ بندیوں کا نظام سخت کیا گیا اور مقامی مخبروں کے جال کو دوبارہ متحرک کیا گیا۔ یہ اقدامات مل کر ایسے ماحول کا سبب بنے جس میں جرائم پیشہ عناصر کو اپنی سرگرمیوں کے لیے زمین تنگ محسوس ہوئی۔
اگر منشیات کے خلاف ان کی مہم پر نظر ڈالی جائے تو خالد جاوید جوئیہ کی کارکردگی اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف بڑے نیٹ ورکس کو توڑا بلکہ چھوٹے ڈیلرز کو بھی جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی۔ ان کے آپریشنز کے دوران 200 کلوگرام سے زائد منشیات، جن میں چرس اور ہیروئن شامل تھیں، برآمد ہوئیں۔ ان کارروائیوں میں انہوں نے اینٹی نارکوٹکس فورس کے ساتھ قریبی تعاون کیا اور خفیہ اطلاعات پر مبنی چھاپے مارے۔ ساتھ ہی انہوں نے عوامی سطح پر آگاہی مہم بھی شروع کی تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ منشیات کے خلاف جنگ صرف پولیس کی ذمہ داری نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ہے۔
تفتیشی امور میں بھی خالد جاوید جوئیہ نے اپنی مہارت اور عزم کا لوہا منوایا۔ قتل، ڈکیتی اور منشیات کی سمگلنگ جیسے سنگین جرائم کے 75 فیصد کیسز حل کیے گئے۔ اس کامیابی کی بنیاد صرف روایتی طریقہ کار نہیں تھا بلکہ جدید فرانزک لیبارٹریوں کے ساتھ روابط، ڈیجیٹل شواہد کا استعمال اور تفتیشی افسران کی تربیتی ورکشاپس نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ جوئیہ نے صرف جرائم کو دبانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی بھی کوشش کی۔
عوامی شکایات کے حل کے شعبے میں بھی خالد جاوید جوئیہ نے اپنی بصیرت اور لگن کا مظاہرہ کیا۔ عوامی شکایات کے حل کی شرح 90 فیصد رہی، جو کہ ایک متاثر کن کارکردگی ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ ہیلپ لائن متعارف کرائی، ماہانہ اوپن کچہریوں کا اہتمام کیا اور ہفتہ وار ملاقاتوں کے ذریعے براہِ راست عوام کی بات سنی۔ یہ اقدامات اس بات کی علامت ہیں کہ وہ عوام کو محض اعداد و شمار میں نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ریلیف فراہم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔
انتظامی کارکردگی میں بھی ان کا انداز دوسروں سے منفرد رہا۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے لیے ہفتہ وار بریفنگز کا سلسلہ شروع کیا، ڈیوٹی شفٹس کو بہتر انداز میں منظم کیا اور پولیس اسٹیشن کے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کر دیا۔ بائیو میٹرک حاضری کا نظام متعارف کروانا بھی ان کا اہم قدم تھا، جس نے عملے کی حاضری اور نظم و ضبط کو بہتر بنایا۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک منظم منتظم ہیں جو ٹیم ورک کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔
سرکاری زمینوں پر قبضہ واگزار کروانا بھی خالد جاوید جوئیہ، ڈی ایس پی صدر خانیوال کا سب سے بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ لینڈ مافیا کے خلاف جتنے بھی آپریشن ہوئے، پولیس نے ان کی قیادت میں سو فیصد ٹارگٹ مکمل کیا۔ یہ وہی آپریشن تھے جو ماضی میں کئی بار ناکام ہو چکے تھے، مگر اس بار قبضہ گروپ کے لیے خالد جاوید جوئیہ، ڈی ایس پی صدر خانیوال ایک “لوہے کا چنا” ثابت ہوئے۔ ان کی جرات مندی اور غیر متزلزل عزم نے اس کام کو ممکن بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کارروائیوں کی بازگشت نہ صرف عوام میں سنائی دیتی ہے بلکہ تمام ریاستی ادارے اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب بھی اس کامیابی سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ان کی ٹیم میں شامل ایس ایچ اوز بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ صدر، سٹی، کچاکھوہ اور مخدوم پور کے تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوز جیسے شعبان خالد گورایہ، قرۃ العین اور ارسلان خالد اپنی مضبوط گرفت اور اچھی شہرت کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ خاص طور پر ایس ایچ او مخدوم پور قرۃ العین، جو اس وقت منشیات مافیا کی ہٹ لسٹ پر ہیں، درخواستوں کی یلغار کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ جوئیہ نے اپنی ٹیم میں جرات مند اور پرعزم افسران تعینات کیے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ خانیوال تحصیل میں ایس ایچ او سعد بن سعید کی کمی اب بھی محسوس کی جاتی ہے، کیونکہ ان کی جگہ خلا پر نہ ہو سکا۔ لیکن خالد جاوید جوئیہ نے اپنی حکمت عملی اور مضبوط اعصاب کے ذریعے اس خلا کو بڑی حد تک پورا کیا۔ یہ ان کی ٹیم مینجمنٹ کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔
خالد جاوید جوئیہ کی سب سے بڑی پہچان ان کی شائستگی اور باوقار انداز ہے۔ وہ عوام کے ساتھ دوستانہ تعلق قائم کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے دفتر میں آنے والے ہر فرد کو عزت ملتی ہے اور ان کے مسائل کو فوری حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام انہیں صرف ایک پولیس افسر نہیں بلکہ امید کی کرن سمجھتے ہیں۔ ان کا نام خانیوال کی شناخت بنتا جا رہا ہے اور لوگ انہیں اپنے شہر کی فخر کی علامت قرار دیتے ہیں۔
یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ خالد جاوید جوئیہ نے خانیوال کو ایک ماڈل ضلع بنانے کی سمت میں اہم قدم بڑھایا ہے۔ ان کی کاوشوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر نیت صاف اور ارادہ مضبوط ہو تو پولیس کو عوامی خدمت کا حقیقی ادارہ بنایا جا سکتا ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ ڈکیتی کے چند بڑے واقعات پولیس کے لیے اب بھی امتحان ہیں، منشیات کے چھوٹے نیٹ ورکس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی ضرورت ہے اور زمین سے متعلق تنازعات کے حل کے لیے مزید حکمت عملی درکار ہے۔ ماہرین کی تجویز ہے کہ شہر کے مضافاتی علاقوں میں سی سی ٹی وی نیٹ ورک کو وسعت دی جائے اور مقامی عمائدین کو اس عمل میں شریک کیا جائے تاکہ ان مسائل پر زیادہ بہتر قابو پایا جا سکے۔
لیکن ان تمام تجاویز اور منصوبوں سے ہٹ کر اصل بات یہ ہے کہ خالد جاوید جوئیہ نے اپنے عمل اور کردار سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک پولیس افسر عوام کے دل جیت سکتا ہے۔ وہ جرائم کے خلاف ایک مضبوط دیوار ہیں، مگر ساتھ ہی عوام کے لیے سہارا اور سہولت کا ذریعہ بھی ہیں۔ ان کی شخصیت اس بات کا ثبوت ہے کہ وردی میں سختی کے ساتھ انسانیت بھی چھپی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خانیوال کی گلیوں اور چوراہوں میں لوگ انہیں آج بھی عزت و وقار کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ نام اور عہدے بدلتے رہتے ہیں، مگر کچھ لوگ اپنی محنت، جرات اور دیانتداری سے تاریخ میں امر ہو جاتے ہیں۔ خالد جاوید جوئیہ انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ نہ صرف پولیس کے افسر ہیں بلکہ خانیوال کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بھی۔ اگر آج یہ ضلع محفوظ اور پرامن ہے تو اس کے پیچھے خالد جاوید جوئیہ جیسے افسر کی دن رات کی محنت اور قربانی شامل ہے۔ یہ کہانی خانیوال کے لوگوں کی زبانی ہے، جو اپنے محافظ کو عزت و وقار کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔













