خانیوال (ٹی این ایس) خانیوال کی سیاست کا ذکر آئے تو ایک طویل داستان شروع ہو جاتی ہے۔ اس ضلع کی مٹی زرخیز ہے، یہاں کے کھیتوں میں گندم بھی لہراتی ہے اور کپاس بھی، لیکن افسوس یہ ہے کہ اس مٹی سے جنم لینے والی سیاست اکثر بنجر نکلی۔ بڑے بڑے خاندان اقتدار میں آئے، بلند و بانگ دعوے کیے، جلسوں میں عوام کو ترقی و خوشحالی کے خواب دکھائے، مگر اقتدار کی گاڑی جیسے ہی ان کے ڈیروں سے واپس گئی، وہی پرانے زخم، وہی پرانی محرومیاں اور وہی ادھورے وعدے عوام کا مقدر بن گئے۔
یہاں نئے اور پرانے سیاستدان بھی سیاست کے تخت پر براجمان رہے، اپنی مرضی کی حکومت چلاتے رہے، انھیں اقتدار کی بارگاہوں تک رسائی رکھتے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کے باوجود خانیوال کا عام آدمی کیا حاصل کر سکا؟ گلیاں کچی ہی رہیں، ہسپتالوں میں علاج کی سہولت نہ ملی، سکولوں میں استاد غائب رہے، اور نوجوان روزگار کے لیے شہروں کی خاک چھانتے رہے۔
ایسے میں جب قیادت کا تاج سردار حامد یار ہراج کے سر پر سجا تو لوگ سوچنے لگے کہ شاید یہ بھی ایک اور سلسلہ ہے، شاید پھر سے وعدے ہوں گے، پھر سے منشور کی کتابچے چھپیں گے اور پھر وہی مایوسی۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس بار کہانی مختلف تھی۔ اس بار سیاست صرف تقریروں کا نام نہیں تھی بلکہ عملی منصوبوں اور ٹھوس اقدامات کا دوسرا نام تھی۔
عبدالحکیم اور مخدوم پور جیسے علاقے، جو دہائیوں سے پسماندگی کی مثال سمجھے جاتے تھے، پہلی بار ترقی اور سہولتوں کی روشنی دیکھنے لگے۔ وہاں جہاں ماضی میں لوگ بنیادی سہولتوں کے لیے ترستے رہے، آج ریسکیو 1122 کی گاڑیاں سائرن بجاتی پہنچتی ہیں۔ جہاں مریض ایمبولینس نہ ملنے پر دم توڑ دیتے تھے، وہاں اب بروقت امداد میسر ہے۔
یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ سردار حامد یار ہراج نے سیاست کو روایتی نعرے بازی کے بجائے خدمت کا ذریعہ بنایا۔ ان کا کردار صرف اپنے ضلع تک محدود نہ رہا بلکہ قومی سطح پر بھی نمایاں رہا۔ جب وہ وفاقی وزیر بنے اور چیئرمین ایرا (ERRA) کی ذمہ داری ملی تو یہ ادارہ محض کاغذی منصوبوں کا مرکز نہ رہا بلکہ عملی طور پر آفات سے متاثرہ لوگوں کی بحالی کا ذریعہ بن گیا۔ پاکستان میں قدرتی آفات کے بعد امدادی رقوم اکثر کرپشن کی نذر ہو جاتی ہیں، لیکن ہراج صاحب کے دور میں ایرا کے منصوبوں کو شفافیت اور کارکردگی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہزاروں متاثرین کو دوبارہ چھت ملی، اسکول اور اسپتال تعمیر ہوئے، اور روزگار کے مواقع پیدا ہوئے۔ یہ سب کسی عام وفاقی وزیر کی پہچان نہیں بنتے، لیکن ہراج صاحب نے یہ کمال کیا۔
پھر آیا 7 جنوری 2022 کا دن، جب عثمان بزدار کے دور میں انہوں نے صوبائی وزیر کے طور پر حلف اٹھایا۔ اس دن کے بعد خانیوال کے عوام کے لیے گویا ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ وہ منصوبے جو ماضی میں صرف انتخابی جلسوں کی تقریروں کا حصہ تھے، حقیقت کا روپ دھارنے لگے۔
ریسکیو 1122 کے مراکز عبدالحکیم اور مخدوم پور میں قائم ہوئے، موٹروے پر چار انٹرچینجز بنے — اور یہ سب ایک ہی حلقے میں ہونا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ مخدوم پور میں گرڈ اسٹیشن قائم ہوا جس نے علاقے میں بجلی کی فراہمی کو بہتر بنایا۔ نادرا اور پاسپورٹ دفاتر قائم ہوئے جن سے عام شہریوں کو وہ سہولت ملی جو پہلے بڑے شہروں تک محدود تھی۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن سے تعلیم اور صحت کے شعبے میں نئی جان ڈالی گئی۔
لیکن شاید سب سے بڑا کارنامہ انفراسٹرکچر کی بہتری ہے۔ اربوں روپے کے فنڈز سے سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں کارپٹ کی گئیں۔ کچہ کھوہ تا عبدالحکیم، پیرووال تا مخدوم پور، خانیوال تا مخدوم پور، خالق آباد تا کبیروالہ اور عبدالحکیم تا کبیروالہ روڈ جیسے منصوبے محض پتھر اور تارکول کی تہیں نہیں بلکہ اس سوچ کے استعارے ہیں کہ عوامی نمائندگی صرف ووٹ لینے کا نام نہیں بلکہ عوامی خدمت کا حق بھی ادا کرنا ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاستدان ایسا کیوں کرتا ہے؟ پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ سیاست اقتدار، طاقت اور ذاتی مفادات کا کھیل ہے۔ ترقیاتی فنڈز کو اکثر ذاتی جاگیروں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر سردار حامد یار ہراج کے اقدامات اس کلیے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ کیا یہ واقعی خدمت کا خالص جذبہ تھا یا عوامی حمایت کو مضبوط کرنے کا فارمولا؟ شاید دونوں۔ لیکن اگر یہ فارمولا عوام کے لیے سکول، ہسپتال اور سڑکیں لا سکتا ہے تو پھر عوام کے لیے یہ برا سودا نہیں۔
اہلِ خانیوال آج فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے ضلع کو وہ سہولتیں ملی ہیں جن کا وہ برسوں سے خواب دیکھ رہے تھے۔ وہ اسے محض ایک سیاستدان کا کمال نہیں سمجھتے بلکہ اسے اپنی تقدیر میں لکھی ایک نئی صبح قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سردار حامد یار ہراج وہ قائد ہیں جنہوں نے خانیوال کی تقدیر بدلنے کی بنیاد رکھی۔
یہ بھی درست ہے کہ ہر سیاستدان کے کام میں خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ ناقدین یہ بھی کہیں گے کہ یہ سب کچھ ووٹوں کے لیے کیا گیا، کہ یہ ترقیاتی منصوبے اصل میں سیاسی سرمایہ کاری ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے نزدیک فرق صرف اتنا ہے کہ وعدے اور اعلانات محض تقریروں تک محدود نہ رہیں۔ اگر سیاستدان ووٹ کے بدلے عوام کو سہولتیں اور ترقی دے، تو یہ ایک ایسا لین دین ہے جس پر عوام کو اعتراض نہیں۔
پاکستان کی سیاست میں یہ ایک نایاب بات ہے کہ کسی ضلع کے عوام اپنے رہنما کو اپنی آخری امید قرار دیں۔ لیکن خانیوال میں یہ جملہ عام ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ خانیوال کی ترقی اور خوشحالی کا دوسرا نام سردار حامد یار ہراج ہے۔ یہ عوامی گواہی کسی بھی سیاستدان کے لیے سب سے بڑا اعزاز ہے۔
سیاست میں دعوے تو سب کرتے ہیں، لیکن تاریخ صرف ان کو یاد رکھتی ہے جو عملی طور پر عوام کے لیے کچھ کر گزریں۔ سردار حامد یار ہراج کی خدمات خانیوال کی تاریخ میں اسی طرح درج ہیں۔ ان کے اقدامات نے ایک بات واضح کر دی ہے کہ اگر نیت ہو، وژن ہو اور عزم ہو تو پسماندہ علاقے بھی ترقی کے راستے پر چل سکتے ہیں۔
اور شاید یہی اصل فرق ہے — باقی سیاستدانوں کے وعدے ہوا میں اڑ جاتے ہیں، لیکن ہراج صاحب کی سیاست آج بھی خانیوال کی سڑکوں، اسکولوں اور ہسپتالوں میں زندہ ہے۔
اس کو ڈان نیوز کے ادارصفحہ کے میعار کے مطابق خبر میں ڈھال دیں
بہترین انگریزی کالم جیسا اسلوب دیں













