اسلام آباد (ٹی این ایس) جموں کشمیرکے شہدا کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور نہ ہی بھارتی فوج کشمیریوں کی آزادی کے جذبے کو کم نہیں کر سکتی۔
6 نومبر 1947ء کو کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے مجاہدین اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کا دن ہے۔ اس دن کو یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا ہے، جہاں ان شہداء کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کشمیر کی آزادی اور دفاع کے لیے لڑائی لڑی۔ شہداء کی یاد میں یہ دن بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گاپاک فوج نے ہمیشہ سے کشمیر کے معاملے پر کشمیری عوام کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ پاک فوج کے مطابق بھارتی جارحیت، اشتعال انگیز بیانات اور جنگجویانہ رویہ خطے کے امن و استحکام کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ پاک فوج نے کشمیری عوام کے ساتھ یوم استحصال کشمیرغیر متزلزل یکجہتی کا اظہار کیا یہ دن بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے غیر قانونی اقدام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کیا ہے۔ پاک فوج بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں پاک فوج دفاع وطن کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا پاک فوج نے نوجوانوں کو قومی سلامتی کے اصولوں اور حب الوطنی کے جذبے سے روشناس کرانے کے لیے اقدامات کیے ہیں
1947نومبر کے مہینے میں ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوج اور مسلح جتھوں نے جموں کشمیر کے علاقے میں 4لاکھ کے لگ بھگ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔اس،واقعہ کی ایک بڑی وجہ جموں سے مسلم اکثریت کو ختم کرنا تھا یہ مذموم عزائم ہری سنگھ کے تھے اس واقعہ میں ایک بڑی تعداد جو چار لاکھ کے قریب ہے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا اور 5 لاکھ کے قریب مسلمان جموں سے ہجرت پر مجبور کر دیے گئے تھے۔
نومبر 1947 کے وحشیانہ قتل عام کی یاد میں ہی کشمیر کے مسلمان ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے چلے آرہے ہیں اور جموں کے شہدا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اس واقعہ کے نتیجے میں جموں میں مسلمان اقلیت میں آ گئے جو واقعہ سے پہلے کل آبادی کا 61فیصد تھے لیکن بدقسمتی سے کشمیری مسلمانوں کا قتل عام بند نہیں ہوا اور اب وادی کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی مودی کی سازش جاری ہے۔ گویا ہری سنگھ سے مودی تک یہ سلسلہ جاری ہے ۔ آج دنیا بھر میں کشمیری ہر سال کی طرح 6 نومبر یوم شہدائے جموں منا رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کو یاد کیا جاسکے جنہیں 1947 میں ڈوگرہ افواج نے بے دردی سے قتل کیا تھا۔ نوجوان نسل کو بتایا جائے کہ ہری سنگھ کے سری نگر سے آنے کے بعد مہاراجہ اور ان کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا تھاجموں شہر میں مسلمان اس وقت مسلم کانفرنس کے زیر اثر تھے جو اس وقت کشمیری مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت تھی۔ تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ نے جموں میں فرقہ پرست آر ایس ایس کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بلراج مدھوک، کیدار ناتھ ساہنی، وجے ملہوترا اور مدن لال کھرانہ جیسے آر ایس ایس کے اہم رہنما 1940 کی دہائی کے دوران آر ایس ایس کے انچارج کی حیثیت سے جموں میں تعینات رہے۔ گورنر چیت رام چوپڑا اور ڈی آئی جی پولیس بخشی ادھے چند نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا پھر انتظامیہ نے بھی اس قتل عام میں حصہ لیا۔ منظم مسلح ہندو جتھے بھمبھر تک پہنچ گئے گئے تھے مگر سات دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی کشمیریوں کے مصائب ختم نہیں ہوئے ہیں کشمیری اب ڈوگرہ راج میں نہیں رہ رہے لیکن بھارتی غیر قانونی قبضے کے باعث ان کے حالات بدسے بدتر ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھارت کشمیر میں تقریباً 10لاکھ فوجی تعینات کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی علاقہ ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث رہا ہے۔ آج ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہے جو ہری سنگھ نے اپنائی تھی۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالات درپیش ہیں آج کشمیری عفت مآب خواتین کے ساتھ عصمت دری کو بھارت کی مسلح افواج جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں, بھارتی حکومت نے مقامی لوگوں کے جائیداد کے حقوق کو تبدیل کر دیا ہے جس سے کشمیری قیادت کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی ڈیموگرافی کو تبدیل کردیں گے کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی لانے کے لئے ہندوستان کی کوشش جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ 1977کے اضافی پروٹوکول 1کے آرٹیکل 85 (4) (اے) میں یہ فراہم کیا گیا ہے کہ قابض طاقت کی طرف سے اپنی شہری آبادی کے کچھ حصوں کو اس علاقے میں منتقل کرنا جس پر اس کا قبضہ ہے یہ پروٹوکول کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ کشمیر پر بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو مسلسل نظر انداز کیا ہوا ہے
6 نومبر 1947 کے دن مقبوضہ کشمیر کے صوبہ جموں میں ڈوگرہ فوجیوں، ہندو بلوائیوں اور سکھ جتھوں نے مسلمانوں کی بستیوں پر دہشتگردانہ حملوں میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا لاکھوں مسلمانوں کو جبراً گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ 6 نومبر کے سانحے سے پہلے جموں شہر میں مسلمانوں کی آبادی 61 فیصد تھی جو شہادتوں اور ہجرتوں کے بعد معض 38 فیصد رہ گئی۔ 6 نومبر کے سانحے میں ہزاروں مسلم خواتین کو ہندو اور سکھ دہشت گردوں نے اغوا کرلیا تھا۔ بھارتی حکمرانوں نے ایک منظم سازش کے تحت جموں میں قتلِ عام کیا تھا بھارت کے اسلام اور مسلم دشمن حکمران اسی سازش کے تحت سنہ 1989 کے بعد سوا لاکھ مسلمانوں کو شہید کرچکی ہے مقبوضہ کشمیر میں اب بھی نوجوانوں کا قتل عام جاری ہے۔ ایک منظم نسل کشی کرکے بھارت جموں کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنے کے گھناؤنے منصوبوں پر گامزن ہے۔ کشمیری عوام اس بات کا عہد کرچکے ہیں کہ جب تک بھارت کا غاصبانہ فوجی قبضہ ختم نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔ بھارت جبرواسبتداد کے ذریعے کشمیری عوام کے حوصلوں کو نہیں توڑ سکتا کشمیری عوام پورے عزم و استقلال کے ساتھ بھارتی سامراجی قبضے کے خلاف میدان عمل میں موجود ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان سے الحاق کے حق میں بغاوت کا آغاز اکتوبر 1947ء کو ہوا۔ 21 اور 22 اکتوبر کی درمیانی رات پونچھ کے جنگجوؤں نے پاکستان سے آنے والے قبائلیوں اور پاک فوج کے چند افسروں کی مدد سے ڈومیل کے مقام پر دریائے جہلم کے پل کے دفاع پر مامور ڈوگرا رجمنٹ کو بے بس کرکے سری نگر جانے والی سڑک کو کھول دیا۔ سری نگر اب محض 100 میل کے فاصلے پر تھا لیکن مسلمان جنگجوؤں کے پاس وہ ذرائع نہیں تھے جن کو استعمال میں لاکر وہ جلدی سری نگر پہنچ سکتے۔ 24 اکتوبر 1947ء راجہ ہری سنگھ کو یقین ہوچلا تھا کہ اب صورتحال اس کے ہاتھ سے نکل چکی ہے۔ لہٰذا 24 اکتوبر کو ریاست کشمیر کے نائب وزیراعظم کو دہلی روانہ کردیا گیا تاکہ وہ بھارت سے فوج روانہ کرنے کی درخواست کرسکے۔ 25 اکتوبر 1947ء کو
بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے 25 اکتوبر کو برطانوی وزیراعظم کلیمنٹ اٹیلی کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا تھا : ”ہمیں کشمیر حکومت کی جانب سے فوری فوجی مدد کی درخواست موصول ہوئی ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم اس درخواست کا مثبت جواب دیں کیونکہ بھارت کی سلامتی کا دارومدار کشمیر کے داخلی امن و امان پر ہے۔ میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس ہنگامی حالت میں کشمیر کو مدد و اعانت فراہم کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ الحاق پر مجبور کررہے ہیں۔ کشمیر کے الحاق کا معاملہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طے کیا جائے گا۔” دو روز بعد برطانوی وزیراعظم کا جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا کہ کسی طور بھی فوجی مداخلت نہ کی جائے کیونکہ اس سے صورتحال خراب ہوگی لیکن بھارت پہلے ہی کشمیر میں فوج داخل کرچکا تھا۔ 27 اکتوبر 1947ءکو بھارت کو گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریاست کشمیر میں فوجی مداخلت کی درخواست قبول کرتے ہوئے راجہ کو جو خط تحریر کیا اس میں کہا گیا ”ہم اپنی اس پالیسی پر قائم ہیں کہ کوئی بھی ایسی ریاست جس کے الحاق کے معاملے پر تنازعہ ہے اس کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہوگا۔ میری حکومت کی خواہش ہے کہ جیسے ہی کشمیر میں امن وامان بحال ہوجائے اورحملہ آور واپس چلے جائیں تو کشمیر کے الحاق کا معاملہ وہاں کے لوگوں کی مرضی کے مطابق طے کیا جانا چاہیے۔ 2 نومبر 1947ءکو نہرو آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کشمیر کے الحاق کا معاملہ وہاں کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق طے کرنے کا عہد ہم نے دیا ہے۔ ہم اس عہد کو توڑیں گے نہ ہی توڑ سکتے ہیں۔
5 اور 6 نومبر کی درمیانی رات ڈوگرا سپاہیوں نے جموں شہر میں آباد 5000 مسلمانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ کیا۔ راستے میں ان پر حملے کا انتظام پہلے ہی کرلیا گیا تھا۔ ڈوگرا سپاہی اس قافلے کو لے کر سیدھے اس مقام پر پہنچے جہاں قاتل گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جنہوں نے ان تمام افراد کو شہیدکردیا۔ جب برصغیر تقسیم ہوا تو ریاست جموں و کشمیر اس خطے میں غیر معمولی اہمیت اختیار کرچکی تھی۔ کیونکہ اب اس کی سرحد نہ صرف پاکستان اور بھارت کے ساتھ منسلک تھیں بلکہ افغانستان اور چین کے ساتھ بھی اس کی سرحد ملتی تھی۔ ممتاز مصنف ایلیسٹر لیمب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ اگر برطانوی فیصلہ سازوں نے کشمیر کے معاملے میں بھی بنگال اور پنجاب کی تقسیم کی منطق کو بروئے کار لایا ہوتا تو یہاں بھی ایک ایسی سرحد کھینچی جاسکتی تھی جس میں ریاست کے مغرب میں مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوتے جبکہ مشرق میں بدھ اور ہندو اکثریت والے علاقے بھارت میں شامل ہوتے۔” ” ڈوگرا راجہ کے حکم پر مسلمانوں کو جموں سے بے دخل کرنے کا کام پوری شدت سے شروع کر دیا گیا۔ لیکن جلد ہی ظاہر ہو گیا کہ مسلمانوں کا مکمل صفایا ممکن نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ جبر و استبداد کے ذریعے مسلمانوں کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ایک اندازے کے مطابق 1947 میں اگست اور ستمبر کے محض دو ماہ کے مختصر عرصے میں پانچ لاکھ سے زائد مسلمانوں کو ریاست سے بے دخل جبکہ دو لاکھ سے زائد کو شہید کر دیا گیا۔یہ صرف وہ تعداد ہے جو تصدیق شدہ ہے اس سے پہلے اور بعد میں ظلم کا شکار ہونے والوں کا کوئی شمار نہیں۔ بھارت نے مسلسل ایسے اقدامات کو جاری رکھا جو کشمیر کی بین الاقوامی سطح پر متنازعہ حیثیت کے بالکل برعکس تھے۔ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت دو بنیادی فریق ہیں اس حوالے سے ان دونوں ملکوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے کئے ہوئے وعدوں کی پاسداری کریں لیکن اس سلسلے میں بھارت نے کبھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ دراصل بھارت نے اپنے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے ذریعے پاکستان کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ بھارت کو اپنے مقاصد سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے کا ایک اہم ترین پہلو یہ ہے کہ بھارت کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لئے آئینی اقدامات کر رہا تھا۔ پاکستان کے بارہا کہنے کے باوجود عالمی تنظیم نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ قبل ازیں بھارت نے رن آف کچھ میں پاکستانی علاقے پر حملہ کیا۔ وہاں سے شکست کھانے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو بھارتی وفاقی ڈھانچے میں شامل کر لیا اور کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا حالانکہ کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت بین الاقوامی برادری کے سامنے کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کر چکا تھا۔ ایسی صورت میں پاکستان کا ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا کسی طور منطقی بات نہیں تھی۔ عسکری امور کے ممتاز ماہر رسل برائنز نے جنگ ستمبر پر نامی کتاب لکھی ہے جسے عسکری حلقوں میں بہت معتبر تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ وہ بھارت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے ”مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا صوبہ قرار دینے کا اقدام بالکل ایسا ہی تھا جیسا جنگ ستمبر سے 20 سال پہلے کانگریس نے کیا تھا۔ کانگریس کی منفی سیاست کے باعث قائداعظم جیسا مدبر سیاست دان بھی ڈائریکٹ ایکشن (راست اقدام) پر مجبور ہو گیا۔ اسی کے نتیجے میں کلکتہ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔” اپنے اس تجزیئے کے آخر میں رسل لکھتا ہے ”بھارت کے اس انتہائی اقدام نے پاکستان کی طرف سے سیاسی مقاصد طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کا معقول جواز پیدا کر دیا تھا۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کا اعلان کر کے بھارت نے خود ہی جنگ کو ناگزیر بنا دیا تھا بھارت کے نندا کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کے تحت مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ اس جنگ میں میں پاک فوج نے بہادری، شجاعت اور جوانمردی کی وہ داستانیں رقم کیں جن کی مثال پیش کرنا مشکل ہے۔ بالخصوص پاک فضائیہ نے اپنی فضائی لڑائیوں اور بری فوج کی مدد کے لئے زمینی کارروائیوں میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کشمیری عوام کی جدوجہد پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے ہے اور وہ اس مقصد کے لیے قیام پاکستان سے لے کر آج تک قربانیاں دے رہے ہیں کنٹرول لائن کی دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم شہدائے جموں اس عزم کی تجدید کے ساتھ مناتے ہیں کہ حق خودارادیت کے حصول تک شہدا کے مشن کو جاری رکھا جائے گا ۔6 نومبر کو جموں و کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ترین دن کے طور پر منایا جاتا ہے،جب مظلوم اور بے کس ومحکوم کشمیریوں کا خون بہایا گیا۔تب سے یہ دن نہ صرف کنٹرول لائن کی دونوں جانب ،بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے تاکہ ایک اس سانحہ میں اپنی جانوں سے گزرنے والوں کو یاد اور انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے دوسرا اس بہیمانہ اور انسایت سے عاری اقدام کی طرف مہذب دنیا کی توجہ مبذول کرائی جائے۔مہاراجہ ہری سنگھ کی فوجوں، بھارتی افواج اور ہندوتوا غنڈوںنے جموں کے مختلف علاقوں میں لاکھوں کشمیریوں کا اس وقت قتل عام کیاتھا جب وہ نومبر 1947 کے پہلے ہفتے میں پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔ یقیناجموں قتل عام دوسری عالمی جنگ کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر پہلی نسل تطہیر تھی۔ کشمیری عوام ہر سال جموں کے مسلمانوں کی قربانیوں کو یاد کرنے کیلئے یوم شہدا ئے جموں مناتے ہیں۔جموں کے مسلمانوں کے سفاکانہ قتل عام کا مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا تھا،کیونکہ جن علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،وہاں پہلے مسلمانوں کی 66 فیصدآبادی تھی جو قتل عام کے بعد گھٹ کر 33فیصد رہ گئی ۔بلاشبہ جموں کے مسلمانوں کی جانب سے دی گئی قربانیاں مقبوضہ جموںوکشمیر کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جاچکی ہیں۔ ۔1947 میں جموں کا قتل عام ہندوتوا طاقتوں کے مجرمانہ چہرے کی یاد دلاتا ہے۔ 1947 میں جموں سے شروع ہونے والا قربانیوں کا سلسلہ آج بھی مقبوضہ جموں و کشمیرمیں جاری و ساری ہے، 6نومبر1947 انسانی تاریخ کا خونین سانحہ جو کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا ہے لاکھوں معصوم اور بے بس مسلمانوں کا قتل عام بھارت کے دامن پر ایک ایسا سیاہ دھبہ ہے جسے کسی صورت دھویا نہیں جاسکتا۔ اس نسل کشی پر اگر چہ بڑی طاقتوں اور عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی لمحہ فکریہ ہے لیکن کشمیری عوام تاریخ کے اس بدترین انسانی سانحہ کے باوجود اپنی عظیم اور لازوال جدوجہد مقصد کے حصول تک جاری رکھنے کا عزم کرچکے ہیں ،یہی وجہ ہے 1989 کے بعد بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے شروع کی جانے والی جدوجہد میں اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری جن میں مردو زن،بچے اور خواتین بھی شامل ہیںاپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں۔ اہل کشمیر کی ان قربانیوں کا تقاضا ہے کہ ان کے ساتھ ہر حال میں وفا کی جائے،جو مقبوضہ جموں وکشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کیلئے دی جارہی ہیں۔
جموں کے مظلوم مسلمانوں کی بے مثال قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ مودی اور ان کے حواریوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھرایا جانا چاہیے۔عالمی برادری کشمیری عوام کے بہیمانہ قتل عام کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔کشمیری عوام حوصلے اور بہادری کے ساتھ بھارتی بربریت کا مقابلہ جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔مودی حکومت کو مقبوضہ جموں و کشمیرمیں اس کے جنگی اور انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ ٹھرایا جانا چاہیے













