اسلام آباد (ٹی این ایس) کشمیر پاکستان کا حصہ تھا، حصہ ہے اور حصہ رہے گا

 
0
14

اسلام آباد (ٹی این ایس) کشمیر پاکستان کا حصہ تھا، حصہ ہے اور حصہ رہے گا پاکستان تنازعہ کشمیر کا ایک اہم فریق ہے جو کشمیریوں کے حق خودارایت کی بھر پور وکالت اور ترجمانی کر رہا ہے آزاد جموں و کشمیر ہو یا مقبوضہ کشمیر، تقسیم ہند کے طے کردہ فارمولے کے مطابق بھی پاکستان کا ہے اور اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کے مطابق بھی ہمارا ہے۔ یہ بات صرف پاکستان ہی نہیں کہہ رہا ہے بلکہ یہ بات بھارتی قیادت، جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک مانتے رہے ہیں۔کشمیری پاک فوج کو اپنا محافظ سمجھتے ہیں ، مملکت خداداد میں شامل ہونا کشمیریوں کا ایک دیرینہ خواب ہے جو ایک دن ضرور پورا ہوگا۔ بھارت نے جموں و کشمیر کے ایک بڑے حصے پر کشمیریوں کی مرضی کے خلاف تسلط جما رکھا ہے اور وہ انکی آزادی کی آواز کو طاقت کے بل پر دبانے کی پالیسی پر مسلسل عمل پیرا ہے۔ بھارتی افواج نے 27اکتوبر 1947میں سری نگر میں داخل ہو کر بین الاقوامی قوانین اور کشمیری عوام کے آزادی کی صریح خلاف ورزی کی تھی، جس سے ایشیا میں پاک بھارت تصادم کی راہ بھی ہموار ہوئی جس کی ذمے داری بھارت کے سر ہے ،
1947 کی تقسیم کے بعد پاکستانی فوج نے 1947 کی کشمیر جنگ میں قبائلیوں کی مدد کی جنگ کے بعد آزاد کشمیر رجمنٹ کومنظم کیا گیا جس نے تمام بڑی جنگوں اور آپریشنز میں حصہ لیا پاکستان آرمی متعدد فوجی مصروفیات میں شامل رہی ہے، بشمول سیاچن کا تنازعہ جہاں اس نے برفانی وادیوں پر اپنے کنٹرول کے دفاع کے لیے بھاری موجودگی برقرار رکھی ہے۔جب تک کشمیری عوام کو ان کے حقوق نہیں دئیے جائیں گے، امن خواب رہے گا پاکستانی فوج کی کشمیر میں شمولیت کی ایک طویل تاریخ ہے، جس کا آغاز 1947 میں پہلی کشمیر جنگ سے ہوا جب اس نے مہاراجہ کے بھارت کے ساتھ الحاق کے خلاف قبائلی قوتوں کی حمایت کی۔
پاکستان بھارتی جارحیت کے خلاف دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور دفاع وطن کے لیے پرعزم ہے پاکستان کا مؤقف ہے کہ جموں و کشمیر متنازع علاقہ ہے جس پر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے
پاکستان کشمیری عوام کی حق خودارادیت اور آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرتا ہے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی طرف سے حملہ کیا گیا تو ان کی فوج “ہماری مادر وطن کے ایک ایک انچ” کے دفاع کے لیے تیار ہے۔انہوں نے یہ ریمارکس لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کا دورہ کرتے ہوئے کہے تھے جو متنازعہ کشمیر کے علاقے کو تقسیم کرتی ہے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ہم نے حال ہی میں گلگت بلتستان اور جموں و کشمیر پر بھارتی قیادت کے انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیانات دیکھے ہیں۔ “میں واضح طور پر واضح کر دوں، پاکستان کی مسلح افواج نہ صرف اپنی مادر وطن کے ایک ایک انچ کے دفاع کے لیے تیار ہیں بلکہ دشمن کے خلاف جنگ کو واپس لے جانے کے لیے، اگر کبھی ہم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے جنرل عاصم منیر نے اپنے دورہ مظفرآباد کے موقع پر کشمیری عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور پاکستان کا رشتہ لازم و ملزوم ہے اور کشمیر پاکستان کا حصہ تھا، ہے اور رہے گا جنرل سید عاصم منیر نے کشمیر کے حوالے سے پاک فوج کے عزم کا اظہار کیا ہے ان کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور قوم نے ہمیشہ کشمیری بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا ثبوت دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ پاک فوج بھارتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور دفاع وطن کے لیے پرعزم ہے کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہونے تک خطے میں امن و استحکام قائم نہیں ہو سکتا پاک فوج کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور کشمیری عوام کے ساتھ کھڑی ہے پاکستانی آرمی چیف کے حالیہ بیانات نے بھی خطے میں جدوجہد کو “آزادی کی جائز جدوجہد” کے طور پر دفاع کیا ہے اوربھارت کو مستقبل میں ہونے والے حملوں کے خلاف خبردار کیا ہے
پاکستانی فوج لائن آف کنٹرول کے پاکستانی جانب موجود ہے، اس کے بنیادی کردار میں لائن آف کنٹرول کی حفاظت اور سرحد پار سے ہونے والی سرگرمیوں اور ہندوستانی فوج کے ساتھ جھڑپوں کا جواب دینا شامل ہے خطے میں ایک اہم نیم فوجی موجودگی بھی ہے آرمی چیف نے حالیہ بیانات میں جموں و کشمیر کے تنازع کو “آزادی کی جائز جدوجہد” قرار دیا ہے اور مستقبل میں کسی بھی حملے کی صورت میں بھارت کو “مناسب جواب” دینے کے لیے خبردار کیا ہے پاک فوج نے ہمیشہ سے کشمیر کے معاملے پر کشمیری عوام کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ پاک فوج کے مطابق بھارتی جارحیت، اشتعال انگیز بیانات اور جنگجویانہ رویہ خطے کے امن و استحکام کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
پاک فوج نے کشمیری عوام کے ساتھ یوم استحصال پر یکجہتی کا اظہار کیا یہ دن بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے غیر قانونی اقدام کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ پاک فوج نے بھارتی جارحیت کے خلاف کشمیریوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا عزم کیا ہے۔ پاک فوج بھارت کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں پاک فوج دفاع وطن کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا پاک فوج نے نوجوانوں کو قومی سلامتی کے اصولوں اور حب الوطنی کے جذبے سے روشناس کرانے کے لیے اقدامات کیے ہیں
ایل او سی ایک متنازعہ 740 کلومیٹر (460 میل) ڈی فیکٹو بارڈر جو کشمیر کے علاقے کو دو حصوں میں کاٹتی ہے، اس پر بھارت اور پاکستان کا دعویٰ ہے، جو دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سپر پاور ہیں۔ایل او سی، جسے قانونی طور پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد نہیں سمجھا جاتا ہے، 1971 کی پاک بھارت جنگ کے اختتام پر شملہ معاہدے کے ایک حصے کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیاء میں پائیدار امن کے قیام کیلئے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل ناگزیر ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے بیان سے حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔
جنرل سید عاصم منیر نے رسالپور میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کے دوران کشمیریوں کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھنے کے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیاتھا
پاکستان نےبھارت کو واضح پیغام دیاتھا کہ وہ کشمیر پر جھوٹ بولنا بند کرے کیونکہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جس کی حتمی حیثیت کاتعین ابھی ہونا باقی ہے
آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا تھاکہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ غیر قانونی ہے، کشمیر میں جاری بھارتی مظالم اور جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی کے باوجودمقبوضہ علاقے میں آزادی کی صدائیں گونجتی ہیں۔انہوں نے کہاتھا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں یہ دن منانا نہ صرف بھارت کی جانب سے کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی یاد دلاتا ہے بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی ابھی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اسے طاقت، قانون سازی یا ریاستی جبر سے دبایا جا سکتا ہے۔ 5 اگست 2019 کو بھارت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے دفعہ 370 اور 35-A کو منسوخ کیا۔ یہ وہ دفعات تھیں جن کے تحت مقبوضہ کشمیر کو ایک نیم خود مختار حیثیت حاصل تھی اور کشمیری عوام کو اپنی شناخت اور زمین پر حقِ ملکیت حاصل تھا۔ ان دفعات کے خاتمے کا مقصد نہ صرف مقبوضہ علاقے کو بھارت میں ضم کرنا تھا بلکہ کشمیریوں کی شناخت، زمین اور وجود کو مٹانا بھی تھا۔ بھارت نے اس اقدام کو پارلیمنٹ کے ذریعے قانونی شکل دی، مگر بین الاقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں یہ اقدام سراسر غیرقانونی، یکطرفہ اور جابرانہ تھا۔ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کردیا گیا، جہاں انسانی حقوق کی پامالی معمول بن گئی۔
درحقیقت اس روز بھارت نے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ یہ اقدام نہ صرف اقوامِ عالم کے ضمیر پر ایک زوردار ضرب تھا بلکہ ایک ایسے خطے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق پر بھی حملہ تھا جو گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے حقِ خود ارادیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں
بھارت نے یکطرفہ طور پر آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو براہِ راست مرکز کے ماتحت کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے آبادی کا تناسب تبدیل کرنے، کشمیریوں کو بے دخل کرنے اور وہاں کی سیاسی، مذہبی اور ثقافتی شناخت مٹانے کے لیے اقدامات شروع کیے۔ یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہیں، جو جموں و کشمیر کو ایک متنازع علاقہ تسلیم کرتی ہیں اور وہاں رائے شماری کے انعقاد پر زور دیتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ بھارت نے وہاں ایک کرفیو زدہ ماحول قائم کر رکھا ہے۔ کشمیری قیادت کو نظر بند یا جیل میں ڈال دیا گیا ہے عوام کو خوف کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہر روز نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگی اور جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارتی فورسز کی جانب سے ’’ کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز‘‘ کے نام پر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق چارٹر کی صریح خلاف ورزیاں ہیں، جن پر عالمی برادری کو فوری اور موثرکارروائی کرنی چاہیے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایک منظم طریقے سے آبادیاتی تبدیلی کی کوشش کر رہا ہے بھارتی شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے، انھیں زمین خریدنے اور مستقل رہائش کے حقوق دیے جا رہے ہیں۔ اس کا مقصد کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے تاکہ ریفرنڈم یا حقِ خودارادیت کی صورت میں بھارت کو نتائج اپنے حق میں مل سکیں اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں تسلیم کیا ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، جس کا فیصلہ کشمیری عوام کی مرضی سے ہونا چاہیے۔ اقوامِ متحدہ کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کو بین الاقوامی اصولوں کے تحت تسلیم کرتا ہے
برصغیر کی تقسیم کے وقت برطانوی راج کے زیر انتظام 562 ریاستوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کریں جب 1947 میں برصغیر کی تقسیم ہوئی تو ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی، کشمیر کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ ایک ظالم اور خود غرض حکمران تھا جو ڈوگرہ خاندان سے تعلق رکھتا تھا، 1925 سے 1947 تک ریاست جموں و کشمیر کا حکمران رہا۔ کشمیری عوام کی اکثریت نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی خواہش ظاہر کی۔ قائداعظم محمد علی جناح کے نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا مطالبہ، کشمیری عوام کے دل کی آواز بنا۔ پاکستان سے مذہبی، تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی قربت کے باعث کشمیری عوام کا جھکاؤ فطری طور پر پاکستان کی طرف تھا۔ 19جولائی 1947کو ریاست جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی نمایندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے سری نگر میں ایک تاریخی قرارداد منظورکی، جس میں ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کی قیادت کی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے 14اگست 1947کو ایک علیحدہ ریاست پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح اور اصولی ہے کہ جموں و کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک جموں و کشمیر کے تنازع کا منصفانہ حل تلاش نہ کیا جائے۔ بھارت کی طرف سے طاقت اور تشدد کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوششیں ان کی جدوجہد کو مزید تقویت بخشتی ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آزادی کی تڑپ کو کبھی بھی زنجیروں میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ اقوامِ عالم پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ بھارت کو اس غیر قانونی اقدامات واپس لینے پر مجبور کریں۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے سنجیدہ عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے، تاکہ کشمیری عوام کو وہ حق دیا جا سکے جس کا وعدہ ان سے کیا گیا تھا۔ پاکستان 4 جنگیں لڑ چکا ہے، لیکن اس کے باوجود امن کے راستے پر قائم ہے۔ پاکستان ہر بین الاقوامی فورم پر یہ پیغام دیتا رہا ہے کہ خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل ہے۔ جموں کشمیرکے شہدا کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی اور نہ ہی بھارتی فوج کشمیریوں کی آزادی کے جذبے کو کم نہیں کر سکتی۔یوم شہدا جموں کشمیر
6 نومبر 1947ء کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہونے والے مجاہدین اور پاک فوج کے جوانوں کی شہادت کا دن ہے۔ یوم شہدا پر انکو یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر کشمیر کی آزادی اور دفاع کے لیے لڑائی لڑی۔ شہداء کی یاد میں یہ دن بہت اہمیت رکھتا ہے اور ان کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا یہ دن ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ کشمیری عوام آج بھی ظلم، جبر اور ناانصافی کا شکار ہیں، مگر ان کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ان کے جذبے، حوصلے بھارت کی ہر سازش کو ناکام بنا رہے ہیں۔ ہم کشمیری عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں وہ دن دور نہیں جب تک کشمیری عوام اپنا جائز اور ناقابلِ تنسیخ حقِ خود ارادیت حاصل نہیں کر لیتے