اسلام آباد (ٹی این ایس) مقبوضہ کشمیرکی آزادی وقت کی ضرورت, حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجود

 
0
16

اسلام آباد (ٹی این ایس) مقبوضہ کشمیرکی آزادی وقت کی ضرورت ہے جبکہ حل اقوام متحدہ کی قراردادوں میں موجودہےدیرینہ مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل ہونا چاہیے,پاکستان اور بھارت کے 1947 میں قیام کے بعد تنازع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں, پاکستان اور بھارت کے 1947 میں قیام کے بعد تنازع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن، سات دہائیوں بعد بھی یہ تنازع حل نہ ہوسکا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازع کشمیر سے متعلق سب سے پہلی قرار داد جنوری 1948 میں منظور کی اور اب تک اس تنازع کے حل کے لیے ایک درجن سے زائد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔سلامتی کونسل میں 17 جنوری 1948 کو منظور کی گئی 38ویں قرار داد میں کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کو ایسے بیانات دینے سے روکا گیا، جن سے حالات مزید کشیدہ ہوں۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ تنازع کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے۔قرار داد نمبر 39 میں 20 جنوری 1948 کو منظور کی گئی قرار داد میں تنازع کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔ کمیشن میں ایک رکن بھارت، ایک پاکستان اور ایک رکن دونوں کی باہمی رضا مندی سے منتخب کرنے کے لیے کہا گیا۔ کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو مشترکہ خط کے ذریعے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے سفارشات دینا تھا۔قرار داد نمبر 47میں پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 39 کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے اراکین کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی۔ ارجنٹائن، بیلجیئم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اور امریکہ کے نمائندے بھی کمیشن میں شامل کیے گئے۔21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کرے۔ قرار داد میں تنازع کے حل کے لیے تین اقدامات کرنے کو کہا گیا تھا۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ان شہریوں کو جو کشمیر میں لڑنے گئے ہیں، واپس بلائے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج میں مرحلہ وار کمی کرے اور کشمیر میں اتنی فوج ہی رکھے جتنی امن و امان کے قیام کے لیے درکار ہے۔ دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے۔قرار داد نمبر 51 میں 3 جون 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے کمیشن کو متنازع علاقوں میں جا کر سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کرانے کا کہا گیا۔ یاد رہے کہ بھارتی افواج نے 27اکتوبر 1947میں سری نگر میں داخل ہو کر بین الاقوامی قوانین اور کشمیری عوام کے آزادی کی صریح خلاف ورزی کی تھی، جس سے ایشیا میں پاک بھارت تصادم کی راہ بھی ہموار ہوئی کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اوراب وقت آگیا ہےکہ اقوام متحدہ کے مستقل ممبران مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ بھارت کے پاس مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنےقبضے اورنسل کشی کا جواز پیش کرنےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے جبکہ پاکستان کے پاس تمام بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کیس کی پیروی کرنے کے لیے تمام قانونی بنیاد اور جواز موجود ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد اورکشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق کشمیر کا پرامن حل ہی خطے میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کا واحد راستہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے 1947 میں قیام کے بعد تنازع کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں متعدد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں لیکن، سات دہائیوں بعد بھی یہ تنازع حل نہ ہوسکا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازع کشمیر سے متعلق سب سے پہلی قرار داد جنوری 1948 میں منظور کی اور اب تک اس تنازع کے حل کے لیے ایک درجن سے زائد قرار دادیں منظور ہو چکی ہیں۔سلامتی کونسل میں 17 جنوری 1948 کو منظور کی گئی 38ویں قرار داد میں کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورت حال پر پاکستان اور بھارت کے نمائندوں کو ایسے بیانات دینے سے روکا گیا، جن سے حالات مزید کشیدہ ہوں۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ تنازع کشمیر سلامتی کونسل میں زیر غور ہے۔قرار داد نمبر 39 میں 20 جنوری 1948 کو منظور کی گئی قرار داد میں تنازع کشمیر کے حل کے لیے تین رکنی کمیشن بنایا گیا۔ کمیشن میں ایک رکن بھارت، ایک پاکستان اور ایک رکن دونوں کی باہمی رضا مندی سے منتخب کرنے کے لیے کہا گیا۔ کمیشن کا کام سلامتی کونسل کو مشترکہ خط کے ذریعے خطے میں امن قائم کرنے کے لیے سفارشات دینا تھا۔قرار داد نمبر 47میں پاکستان اور بھارت کے دلائل سننے کے بعد سلامتی کونسل نے قرار داد نمبر 39 کے تحت بنائے گئے خصوصی کمیشن کے اراکین کی تعداد بڑھا کر پانچ کردی۔ ارجنٹائن، بیلجیئم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اور امریکہ کے نمائندے بھی کمیشن میں شامل کیے گئے۔21 اپریل 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کمیشن کو ہدایات دی گئیں کہ وہ خطے میں جا کر دونوں ممالک کے درمیان امن بحال کرائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے منعقد کرانے کے انتظامات کرے۔ قرار داد میں تنازع کے حل کے لیے تین اقدامات کرنے کو کہا گیا تھا۔ پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنے ان شہریوں کو جو کشمیر میں لڑنے گئے ہیں، واپس بلائے جب کہ بھارت سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوج میں مرحلہ وار کمی کرے اور کشمیر میں اتنی فوج ہی رکھے جتنی امن و امان کے قیام کے لیے درکار ہے۔ دونوں ممالک سے کہا گیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے۔قرار داد نمبر 51 میں 3 جون 1948 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں اقوام متحدہ کے کمیشن کو متنازع علاقوں میں جا کر سلامتی کونسل کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کرانے کا کہا گیا۔ قرار داد میں پاکستان کے اُس وقت کے وزیر خارجہ کی طرف سے سلامتی کونسل کو لکھے گئے خط کو بھی شامل کرنے کا کہا گیا۔​قرار داد نمبر 80میں اقوام متحدہ کے کمیشن اور نمائندہ جنرل مکنوٹن کی رپورٹس کے بعد سلامتی کونسل کی طرف سے دونوں ممالک کو جنگ بندی اور جموں و کشمیر کو فوج سے پاک علاقہ رکھنے کے معاہدے پر قائم رہنے کی تلقین کی گئی۔14 مارچ 1950 کی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کنٹرول لائن تک پیچھے ہٹانے کے لیے کہا گیا۔ شمالی علاقہ جات کو اقوام متحدہ کے زیر انتظام کیا گیا اور استصواب رائے کے انعقاد کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے نمائندہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔قرار داد نمبر 91 میں نمائندہ اقوام متحدہ سر اوون ڈکسن کی رپورٹ میں کشمیر میں استصواب رائے کے انعقاد میں حائل اختلافات بیان کیے گئے۔ سلامتی کونسل کی طرف سے سر اوون ڈکسن کا استعفی منظور کرتے ہوئے ان کی متبادل کو تین ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا اور پاکستان اور بھارت کو اقوام متحدہ کے نمائندے سے تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی۔ 31 مارچ 1951 کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملٹری مبصرین کا گروپ جنگ بندی پر نظر رکھے گا۔​قرار داد نمبر 96 میں 10 نومبر 1951 کی قرار داد میں اقوام متحدہ کے نمائندے فرینگ گراہم کی رپورٹ پیش کی گئی اور انہوں نے سلامتی کونسل میں خطاب میں کہا کہ بھارت اور پاکستان کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلانے، تنازع کشمیر کو باہمی رضا مندی سے حل کرنے اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی میں استصواب رائے کے قیام پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ قرار داد نمبر 98 میں نمائندہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہونے والے مذاکرات میں طے پایا کہ بھارت اور پاکستان ایک خاص تعداد میں کنٹرول لائن پر اپنی فوجیں تعینات رکھ سکیں گے۔ 23 دسمبر 1952 کو منظور ہونے والی قرار داد میں پاکستان کے لیے یہ تعداد 3000 سے 6000 مقرر کی گئی، جبکہ بھارت کے لیے یہ تعداد 12000 سے 18000 مقرر کی گئی قرار داد نمبر 122 میں 24 جنوری 1957 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں کہا گیا کہ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کی قانون ساز اسمبلی متنازع جموں و کشمیر کے مستقبل سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی۔ قرار داد میں مزید کہا گیا کہ سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر 91 کے مطابق جموں و کشمیر کا علاقہ متنازع ہے۔ قرار داد نمبر 123 میں جموں و کشمیر میں حالات کشیدہ ہونے پر 21 فروری 1957 کو منظور ہونے والی قرار داد میں سلامتی کونسل نے صدر گنار جارنگ سے کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع کے حل کے لیے اپنی تجاویز دیں۔

قرارداد نمبر 126میں دو دسمبر 1957 کی قرار داد میں صدر سلامتی کونسل گنار جارنگ کی رپورٹ میں بھارت اور پاکستان کو امن سے رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے نمائندہ اقوام متحدہ کو کہا گیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کا دورہ کریں اور اس تنازع میں مزید پیشرفت کے لیے اقدامات تجویز کریں۔ قرارداد نمبر 209 میں چار ستمبر 1965 کی قرار داد میں پاک بھارت کنٹرول لائن پر بگڑتی صورت حال پر بھارت اور پاکستان کو فوری طور پر جنگ بندی کا کہا گیا۔ قرار داد میں دونوں ممالک کو اقوام متحدہ کے ملٹری مبصرین کے گروپ کے ساتھ تعاون کرنے اور سیکریٹری جنرل کو تین روز میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا قرار داد نمبر 210 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی رپورٹ کے مطابق 6 ستمبر 1965 کو منظور کردہ قرار داد میں بھارت اور پاکستان کو جنگ بندی اور اپنی فوجیں پانچ اگست 1965 والی پوزیشنز پر واپس بلانے کا کہا گیا۔ قرار داد میں تنازع کشمیر کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینے کا بھی کہا گیا۔ قرار داد نمبر 211 میں سلامتی کونسل کی طرف سے قرار داد نمبر 209 اور 210 میں جنگ بندی کی ہدایات دینے کے باوجود بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نا ہونے پر 20 ستمبر 1965 کو ایک اور قرار داد کے ذریعے کہا گیا کہ 22 ستمبر کو سات بجے (جی ایم ٹی) تک جنگ بندی کی جائے اور دونوں ممالک کی فوجیں پانچ اگست سے پہلے کی پوزیشنز پر چلی جائیں قرار داد نمبر 214 27 ستمبر 1965 کو منظور ہونے والی قرار داد میں بھارت اور پاکستان کی طرف سے جنگ بندی نا کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ فریقین جنگ بندی معاہدے پر عمل کریں قرار داد نمبر 215 پانچ نومبر 1965 کو منظور کی گئی اس قرار داد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر عمل نا کرنے پر دونوں ممالک کے نمائندوں سے سیکریٹری جنرل سے ملاقات کر کے فوجوں کی واپسی کا لائحہ عمل تشکیل دینے کا کہا گیا قراد داد نمبر 307 21 دسمبر 1971 کی قرار داد میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان کے نمائندوں سے بات چیت کے بعد سلامتی کونسل چاہتی ہے کہ فوجوں کی واپسی مکمل ہونے تک جموں و کشمیر میں مکمل جنگ بندی ہو قرار داد نمبر 1172 میں بھارت اور پاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے تجربات کی مذمت کرتے ہوئے 6 جون 1998 کی قرار داد میں دونوں ممالک کو مزید تجربات نا کرنے کا کہا گیا۔ قرار داد میں سلامتی کونسل کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر کو حل کرانے میں مدد کی بھی پیش کش کی گئی۔ تنازع کشمیر سے متعلق مزید ایک اور قرار داد منظور ہوتی ہے یا پھر تنازع کشمیر کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کو دو طرفہ مذاکرات کا عمل دوبارہ سے شروع کرنے کا کہا جاتا ہے؟ دوسری طرف صدر پاکستان آصف زرداری نے گلگت بلتستان کے 78ویں جشنِ آزادی تقریب سے خطاب میں کہا کہ بھارت میں مسلمانوں پرمظالم انتہاکوپہنچ چکے،مسلم اکثریت کواقلیت میں تبدیل کیاجارہاہے،مقبوضہ کشمیرکی آزادی،وقت کی ضرورت دیرینہ مسئلےکو اقوام متحدہ کی قراردادوں کےمطابق حل ہونا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر طویل عرصے سے بھارت کے مظالم کا شکار ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے۔ بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔گلگت بلتستان (جی بی) کے ڈوگرہ راج سے 78ویں یوم آزادی پر تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے پریڈ کا معائنہ کیا، صدر آصف زرداری کو گورنر گلگت بلتستان نے جشن آزادی کی تقریب میں روایتی ٹوپی پہنائی، صدر تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر شریک ہوئے۔ صدر مملکت کی تقریب میں آمد پر بگل بجایا گیا، صدر مملکت کا گورنر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے استقبال کیا۔صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ کی بہادری کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی، 1947 میں آپ نے جہاد کر کے پاکستان میں الحاق کیا، 1947 کی جنگ میں آپ کے 1700 جوان شہید ہوئے,صدر زرداری نے کہا کہ جب ہم آپ کا یومِ آزادی منا رہے ہیں، تو آئیں ہم اپنے عزم کو تازہ کریں کہ گلگت بلتستان کو ترقی، انصاف اور مساوات کی ایک مثال بنائیں، آپ کا خطہ نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا کے لیے بہترین صلاحیتوں کا حامل ہے۔ صدر مملکت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جب آپ پاکستان کے پرچم تلے آزادی اور حقوق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، وہ اب بھی قبضے کا شکار ہیں، ہم اُن کے ساتھ کھڑے ہیں، جب تک وہ بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہو جاتے۔ گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ آگے بڑھے ہیں۔

صدر مملکت نے کہا کہ “آپ نے ہماری سرحدوں کی حفاظت کی، ترقی کے سفر میں ساتھ دیا، اور دنیا کی بلند ترین چوٹیوں پر پاکستان کا پرچم لہرایا، یہ خطہ نہ صرف پاکستان کا تاج ہے بلکہ ہمارا شمالی دروازہ اور چین کے ساتھ ہماری دیرینہ دوستی کی علامت بھی ہے۔شہید بھٹو نے ایف سی آر کو ختم کیا، ہماری حکومت نے آپ کو قانون ساز اسمبلی دی، آپ کی ہر وادی میں اسکول ہونا چاہئیں، گلگت بلتستان میں معدنیات ہیں، گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ مل سکتا ہے۔ گلگت بلتستان کو اپنی ایئر لائن ملنی چاہیے، یہ پہاڑ آپ کا اور میرا سرمایہ ہیں، آج کا زمانہ کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ سی پیک پاکستان کی ترقی کا مظہر ہے، چین ہمارا دوست اور شراکت دار ملک ہے، سی پیک فیز ٹو کامیابی سے اپنے مراحل طے کر رہا ہے، گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ گلگت بلتستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آج مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، اسی لیے آج احساس ہوتا ہے کہ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے ہمارے لیے جو کام کیا، اس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ آصف علی زرداری نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے غاصبانہ قبضے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تقریب میں آمد پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے صدر مملکت کا شکریہ ادا کیا، انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل وقت کی ضرورت ہے، 72 ہزار مربع میل کا گلگت بلتستان کا علاقہ ڈوگروں سے بغیر کسی بیرونی مدد کے آزاد کروایا اور کلمے کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ گلگت بلتستان کو شہدا کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، جس کے سپوتوں نے پاک فورسز میں ملک کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کی ہیں، گلگت بلتستان دفاعی اہمیت کا حامل ہونے کے علاوہ قدرتی وسائل کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے، تاہم یہاں کے لوگوں کو مختلف چینلجز کا سامنا ہے۔ انہوں نے صدر زرداری کی جانب سے 2009 میں علاقے کو خودمختاری دینے کے فیصلے کو یاد کیا اور کہا کہ گلگت بلتستان کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے سے یہاں کے عوام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا، اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سازشیں بھی خاک میں مل جائیں گی۔ قبل ازیں وزیراعظم شہبازشریف اپنے پیغام میں کہا یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی،گلگت بلتستان کے بہادر عوام نے حب الوطنی کامظاہرہ کرکے الحاق پاکستان کیا،یہ دن اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جس نے خطے کی تاریخ بدل دی، وفاقی حکومت گلگت بلتستان کی ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ گلگت بلتستان کا 78 یوم آزادی منایاگیا،گلگت کےعوام نےآج ہی کےدن 1947 کو ڈوگرا راج سے آزادی حاصل کی تھی،72 ہزار مربع کلومیٹرپر محیط گلگت بلتستان نےیکم نومبر1947کو اُس وقت آزادی حاصل کی جب27 اکتوبر کومہاراجہ کشمیر نےبھارتی افواج کوکشمیر میں اتارا،31 اکتوبر 1947 کی رات گلگت اسکاؤٹس نے صوبیدار میجر راجہ بابرخان کی سربراہی میں گلگت میں مہاراجہ کشمیر کےتعینات گورنر بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو حراست میں لیا اور یکم نومبرکوگلگت کو مہاراجہ کشمیر اور بھارتی تسلط سے آزاد کرایا۔ گلگت اسکاؤٹس اورمقامی لوگوں کی جدوجہد سے

گلگت بلتستان کووفاق پاکستان کےانتظامی کنٹرول میں دےدیا گیا،جو آج تک وفاق کےزیرانتظام پاکستان کا ایک اہم انتظامی یونٹ کے طور پر کام کررہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات ہی اس تنازع کا واحد حل ہو سکتے ہیں دونوں ممالک کو اپنے اختلافات دور کرنے کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تنازع کے حل میں کشمیری عوام کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ کشمیری عوام کی خواہشات اور مطالبات کو مدنظر رکھ کر ہی مستقل حل نکالا جا سکتا ہے بین الاقوامی برادری بھی اس تنازع کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ بھارت پر دباؤ ڈال کر اسے مذاکرات کی میز پر لایا جا سکتا ہے۔